قائداعظم سیکولر ازم چاہتے تھے یا تھیا کریسی

سید نصیر شاہ

majinnah2فرانس کے انقلابی ادیب اور نظریہ ساز مفکر روسو سے یہ قول منسوب ہے۔
’’
میں تمہاری بات کے ایک ایک لفظ کو غلط سمجھتا ہوں لیکن میں اس امر پر جان قربان کرنے کو بھی تیار ہوں کہ تمہیں یہی بات آزادانہ کہنے کا حق حاصل رہے‘‘۔
اہل علم کہتے ہیں کہ یہ قول روسو کا نہیں اس کے کسی سوانح نگار کا ہے جو اس نے روسو کے خیالات کو ترجمانی کرتے ہوئے لکھا تھا۔ قول کسی کا بھی ہو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ایڈیٹر نیازمانہ بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں۔
مجھے مرزا خلیل احمد قمر اور ابوالفضل محمود سے ہمدردی ہے کہ میری تحریر سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ عقیدت کے آبگینے بہت بھربھرے اور نازک ہوتے ہیں، عقیدت کی آنکھیں بھی درختہ اور آموختہ ہوتی ہیں یہ وہی کچھ دیکھتی ہیں جو دیکھنا چاہتی ہیں کاش یہ سب کچھ دیکھنے کی ہمت رکھتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو قمر صاحب اورمحمود صاحب بھی مشتاق احمد جیسی حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے کہتے ’’شاہ صاحب نے دہی کچھ لکھا ہے جو پہلے سے لکھا جاچکا ہے‘‘۔
اہل پاکستان میں سے اکثر حضرات کے پاس قائداعظم اور بعض دیگر حضرات کے سلسلہ میں عقیدت سے لبریز آنکھیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا ان کے’’ہیروز‘‘ کو ان کی آنکھوں سے دیکھے او رجو چیزیں ’’ان ہیروز‘‘ کے خلاف جاتی ہوں ان کی طرف سے آنکھیں بند کرلے یا صرف نظر کرتے ہوئے کہا جائے ’’بات چل گئی ہے تو اسے چلنے دو‘‘ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ آج کا دور آنکھوں پر پڑے ہوئے پردے چیر کر سب کچھ واشگاف دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاریخ کا بے رحم ہاتھ بھی عقیدتوں کی رنگ برنگی عینکیں نوچنا مستحسن سمجھتا ہے۔ تاریخ تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ آنے والی نسلیں واضح طور پر دیکھیں اور سوچیں کہ ان کے پرکھوں کے قدم کہاں صحیح سمت کو اٹھے او رکہاں ان سے غلطی ہوئی۔ تاریخ نگار کو کسی سے اندھی عقیدت ہوتی ہے نہ کسی سے کورانہ دشمن، اس کا تویہ فریضہ ہوتا ہے کہ حقائق کو بے کم و کاست بیان کرتا جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اپنے ضمیرسے بھی غداری کرتا ہے او رآنے والی نسلوں سے بھی فریب کا ارتکاب کرتا ہے۔

میں بھی تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں مجھے قائداعظم سے کسی طرح کی عداوت ہے نہ بے بصیرت محبت وعقیدت، میں جو کچھ لکھتا ہوں پوری سند کے ساتھ لکھتا ہوں۔ اپنی طرف سے ایک لفظ بھی نہیں لکھتا او راس کے ساتھ میری کوشش ہوتی ہے کہ عقیدت کیشوں کی باتیں بھی سامنے لاؤں، وہ تحریریں بھی پیش کروں جو کسی تعصب بھرے قلم سے ٹپکی ہیں اور ان لوگوں کی آراء بھی درج کردوں جو غیر جانبدار ہیں اس طرح قاری کو نسبتاً متوازن اور درست رائے قائم کرنے کے مواقع فراہم کروں۔ پچھلے مضمون میں بھی میں نے یہی کچھ کیا اور زیر نظر مضمون بھی اسی کوشش کا غماز ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے ’’تاریخ نویسی کی اعلیٰ صنف‘‘ او ر’’سوانح نگاری میں ارفع‘‘ کوشش قرار دیا جاتا ہے۔

ایک اور بات جس کی وضاحت ضروری ہے یہ ہے کہ تاریخ نگاری کو مسلمانوں نے ہی خوبصورت جہات عطا کر کے اسے بلند پایہ علم کا درجہ دیا تھا۔ قرآن حکیم نے شخصیت پرستی او رپرستش آباء قلع قمع کرتے ہوئے سمع وبصر کو مسؤل ٹھہراکر ہر بات کو پوری طرح چھان پھٹک کر قبول کرنے کا حکم دیا تھا ۔اسی حکم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں نے ’’اسماء الرجال‘‘ جیسے عظیم اور بے مثال عالم کو وجود بخشا تھا اور تقریظ وتنقیص کو پامال کرتے ہوئے سچی اور کھری تنقید کی بنیادیں استوار کی تھیں یوں تاریخ ایک مایہ ناز علم بن گئی تھی مگر افسوس ہے کہ بعد میں خود مسلمانوں نے تاریخ کو قتل کرنا شروع کردیا اور اسے حقیقت سوز المیہ بنادیا۔

قائداعظم کو اس دنیا سے رخصت ہوئے صرف تریسٹھ (63) برس گزرے ہیں مگر آج ان کی زندگی ایک چیستاں بن گئی ہے۔ وہ کیا تھے اور کیا نہیں تھے؟ یہی بحثیں چھڑی ہوئی ہیں اتنے اندھیرے پھیلادئیے گئے اور اتنی دھول اور دھنداٹھادی گئی ہے کہ ٹامک ٹوئیاں ماری جارہی ہیں اور حقیقت کا سراہاتھ نہیں آتا۔ اس میں زیادہ ہاتھ قائداعظم کے نادان دوستوں او راحمق پر ستاروں کا ہے۔ قائداعظم فرشتہ تھے نہ پیغمبر وہ عام انسان تھے اور انسان بہرحال غلطی سے مبرا نہیں ہوتا۔ اس کے قدم درست بھی اٹھتے ہیں او رغلط بھی مگر نادان دوست نے ’’میک اپ‘‘ کی ایسی بھونڈی کوششیں کی ہیں کہ پوری صورت بگڑگئی ہے ستم کی انتہاء یہ ہے کہ بعض تاریک ضمیر لوگوں نے اپنی طرف سے تحریریں لکھ کر انہیں قائداعظم سے منسوب کردیا ہے۔ ایسی ہی کارستانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج قائداعظم پر لکھنے والوں کو جن مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا ہلکا سا پر تو اس تحریر میں دیکھ لیجئے جو جناب قیوم نظامی جیسے حقیقت پسند مصنف کے قلم سے اس وقت صادر ہوئی جب وہ قائداعظم کی زندگی کے ایک پہلو پر لکھ رہے تھے موصوف لکھتے ہیں۔

’’مجھے اس موضوع پر لکھتے ہوئے انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حیران کن او رافسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کے بانی او رپہلے گورنر جنرل کاوہ سرکاری ریکارڈ نیشنل آرکائیوز میں موجود نہیں ہے جو قائداعظم کے پالیسی ساز فیصلوں پر مشتمل تھا۔ قائداعظم بحیثیت گورنرجنرل اہم فائلوں پر نوٹ لکھ کر حکم جاری کرتے رہے وہ فائلیں کسی سرکاری یا نجی ادارہ میں موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا ذکر ڈاکٹرزوار زیدی کے ’’جناح پیپرز‘‘ میں ملتا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ قائداعظم کی وفات کے بعد جو سیاستدان، سول سرونٹس اور فوجی آفیسر مقتدر ہوگئے او روہ قائداعظم کے سیاسی نظریات سے متفق نہیں تھے انہوں نے چونکہ ریاست کو قائداعظم کے تصور سے انحراف کرتے ہوئے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق چلانا تھا لہٰذا انہوں نے قیمتی قومی ریکارڈ ضائع کردیا۔ مجھے تحقیق کے دوران انکشاف ہوا کہ بعض مصنفین نے فکری بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ساختہ تحریریں قائداعظم کے نام منسوب کردی ہیں۔ شخصیت کو مسخ کرنا یا اُسے میک اپ کرکے پیش کرنا ہماری روایت رہی ہے‘‘(قائداعظم بحیثیت گورنرجنرل ازقیوم نظای ص5)۔ 

ہم نے بھی یہی کچھ لکھا تھا کہ قائداعظم کو اگر ان پر لکھنے والوں کی تحریروں کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ان کی دومتضاد تصویریں بنتی ہیں۔ ان تصویروں میں سے کون سی حقیقی تصویر ہے؟ آنے والی نسلوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہم نے یہی کہنے کی جسارت کی تھی اگر یہ جرم ہے تو ہمیں اس کی عادت ہے اور اگر آنکھیں بند کرکے ایک ہی لکیر پر چلتے رہنا ہے تو افسوس ہے کہ ہمیں اس کا تجربہ نہیں یہ مہارت جن لوگوں کو حاصل ہے ان کو ہی مبارک ہو۔

سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس کا صاف اور سیدھا جواب ہے کہ قائداعظم کے افکار واحوال میں ہمارے سیاست کا راپنے راستے ڈھونڈھنے لگے ہیں اس لئے ان کے افکار واحوال کی چھان پھٹک ضروری ہوگئی ہے۔ ہمارا آج کا موضوع بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ آج ہم یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ قائداعظم اس ملک کو سیکولر آئین دنیا چاہتے تھے یا وہ یہاں تھیاکریسی نافذ کرنا چاہتے تھے۔

اس موضوع پر کچھ کہنے سے پہلے سیکولرزم اور تھیاکریسی‘‘ کا مفہوم متعین کرنا ضروری ہے۔سیکولرزم اور ستم رسیدہ اور مظلوم لفظ ہے جو وضع کسی اور مفہوم کے لئے ہوا تھا مگر ہمارے ستم شعار تعبیر نگاروں نے اس اور ہی مفہوم دے دیا۔

سیکولرزم:۔
ملک کوئی بھی ہو اس میں بالعموم مختلف مذاہب سے وابستہ لوگ بستے ہیں ان کے مذہبی عقائد اور ایمانیات مختلف ہوتے ہیں سیکولرزم یہ ہے کہ مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ سمجھ کر ہر فرد کو حق دیا جائے کہ وہ اپنے عقائد اور ایمانیات میں آزاد ہو وہ اپنی حدود میں رہ کر اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے میں پوری طرح آزاد ہو اور کوئی اُس پر جبراً اپنے عقائد ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے وہی بات کہ
لڑتے ہیں اختلاف عقائد پہ لوگ کیوں
ہے یہ تو اک معاملہ دل کا خدا کے ساتھ

سیکولر ملک وہ ہوتا ہے جس میں ملک کے آئین کو کسی مذہب کا پابند نہ بنایا جائے آئین تمام ابنائے وطن کی یکساں فلاں وبہبود کا ضامن ہو او رہر ایک کو اپنی حدود میں پوری مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہو، اسے لفظ کی کہا جائے یا ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ملک میں سیکولرزم کے معنی بتائے گئے ،الحاد ، بے دینی یا ’’کفر‘‘۔ یہ معنی پھیلانے میں جماعت اسلامی کا بڑا ہاتھ ہے اس پروپیگنڈا کی ماہر جماعت نے اس زور وشور سے یہ معنی پھیلائے کہ ہمارے انگریزی اردو لغت نویسوں نے بھی اس کے یہی معانی لکھ دئیے۔ اس طرح یہی ذہنوں اور زبانوں پر غالب آگئے اس طرح یہ غلط فہمی عام ہوگئی حتیٰ کہ ہمارے چیف جسٹس نے بھی یہ لفظ ان ہی معنوں میں استعمال کیا۔

تھیاکریسی:۔
تھیاکریسی مذہبی حکومت کو کہتے ہیں جس ملک کا آئین کسی مذہب کا پابند ہو تو اس ملک کو تھیاکریٹک ملک کہا جاتا ہے۔ جب ملک کا آئین کسی ایک مذہب کا پابند ہوگا تو وہ اُن تمام اہل وطن کی حق تلفی ہوگی جو دوسرے مذاہب سے منسلک ہوں گے۔ اس طرح وہ لازماً دوسرے درجہ کے شہری ہوجائیں گے۔ اگر بالفرض تمام شہری ایک ہی مذہب کے نام لیوا ہوں تو بھی اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہر مذہب سے وابستہ لوگ اسی مذہب کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے فرقوں کے درمیان بعض معاملات میں اتنا اختلاف ہوتا ہے کہ بات حرام حلال تک پہنچ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں سنی شیعہ اور اہل حدیث بستے ہیں ایک آدمی اپنی زوجہ کو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دیتا ہے سنی حضرات کے نزدیک وہ عورت مطلقہ ہوجاتی ہے او راب مرد کا اس سے زناشوئی تعلق رکن حرام ہے لیکن شیعہ اور اہل حدیث حضرات کے نزدیک اس صورت میں صرف ایک طلاق ہوتی ہے اور مرد کا عورت سے تعلق قائم رکھنا حلال ہے۔ یہ اور اس طرح کے اور بیسیوں اختلافات ہیں۔

گویا ایک مذہب کے نام لیواؤں کے قوانین بھی ایک جیسے نہیں۔ اگر مذہبی حکومت ہوگی تو لاکھوں پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ کوئی مذہب بھی ہو وہ اس ماحول اور معاشرت سے آزاد نہیں ہوسکتا جس میں وہ نازل ہوا دوسرے ماحول یہ اس کے قوانین نافذ کرنے کی کوشش بھی الجھنیں پیدا کرتی ہے اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ زمانہ میں تغیرات آتے رہتے ہیں ان کے ساتھ قوانین بھی تبدیل ہوجاتے ہیں ایک منجمد مذہب ان کا ساتھ نہیں دے سکتا پھر مذہب کے علماء ہی مذہبی قوانین میں اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں وہ پرانی کتب کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور ہر نئی چیز ان کے لئے ناقابل فہم ہوتی ہے اس لئے ان کی بارگاہوں سے متضاد فتوے صادر ہوتے ہیں ان لوگوں کے ہاتھوں اہل دانش کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان کی داستان طویل بھی ہے اور دردناک بھی، ان ہی سے گھبرا کر دنیا سیکولرزم کی طرف آئی۔

اب آئیے دیکھیں کہ قائداعظم پاکستان میں سیکولرزم چاہتے تھے یاتھیاکریسی؟ جب اس امر پر ہم غور کرتے ہیں تو بھی بہت سے تضادات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں مگر انہیں پیش کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ قیوم نظامی صاحب کی وہ صراحت ذہن میں تازہ کرلیجئے جو ہم پہلے درج کر آئے ہیں کہ ’’مجھے تحقیق کے دوران انکشاف ہوا کہ بعض مصنفین نے فکری بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ساختہ تحریریں قائداعظم کے نام سے منسوب کردی ہیں‘‘۔ پہلے وہ اقتباسات دیکھئے جن سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ قائداعظم پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے تھے یا دوسرے لفظوں میں تھیاکریسی نافذ کرنا چاہتے تھے کیونکہ اسلامی قوانین کی بات بالآخر مذہبی رہنماؤں کے فیصلہ کی پابندی پر ہی جارکتی ہے۔ بہرحال یہ اقتباسات دیکھئے

’’اس حقیقت سے سوائے جہاد کے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا واحد ضابطہ زندگی ہے جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوج، دیوانی اور فوجداری قوانین اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ مذہبی رسوم ہوں یا روزمرہ کے معمولات، روح کی نجات کا سوال ہویا انفرادی اخلاقیات یا جرائم، دنیاوی سزا کا سوال ہو یا آخرت کے مواخذہ کا ان سب کے لئے اس میں قوانین موجود ہیں‘‘ (بحوالہ تقاریر قائداعظم ج2 ص300 )۔

’’میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ مُلا، نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے البتہ میں نے قرآن مجید او رقوانین اسلام کے مطالعہ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے اس عظیم کتاب میں انسانی زندگی کے ہرباب کے متعلق ہدایات موجود ہیں زندگی کا روحانی پہلو ہویا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی کوئی شعبہ قرآنی تعلیمات کے احاطہ سے باہر نہیں‘‘ (بحوالہ ’’قائداعظم آپ کہاں ہیں‘‘ ص15)۔

’’ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں‘‘ (تقاریر جلد2صفحہ246)۔

’’مسلمانوں نے ایک حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ ان کی حفاظت ، نجات اور عقائد کا واحد ذریعہ پاکستان ہے پاکستان وجود میں آگیا تو ساری دنیا میں یہ آواز گونج اٹھے گی کہ ہاں اب ایک مسلم سٹیٹ کا قیام عمل میں آگیا ہے جو اسلام کے ماضی کی درخشندہ عظمت وشوکت کا احیاء کرے گی‘‘(تقاریر جناح جلد2صفحہ85)۔

’’مسلمان اس لئے پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مملکت میں وہ اپنے ضابطہ زندگی، اپنی ثقافتی نشوونما اور روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزاریں‘‘۔ (تقاریر جلد2صفحہ333)۔

’’مسلمانو! میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد او رسربلند دیکھوں میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین او راطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم او رمدافعت میں اپنا کردار ادا کردیا میں آپ سے اس کی شہادت اور دادکا طلب گار نہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا اپنا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کاحق ادا کردیا جناح تم مسلمانوں کی تنظیم اتحاد اور حمایت کا فرض بجالائے میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں علم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘

یہ آخری اقتباس روز نامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور کے شمارہ 16ستمبر1985ء میں شائع ہوا او راس پر حوالہ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ 22اکتوبر1939ء درج ہوا بتایا گیا کہ یہ بات قائداعظم نے مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں کہی تھی۔ نوائے وقت سے اسے ماہنامہ ’’طلوع اسلام‘‘ لاہور نے نقل کیا وہاں سے ایک مولف اشرف ظفر نے اپنی کتاب ’’مذہبی اور سیاسی فرقہ بندی‘‘ ص510پر نقل کیا۔ شاید وہیں سے ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اسے22دسمبر2011ء کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’’صبح بخیر‘‘ میں نقل کردیا مگر حوالہ روزنامہ انقلاب 22اکتوبر1939ء لکھ دیا۔ 

یہ وہ چیدہ چیدہ اقتباسات ہیں جو اس امر کی دلیل بنتے ہیں کہ قائداعظم پاکستان میں مذہبی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ مذہبی حکومت قائم کرنا مقصود ہوتو اس سلسلہ میں اتھارٹی مذہبی علماء ہی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور قائداعظم خود اس حیثیت کے حامل نہ تھے یہ بھی عریاں حقیقت ہے کہ وہ ذاتی حیثیت سے مکمل طور پر مذہبی احکام پر عمل پیرا نہیں سمجھے جاتے تھے۔ یوسفؔ ہارون کا وہ بیان تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں کہ قائداعظم کو نماز پڑھنے کا طریقہ بھی نہیں آتا تھا اور یوسف ہارون نے انہیں کہا تھا جس طرح میں کروں اسی طرح کرتے جانا۔ اس کے علاوہ وہ نماز کے اجتماعات میں شرکت سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے اس ضمن میں ان کے ایک شیدائی بیوروکریٹ ایم اقبال اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں۔

’’مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو مولانا شبیر احمد عثمانی باہر نکلے ملازمین نے صفیں بچھادیں۔ اذان ہوئی مولانا عثمانی امامت کے لئے کھڑے ہوگئے۔ خبر نہیں ورکنگ کمیٹی کے کتنے ممبر باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہوں گے لیکن اس روز سبھی وضو کرتے دکھائی دئیے ان میں لیاقت علی خان، حسین امام، عبدالستار سیٹھ، ایوب کھوڑو وغیرہ شامل تھے لیکن قائداعظم نظرنہ آئے وہ سگارسلگائے ڈرائنگ روم میں اکیلے بیٹھے کسی سوچ میں مستغرق تھے‘‘ (’’گونج‘‘ از ایم اقبال صفحہ133)۔


اسلامی نظام کے نقیب علماء ہی ہوسکتے تھے مگر علماء بالعموم مسلم لیگ کے مخالف تھے او رقائداعظم علماء کی مخالفت کو مسلم لیگ کاکارنامہ سمجھتے تھے چنانچہ انہوں نے 5فروری 1938ء کو علی گڑھ میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

مسلم لیگ نے کم از کم ایک کام تو کردیا او روہ یہ کہ اس نے تمہیں مسلمان کے رجعت پسند عناصر کے چنگل سے چھڑا دیا۔ مسلم لیگ نے تمہیں اس ناخوش آئند عنصر کی جکڑبندیوں سے آزاد کرا دیا ہے جسے مولوی یا مولانا کہتے ہیں‘‘(تقاریر قائداعظم جلد1صفحہ48)۔

اس طرح وہ تھیاکریسی کے مخالف تھے انہوں نے11 اپریل1946ء کو دہلی میں مسلم لیجسلیٹو کنوینشن میں فرمایا۔
’’
اسے اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہم کس مقصد کے لئے یہ لڑائی لڑرہے ہیں ہمارا نصب العین کیا ہے ہمارا نصب العین تھیاکریسی نہیں ہم تھیاکریٹک سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے‘‘ (ایضاً جلد2صفحہ386)۔

اب ایک دو شہادتیں اس کی بھی دیکھ لیجئے کہ وہ کیا چاہتے تھے۔ ایک پاکستانی مقیم ’’ مسی ساگا کینیڈا‘‘ حسن اختر مرزا کا یہ خط روزنامہ جنگ میں چھپا تھا انہوں نے لکھا تھا۔

’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب مولانا عبدالستار خان نیازی ہمیں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں اسلامیات پڑھایا کرتے تھے۔1946ء کے آغاز میں جب قائداعظم لاہور تشریف لائے آپ ان سے ملاقات کرنے کے بعد کلاس میں تشریف لائے اور فرمایا ’’لڑکو میں آج قائداعظم سے مل کر آیا ہوں اور بہت مایوس ہوا ہوں۔ اس لئے کہ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ پاکستان میں کس قسم کی حکومت قائم کریں گے تو انہوں نے بے تامل فرمایا ’’جس قسم کی حکومت اتاترک نے ترکی میں قائم کی تھی‘‘ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور31جولائی1994ء)۔
ڈاکٹر عائشہ جلال لکھتی ہیں’’اکتوبر1944ء میں عبدالستار نیازی نے لاہور میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے ایک اجلاس طلب کیا( سول اینڈ ملٹری گزٹ)یہ بات جناح اور مسلم لیگ کے خلاف کھلی بغاوت محسوس ہوئی اور یہ بات درست بھی تھی کیونکہ اپریل1943ء میں لیگ کے دہلی میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں جناح اس موضوع پر گفتگو کرچکے تھے اور انہوں نے کہا تھا پاکستان کی حکومت وہی ہوگی جو لوگ چاہیں گے اور پاکستان کے آئندہ بننے والے آئین کو اسلامی اصولوں پر تیار کرنے کی ایک قرار داد جناح کے اشارے پر چپکے سے روک لی گئی تھی‘‘(The Sole Spokesman P-96)۔

ایک جمہوریت پسند آدمی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے قائداعظم نے خان قلات نواب احمد یار خان سے کیا کہا یہ ان کی اپنی زبانی سنئے وہ کہتے ہیں۔
میں نے قائداعظم سے کہا ’’آپ پاکستان کا آئین بنادیں اور پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دے دیں۔ یہ سن کر قائداعظم نے فرمایا یہ میں کیسے کرسکتا ہوں؟میں نے کہا جس طرح میں نے اپنی ریاست قلات میں کیا ہے۔۔۔‘‘ یہ سن کر قائداعظم بولے ’’وہ آپ کی ریاست ہے پاکستان میری ریاست نہیں پاکستان میں مختلف الخیال لوگ ہیں ان کی اپنی ایک آئین ساز اسمبلی ہے اسمبلی کو آئین سازی کا پورااختیار ہے مجھے اختیار نہیں البتہ اسمبلی جو قانون چاہے بنائے‘‘۔ (بحوالہ ’’قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل‘‘ از قیوم نظامی صفحہ79)۔

مگر اسمبلی کس طرح کا آئین بنائے؟ اس کا خاکہ خود قائداعظم نے بنادیا انہوں نے فروری1948ء میں امریکہ کے لئے جو بیان دیا اس میں فرمایا۔
’’
کچھ بھی ہو یہ مسلمہ بات ہے کہ پاکستان میں تھیاکریسی ہرگز نہیں ہوگی جس میں حکومت مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے کہ وہ بزعم خویش خدائی مشن پورا کریں‘‘(تقاریر بحیثیت گورنر جنرل صفحہ65)۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بیان کی ابتداء میں بھی قائداعظم نے اسلام کا ذکر ضروری سمجھا اور کہا۔’’مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین، اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار جمہوری انداز کا ہوگا اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح منطبق ہوسکتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے‘‘(ایضاً)۔
لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مغربی دنیا میں تعلیم وتربیت پانے والے قائداعظم اچھی طرح جانتے تھے کہ قوم مذہب سے نہیں وطن سے بنتی ہے اور پاکستان بن گیا تو اس میں بسنے والے ہندو، سکھ، عیسائی او رمسلمان جب پوچھیں گے کہ وہ اپنی نیشن کیا لکھیں تو انہیں کہا جائے گا تم پاکستانی ہو اس لئے نور محمد قریشی صاحب ایڈووکیٹ کا یہ قول درست ہے کہ’’جناح صاحب نے1947ء میں دہلی سے کراچی روانہ ہوتے ہی دوقومی نظریہ کو دفن کردیا تھا‘‘(’’توصاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی‘‘صفحہ337)۔

معروف مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزمان لکھتے ہیں۔
’’
یہ ٹو نیشن نظریہ تقسیم ہند کے بعد4کروڑ مسلمانوں کے لئے جو ہندوستان میں رہ گئے بڑا ہولناک ثابت ہوا کیونکہ 14 اور15اگست1947ء کو وہ نہ پاکستانی نیشن رہ گئے او رنہ ہندوستانی، جن کی وجہ سے ان پر بدترین مصائب نازل ہوئے۔ یکم اگست1947ء کو مسٹر جناح نے ہندوستان کے اقلیتی نمائندوں سے رخصت ہونے کے لئے ان کو بلوایا۔ اس موقع پر مسٹر رضوان اللہ سیکرٹری یوپی مسلم لیگ او رممبر کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی نے اقلیتی مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق جناح صاحب سے کچھ ٹیڑھے سوالات کئے جن سے وہ بہت پریشان ہوئے اس سے پہلے انہیں اس قدر پریشان میں نے نہیں دیکھا تھا۔ گفتگو کی یہ نوعیت دیکھ کر میں نے اسے ختم کرنا ہی مناسب سمجھا۔ اس گفتگو کا جناح پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ 11 اگست 1947ء کو بحیثیت ہونے والے گورنر جنرل اور پاکستان کا نسٹی یٹونٹ اسمبلی کے پریذیڈنٹ کے انہوں نے اولیں موقع پر دو قومی نظریہ کو اپنی ایک تقریر کے ذریعے بالکل ختم کردیا‘‘(شاہراہ پاکستان صفحہ942)۔

یہ تقریر وہی ہے جس میں قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا۔
’’
خواہ تمہارا رنگ، ذات اور دین کچھ ہی رہا ہو مگر اب بہر صورت تم سب پاکستان کے شہری ہو تمہارے وہی حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو کسی او رکی ہیں میں اس سے زائد زور نہیں دے سکتا ہم کو اس جذبہ سے کام کرنا ہے او رتھوڑے ہی عرصہ میں اکثریت او راقلیت مسلم او رہندوقوم کے قصے ختم ہوجائیں گے‘‘(ایضاً

یہ مشہور تقریر ہے او رچونکہ قائداعظم نے دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے ارشاد فرمائی تھی۔ اس لئے یہی سمجھا جانا چاہئے کہ یہ پاکستان کے دستور کا اصل الاصول ہے اس لئے اکثر باشعور حضرات کا مطالبہ ہے کہ لیاقت علی خان والی قرار داد مقاصد کی بجائے اسی کو پاکستانی دستور کی بنیاد ہونا چاہئے اور پاکستان میں سیکولر حکومت ہونی چاہئے ۔مشہور صحافی ضمیر نیازی کی تحقیق کے مطابق بددیانت ارباب کار نے اس تقریر کو محوکرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ خان عبدالغفار خان نے بھی اسی امر کی شہادت دی مگر خود قائداعظم نے اپنی جو کابینہ مقرر کی اس میں جو گندرناتھ منڈل کو وزیر قانون اور ظفراللہ خان کو وزیر خارجہ مقرر کرکے پاکستان میں سیکولر حکومت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ واضح رہے کہ سر ظفر اللہ خان احمدی تھے اور مولوی حضرات کے نزدیک یہ فرقہ کافر ہے اور بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان کی اسمبلی نے بھی یہی ’’فتویٰ‘‘ دیا مگر قائداعظم ظفر اللہ خان کو اپنا بیٹا کہتے تھے ۔بہرحال کہا جاتا ہے کہ قائداعظم سیکولرزم چاہتے تھے مگر کچھ دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ 11اگست1947ء والی تقریر کے بعد قائداعظم نے اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے 13 جنوری1948کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزماسکیں‘‘ (بحوالہ مذہبی اور سیاسی فرقہ بندی ص501)۔

طلبہ کے ایک اجتماع سے خطاب او ردستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں کیا فرق ہوسکتا ہے؟ یہ حضرات اس فرق کو نظر انداز کردیتے ہیں اورطلبہ سے خطاب کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کی تردید پر محمول کرلیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ممکن ہے یہ خطاب بھی اسی ’’میک اپ‘‘ کا حصہ ہو جس کی طرف قیوم نظامی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ خیران باتوں کو چھوڑئیے یہ دیکھئے کہ ہماری بیان کردہ تفاصیل سے قائداعظم‘ مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی کس طرح کی تصویر سامنے آتی ہے۔ اور تحریک پاکستان کا مطالعہ کرنے والے طالب علم کس اچنبھے سے دو چار ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے دوست ناراض نہ ہوں تو ہم یہاں آج کل یورپ میں بہت پڑھے جانے والے مصنف مولانا وحید الدین خان کا ’’حاصل مطالعہ‘‘ یہاں درج کردیں مولانا لکھتے ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کی تحریک کی قیادت مسٹر طبقہ نے کی۔ علماء کا طبقہ تقریباً99فی صد اس سے الگ رہا۔ بالفاظ دیگر پاکستان کی تحریک ایک قومی اور مادی تحریک تھی وہ کسی بھی درجہ میں ایک مذہبی یا اسلامی تحریک نہ تھی مگر عوام کا استحصال کرنے کے لئے مسلسل اس کے حق میں اسلام کا نام استعمال کیا گیا۔ اس کی حمایت میں یہ نعرہ وضع کیا گیا ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ

ایک قومی تحریک کو اسلامی تحریک بنانا سرا سر دوغلا فعل تھا۔ یہ وہی چیز تھی جس کو شریعت کی زبان میں منافقت کہاجاتا ہے یہ منافقانہ سیاست کا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال اسلام کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ منافقانہ روش پاکستان کی تمام پالیسیوں کا اہم عنصربن گئی۔ ہر غیر دینی کام کو دینی اصطلاح میں بیان کرنا پاکستان کے دانشوروں کا کمال قرار پایا۔ اسلام کی پوری تاریخ میں میرے علم کے مطابق کوئی بھی مسلم گروہ ایسا نہیں جس نے منافقت ہی کو اپنی تمام پالیسیوں کی بنیاد بنایا ہو۔ تقسیم کے نتیجہ میں بننے والا مسلم ملک ہی اس کی واحدتاریخی مثال ہے جس کو برعکس کے طور پر پاکستان کہاں جاتا ہے‘‘ (’’ہند وپاک ڈائری‘‘ از مولانا وحید الدین خان ص90)۔

2 Comments