سماجی سائنس میں شعور،وجود اور شخصیت کا تعین

پروفیسر محمد حسین چوہان

635757221530704687824571232_united-states-constitution-we-the-people

فلسفہ و سائنس کے شعبہ جات میں دو واضح مکاتب فکر موجود ہیں۔جن کی علم، اشیا اور معاملات کی ماہیت،حقیقت اور صحت کے بارے میں الگ الگ آرا ہیں۔ایک مکتبہ فکر اشیا اور قضیوں کی تشریح و تعبیرخالصتٗا مادی اور جدلیاتی طریقہ کار سے کرتا ہے اور دوسرا خیال پرستانہ انداز سے.جن کو مثالیت پسند بھی کہا جاتا ہے؛لیکن درمیان میں علم و سائنس کی نمائندگی اور ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا مکتبہ فکر بھی موجود ہے جس کی نہ صرف علم کی ترقی و فروغ بلکہ سیاسی اقتدار اور معاشی بالادستی پر گرفت قائم ہے بلکہ علم کو مخصوص طبقاتی مفاد تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔

اسی بنا پر سماجی سائنس اور سیاسی معا شیات کو تاریخی و جدلیاتی طریقہ کار سے پرکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا،کیونکہ علم و سائنس کا کلی طور پر سماجی سائنس پر اطلاق کیا جائے تو انسانیت کی خدمت تو ہو جاتی ہے مگر مخصوص طبقات کے مفادات پر نہ صرف ضرب کاری لگتی ہے بلکہ ان کا صفحہء ہستی سے خاتمہ ہو جاتا ہے۔اسی بنا پر سائنس و فلسفہ میں توہم پرستانہ افکار کو داخل ہونے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے،بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ مغربی سرمایہ دارنہ نظام میں پروان چڑھنے والی سائنسی فکر پر بھوت سوار ہے۔مثالیت پسندانہ اور سرمایہ دارانہ سائنسی طرزفکر سماج کو آپنے متعین کردہ ضابطوں اور قوانین کے تحت چلانا چاہتا ہے،جسے معاشرتی ارتقا میں نہ صرف جمود و تعطل پیدا ہوتا ہے بلکہ سماجی انصاف اور تحفظ کی راہیں بھی مسدود ہو جاتی ہیں۔

مثالیت پسندی نے انسانیت کو جمود و تعطل کے سوا کچھ نہیں دیا،مگرسرمایہ دارانہ سائنسی فکر کی ہم نوائی کر کے انھوں نے تیسری دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کے انہیں وسیع مواقع اور جواز فرہم کئے.جس کی بنا پر انسانیت کشی،قتل و غارت گری،بھوک و بیروزگاری اور ماحولیاتی آلودگی نے کرہء ارض کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے۔اس علمی قضایا میں انسانی شعور اورروح ابھی تک خلا میں قلا بازیاں کھا رہا ہے اور وجود وشخصیت کا سماج کی کلیت سے رابطہ منقطع کر کے احساس بیگانگی کی نذر کر دیا گیا ہے۔

انسانی روح اور شخصیت کو میکانکی فلسفے کے تحت الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اشیائے خرید و فروخت میں تبدیل کر دیا گیا ہے،انسانی شعور جسم کا حصہ نہیں اور اس کا وجود اجتماعی شعور کے فتو وں کے رحم وکرم پر ہے۔انسان کو اپنے ہونے کا احساس اور شخصیت کا تعین اس کی تخلیقی صلاحیتیں نہیں کرتیں بلکہ اس کا سرمایہ کرتا ہے۔ جبکہ شعور ،وجود اور انسانی شخصیت کو فطری قوانین، ثقافتی لطافتوں اورتاریخی ارتقا کے اصولوں کے تحت دیکھنے سے سماجی انصاف ، اور انسایت کی بقا و بھلائی کے راستے خود بخود ہموار ہو جاتے ہیں۔

مثالی اور میکانکی فلسفے میں روح اور مادے کی حیثیت کا جو تعین کیا گیا،اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ دکھا ئی نہیں دیتا۔ایک نے مادے کو فانی اور روح کو غیر فانی قرار دیا تو دوسرے نے ا نسان کو ایک مشین کے مشابہ سمجھا اور عضویات کی طرح شعور و دماغ کو مشین کے کل پرزے قرار دیا۔نیوٹن اور ڈیکارٹ کے میکانکی فلسفے کو اٹھارویں صدی میں بہت پذیرائی نصیب ہوئی۔اہل مذاہب نے روح کو امر ربی قرار دیا۔مثا لیت پسندوں کی اکثریت روح کو خدا کا گھریا کائناتی روح کا عکس قرار دیتی رہی،شعور اورروح کی اصلیت ،اس کے وجود اور فریضہ پر عقیدے گھڑے گئے،مگر اس کا علم بدیہی ترکیبی تصدیقا ت کا درجہ حاصل نہ کر سکا،اس کو شے بالذات قرار دیا گیا۔

اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انسان کا دماغ اور شعور کا مطالعہ ہنوز تشنہ طلب ہے۔مگر جدید تحقیق نے اس کو توہم پرست نظریات سے باہر نکال پھینکا ہے۔249کیونکہ یہ بات تجربے اور تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ نامیاتی فطرت کا جنم مردہ فطرت سے ہوا،،۔مادہ زہن سے آزاد معروضی وجود رکھتا ہے۔مادہ ازل سے موجود ہے اور روح و شعور مادے کی لطیف ترقی یافتہ شکل ہے،جو تاریخی ارتقائی منازل طے کر کے آپنی آخری شکل میں موجود ہے۔جس میں انسانی محنت وجدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے بقول اینگلز محنت پہلے ہوتی ہے اور با معنی گفتگو کا آغاز بعد میں ان دو ابتدائی قوت محرکہ نے بن مانس کے دما غ کو انسان کے دماغ میں تبدیل کر دیا۔

جا نور فطرت اور ماحول کے تابع ہوتے ہیں ،جبکہ انسان فطرت اور فطری جبر پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،آپنی ضروریات اور احتیاج پوری کرنے کے لئے ماحول کو تبدیل کرتے ہیں اور اس تبدیلی کے ساتھ وہ خود بھی تبدیل ہو جاتے ہیں،،مسلسل مشق اور جدوجہد کے نتیجے میں حیاتیاتی تبدیلی کا یہ سفر جاری و ساری ہے جسکو تاریخی جدلیات سے موسوم کیا جاتا ہے۔جاندار،نباتات اور جمادات کا سائنسی مطالعہ صرف رسمی منطق کے تحت نہیں کیا جا سکتا،اس کے لئے جدلیاتی طریقہ کار بروئے کار لانا پڑتا ہے۔

انسانی شعور کا عمومی فریضہ حواس کے ذریعے ماحول کو سمجھنا اور اس پر رد عمل کا اظہار کرنا ہے،خارجی زندگی میں واقع ہونے والی ہر طرح کی آوازو حرکت ،خوشبو،رنگ وذائقہ احساسات وجذباتٍ کو حواس خمسہ یا عصبی مہیجات کے ذریعے معلومات حاصل کرتا ہے اور تجزیہ و تنقید کے ذریعے خام معلومات کوترکیبی تصدیقات کے سانچے میں بھی ڈھالتا ہے۔شعور کا جب تک خارج سے تعلق قائم نہ ہو کسی دوسرے ذرائع سے اس تک معلومات نہیں پہنچ سکتی۔انسانی شعور کا تعلق نہ صرف معروضات سے قائم ہوتا ہے بلکہ سماجی اذہان سے بھی قائم رہتا ہے جس سے ہم سماجی ذہنی ہم آہنگی سے تعبیر کریں تو بے جا نہ ہو گا،جس میں تمام اذہان آپس میں گفتگو کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں،اور آپس میں ہم آہنگی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں،جس میں کسی چیز کا ردو و قبول شامل ہوتا ہے۔

مادے کی اس لطیف ترین اور نا قابل گرفت شے یعنی شعورآپنی بلندی پر فائز ہونے کے باوجود بھی ماحول اور خارجی زندگی کا محتاج رہتا ہے۔انسان کی تخلیق کم و بیش پچاس ٹریلین سیلز سے ہوئی ہے ۔اور ہر سیل کو عضویات کو حرکت دینے کے لئے ایک لاکھ سے زائد مختلف اقسام کی پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان کی شخصیت بنی ہے مگر انسانی شخصیت کے اوصاف جین نہیں اس کا خارجی ماحول متعین کرتا ہے۔موروثیت کا دس فی صد سے زیادہ انسانی شخصیت پر اثر نہیں ہوتا،وہ بھی بیماریوں اور جسمانی خدو خال کے حوالے سے،سیل کے کردار کو ماحول جنیٹک کوڈ کی تبدیلی کے بغیر تبدیل کر دیتا ہے اور اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔

جین اور شعورماحول سے مطابقت ،رابطہ قائم کر کے رد عمل کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ ردو قبول کے اس مرحلے میں تبدیل بھی ہو جاتے ہیں،ان کا مزاج اور کردار ماحول کا پابند ہوتا ہے۔محنت و جدوجہد اور اپنی بقا کے لئے تبدیلی کے اس سفر میں شعور خود بھی تبدیل ہو جاتا ہے،جس کو تاریخ و معاشرے کے ارتقائی سفر سے موسوم کیا جاتا ہے۔سماجی زندگی اور مادی علائق کاانسانی شخصیت اور شعور کی تعمیر و نشونما میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔اس میں کسی غیبی اشارے یا پیغام رسانی کا سراغ ابھی تک نہیں ملا ہے،امکانی دنیا ،خلائی مخلوق یا غیبی اشاروں کے بہت سی مذہبی اور سائنسی تھیوریاں ہنوز علم وتجربے کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں،مگر تصدیق علمی کی سند سے شرف باریاب نہیں ہوسکی ہیں۔

شعور اور شخصیت کا ماحول سے تعلق قائم قائم کرنے سے سماجی سائنس کے فلسفے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں اور معاشرتی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہونا شروع ہو جاتا ہے۔انسانی شعور اور شخصیت کو وراثت،نسل اور روحانیات سے جوڑنے سے نہ صرف سیاسی و معاشی بلکہ مکمل طور پر تمدنی ترقی کا سفر رک جاتا ہے اور ایک غیر علمی فضا میں مخصوص طبقات جنم لینے شروع ہو جاتے ہیں۔جو علم دشمنی اور ا نسان دشمنی میں انسانیت کا استحصال کرتے ہیں۔

انسان کی شخصیت اور شعور ٹھوس مادی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں،اس کے افکار اور نظریات اور شعور معاشی وسیاسی سرگرمیوں کی دین ہوتے ہیں۔سیاسی اقتصادیات فرد کی شخصیت کا تعین کرتی ہے،اس کا معاشرتی وجود اس کے تاریخی وجود کا عکس ہوتا ہے،پیداواری قوتیں اور مخصوص معاشی شرائط سے آدمی کی شخصیت اور شعور جلا پاتے ہیں،پیداواری قوتوں کی ترقی و تبدیلی سے نہ صرف انسان کے سماجی وجودمیں تبدیلی واقع ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا شعور ،افکار،و خیالات اور ذ ہنی میلانات بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔

یعنی خارجی حالات شخصی خاکے 249جنیٹک کوڈ249 کی تبدیلی کے بغیر سیلز کے مزاج کو تبدیل کر دیتے ہیں۔مارکس اور اینگلز سے قبل انسانی تاریخ صرف نظریات اور واقعات کے تذ کروں سے بھری پڑی تھی،اور شعور کو وجود پر تقدم حاصل تھا،حتٰی کہ ڈیکارٹ کا مشہور قول کہ249میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں،نے مثالی فلسفہ پر ضرب کاری لگا دی تھی۔مگر مارکس اور اینگلز ہی تھے جنہوں نے خالصتٗا مادی فلسفے کا اطلاق کیا۔کہ وجود شعور کے بغیر بھی آپنا وجود قائم رکھتا ہے،مگر شعور وجود کے بغیر آپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا ،گرچہ بظاہر یہ دونوں مختلف ہیں،مگر باہمی طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور شعور مادہ و وجود کے عکس کے اظہار کا ہی تو نام ہے۔

مارکس کا اس سلسلے میں مشہور قول کہ
“it is not the consciousness of men that determines their being,but on the contrary their social being that determines their consciousness,,249249
یہ انسان کا شعور نہیں جو اس کے معاشرتی وجود کا تعین کرتا ہے بلکہ اس کے برعکس اس کا معاشرتی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے،،اس بات کو مزید صراحت کے ساتھ بیان کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ رجعت پسند سرمایہ دار معا شرے میں تمامتر سیاسی و سماجی اخلاقی و روحانی قدروں کا تعین صرف وصرف مادی قدروں سے ہوتا ہے۔کوئی بھی نظریہ کتنا ہی روحانی فلسفہ کا علمبردا ر کیوں نہ ہو جب وہ پھیل کر انسانی دماغوں میں راسخ ہو جاتا ہے اور قبولیت عام کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو وہ اتنا ہی طاقتور مادیت کا حامل ہو جاتا ہے،طاقت کے ساتھ تقدیس بھی شامل ہو جاتی ہے،اجتماعی شعور توہم پرستی کا شکار ہو جاتا ہے اور وجود تقدس کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے،

کیونکہ مثالی فلسفہ ٹھوس سماجی اور معاشی حقائق سے بالاتر ہو کر شعور کو اولیت دے کر سماجی وجود کو الوہی وجود عطا کر د یتا ہے،یہ شعور و تخیل کی لذت آفرینی ہے جو سہانے خوابوں میں پناہ ڈھوندھنا چاہتی ہے۔شخصیت کتنی ہی مقدس کیوں نہ ہو آپنے عہد کے ٹھوس سماجی حالات کی پیداوار ہوتی ہے،آپنے عہد سے نہ پہلے اور نہ بعد میں کسی نابغہ رازگار ہستی کا ظہور ہوتا ہے،اور اس کا سماجی وجود ہی اس کے شعور اور شخصیت کا تعین کرتا ہے،بعض اپنے عہد کے سپر سٹار دوسرے عہد کے بونے کریکٹر ہوتے ہیں۔مگر اپنے عہد کے ہیرو کا تمدنی ترقی میں ایک اہم کردار سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

سرمایہ داری میں فرد کی شخصیت کی نشو ونما کے تمام امکانات ختم ہو جاتے ہیں وہ عمومی طور پر ساری زندگی ایک فرد ہی رہتا ہے۔زندگی کے مختلف شعبوں میں آپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا،کیونکہ اس کو اپنی حیاتیاتی زندگی کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور معاشرتی سطح پر معاشی و سیاسی سرگرمیوں اور پیداواری قوتوں کے ساتھ اس کا آزاد تعلق قائم نہیں ہو سکتا،وہ معاشرے کے سواد اعظم سے روحانی اور جسمانی دونوں سطحوں پر کٹ جاتا ہے۔اس طرح استحصال کرنے والے معاشروں میں ظلم و نا انصافی،غربت و بے روزگاری،جہالت ونسل پرستی،فرقے بندیاں طبقات پیدا کرتی ہیں اور شخصیات کا ظہور صرف و صرف ہر طبقہ کی بالائی سطح سے ہوتا ہے،جس میں معاشی قدر ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔عام فرد سبزہء نو دمیدہ کی طرح سر اٹھاتے ہی پامال ہو جاتا ہے۔

ایسے معاشروں میں صرف بورژوا سیاسی،مذ ہبی اور سماجی شخصیات پیدا ہوتی ہیں،جن کا قدو کاٹھ ان کی ذاتی آمدن اورزرائع پیداوار سے متعین ہوتا ہے،ایسی کھوکھلی شخصیات معاشرے کی اجتماعی روحانی اور مادی ترقی کے سفر کو سست کر دیتی ہیں ،عام فرد کے ذاتی جوہر کو بر تر سماجی وجود عطا کرنے کی بجائے احساس بیگانگی کا شکار کر دیتی ہیں۔فر دکی ذاتی صلاحیتوں کو پنپنے کے لئے کم از کم ایک عادلانہ سیاسی ومعاشی نظام کی ضرورت ہوتی ہے،جہاں ایک فرد زندگی کی بنیادی ضروریات آسانی سے پورا کرسکے اور اس کے پاس سوچنے اور تخلیق کرنے کے لئے بہت سا وقت بھی موجود ہو،ثقافتی لطافتوں اور سرگرمیوں میں بھر پور شرکت کر سکتا ہو۔

اس خواب کی تعبیر مغرب کی فلاہی ریاستیں بھی کما حقہ پوری نہیں کرسکیں،کیونکہ فرد کو آپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس کا سارا وقت کام میں صرف ہو جاتا ہے،اور تفریح و تخلیق کے لئے اس کے پاس ایک احساس بیگانگی کے سوا کچھ نہیں بچتا،مگر پھر بھی فلاہی ریاستوں میں پسماندہ معاشروں کے بر عکس انسانی شخصیت کی نشونما کے زیادہ مواقع ہیں۔فرد کی کامل آزادی کا خواب ایک حقیقی جمہوری عوامی ریاست کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا،جہاں طبقات کے بر عکس عوام کی حکومت ہو،اس سفر کو طے کرنے کے لئے ایک مسلسل عوامی جمہوری جدوجہد کی ضرورت ہے۔

تیز تر معاشی و صنعتی ترقی کی وجہ سے مغرب کی فلاہی ریاستیں کساد بازاری کا شکار ہو رہی ہیں،بحران جنم لے رہے ہیں،آزاد معیشت عالمی سطح پر سخت مقابلہ بازی کا شکار ہے،معیشتیں سکڑ رہی ہیں اور ایک برتر معاشی و سماجی نظام کی طرف پیشرفت کے امکانات بڑھ رہے ہیں،جس میں وطن عزیز میں بھی اشرافیہ اور رجعت پسند قوتوں کے خلاف عوام اور متوسط طبقے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ایک فرد کے لئے یہ بات اتنی اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ شعور اور وجود میں سے کسی ایک کی بر تری کا قائل ہو بلکہ ہر فرد کے لئے صرف و صرف اتنا جاننا ضروری ہے کہ سماج میں اس کا مشترکہ دشمن یا وہ کون سے عوامل ہیں جو اس کے سماجی وجود کا اپنی مرضی سے تعین کرتے ہیں۔

Comments are closed.