عسکری نہیں نظریاتی جنگ کی ضرورت 

12491863_939910766100245_4230327276596795234_o

عظمٰی اوشو

ایک نوید سنائی گئی تھی کہ 2016 میں پاکستان سے ہر قسم کی دہشت گردی کاخاتمہ ہوجا ئے گا ۔ لیکن 2016 کے پہلے مہینے میں ہی دہشت گردی کی بڑی منظم کاروائیاں ہوئیں اور 60 لوگ ان کی نذر ہو گئے۔ باچاخان یونیورسٹی پر بڑا منظم حملہ کیا گیا جس کو اے پی ایس کے حملے کا ہی تسلسل کہنادرست ہو گا ۔

باچاخان یو نیورسٹی پر حملے کے بعد پھر وہی مبہم سا رد عمل ،وہی عذرسننے کو ملے جس میں دہشت گردی کیوں ہوتی ہے کہ پہلو سے انکار کا وطیرہ اپنایا گیا ۔وہی گیت پھرسننے کوملے کہ تحریک طالبان دراصل ہمارے ناراض بھائی ہیں پھروہی تعفن زدہ تھیوریاں پیش کی گئیں ،ہمارے ناراض بھائیوں کو افغانستان میں ورغلایا جاتا ہے اور انڈین ایجنٹ انھیں ہم سے لڑواتے ہیں ۔

یہ تھیوریاں پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ تحریک طالبان سینہ ٹھونک کر ہر حملے کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ ہم شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اور یہ کاروائی ہم نے کی ہے اور آئندہ بھی جا ری رکھیں گے۔جیسا کہ باچا خان یونیورسٹی حملے کے بعد تحریک طالبان کی ویڈیو سامنے آئی۔ ایسی کنفیوزڈ صورت حال میں جب کوئی سوال اٹھانے والاآتا ہے تو اسے محب الوطنی کے دائرہ سے خارج کرنے والے بے شمارجہادی سامنے آجاتے ہیں۔ کیا اپنے بچوں کی لاشیں اٹھانے والے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے ؟ 

کیا یہ سوال حق بجانب نہیں ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی جس نے 50 ہزار سے زائد لوگوں کی جان لے لی اس کا خالق کون ہے ؟کیا یہ سوال کرنا منع ہے کہ ریاست دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنی سنجیدہ ہے جتنی سنجیدگی اس جنگ کو جیتنے کے لیے ضروری ہے ؟اگر ہے تو کیا نیشنل ایکشن پلان جو 20 نکات پر مشتمل ہے ،صرف پانچ نکات ایسے ہیں جن پر جزوی عمل کیا گیا ۔نیشنل ایکشن پلان کی شق نمبر 4 میں کہا گیا تھا کہ نیکٹا NACTA کو فعال اور مضبوط بنایا جا ئیگا۔ اس شق پر اتنا ہی عملدرآمد ہو سکا کہ اس اعلان سے پہلے نیکٹا کی ویب سائٹ فعال تھی اور اس اعلان کے بعد زیر تعمیر ہی چلی آرہی ہے ۔

پانچویں شق میں انتہا پسندانہ مواد اور بیان کے خاتمے کی بات کی گئی تھی اس شق پر رتی بھر عمل نہیں ہوا ۔چند دن پہلے جہاد کونسل کے سربراہ صلاح الدین کی مظفر آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس ہوئی جس میں انہوں نے پٹھان کورٹ کے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور آئندہ حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس پریس کانفرنس کو سارے میڈیا نے نشر کیا ۔ساتویں شق میں کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر فعال ہونے کے عمل سے روکنے کا عزم کیا گیا ۔مگر وہ سلسلہ جوں کا توں ہی ہے ۔اسی طرح مدرسوں کی رجسٹریشن اور پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ تھا مگر ان پر کتنا عملدرآمد ہوا ہے؟

اس سے ریاست کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جن 5 نکات پر ت ابھی تک عمل ہوا اور مسئلے کی جڑوں کے متعلق جو شقیں تھیں وہ نظر انداز کی گئیں۔ وزارت داخلہ نیشنل ایکشن پلان پر بڑی دھانسو قسم کی بریفنگ دیتی ہے جس میں فوجی آپریشن اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا تذکرہ بڑے فخر سے کیا جاتا ہے مگر ہمارے وزیر داخلہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے آپریشن پچھلے دس سال سے جا ری ہیں اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں ۔اس ریاستی رویے کے بعد کیا ریا ست کی اس بات کو مان لیا جائے کہ ہم جنگ جیت رہے ہیں اور دہشت گرد ہا رہے ہیں ۔

حالیہ حملے انہوں نے کیے ہیں جن کے متعلق بتایا گیا کہ ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔اے پی ایس کے حملے کے بعد بتایا گیا تھا کہ ہمارا عدالتی نظام کمزور ہے اگر دہشت گرد ی کو کچلنا ہے تو فوجی عدالتیں قائم کرنا ہو نگی تا کہ دہشت گردوں کو پھا نسی دی جا سکے۔ اس سے دہشت گردی کی طرف مائل لوگ خوف زدہ ہو نگے اس کے بعد ہمارے منتخب نمائندوں نے 21 ویں ترمیم منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کی اجازت دے دی ۔ہمیں یہ کہا گیا ہم حالت جنگ میں ہیں کچھ غیر معمولی فیصلے کرنے ہو نگے ۔سو ہم نے بنیادی حقوق کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے سزائے موت کو بحال کر دیا۔

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے مطابق 2015میں فوجی عدالتوں میں 64مشتبہ افراد کو پیش کیا گیا ۔ان میں سے چالیس افراد قصوروار ثابت ہوئے جن میں سے 36 کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی اور اب تک 8کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے ۔کیا اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ فوجی عدالتوں کا فوری انصاف اور سزائے موت دہشت گردوں کو خوف زدہ کرنے میں ناکام کیوں ہے ؟ کیا یہ رومانوی تصور نہیں کہ ایک برین واش کیا ہوا لڑکا جو مرنے کے لیے تیار تھا اسے سزائے موت سے ڈرایا جا سکتا ہے ؟کیا ہم نہیں جا نتے کہ اسے جنت کا خواب دکھا کر موت کی راہ پر گا مزن کیا گیا ہے تو کیا اسے سزا موت کی سزا مو ت سے ڈرا سکے گی ۔

ہم ابھی تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب تک نظریاتی ہتھیار وں کی سپلائی کا سلسلہ نہیں روکا جائے گا آپ عسکری ہتھیاروں سے دہشت گردی کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی فلسفے کی ضرورت نہیں ہے انتہا پسندی کے نظریات ہی دہشت گردی کا اصل سبب ہیں ہم ابھی تک دہشت گردی کے لیے تیار کی گئی نرسری کو ختم کرنے کے لیے یا تو تیار نہیں یا اس کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہاں صرف ٹی ٹی پی نہیں لشکر جھنگوی ،جیش محمد ،اور اسی طرح کی بہت سی انتہا پسند تنظیمں سر گرم ہیں جن کا کوئی سیا سی ایجنڈا نہیں ان کا مقصدنظریاتی جنگ ہے مگر بد نصیبی کہیے کہ ہماری فوجی اور سویلین قیا دت مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھنا نہیں چاہتی ۔

اگر سمجھنا چاہتے تو ہم کب سے گڈ اور بیڈ طالبان کے چکرسے نکل آتے ہم اپنی خار جہ پالیسی کو ذاتی چوائس سے زیادہ قومی سلامتی سے جوڑتے، ہم وہ سنجیدہ اقدامات اٹھاتے جو ہمیں دہشت گردی کے گورکھ دھندے سے نکلنے میں مدد دیتے ہم آج بھی اپنی زمیں اپنے دوستوں کے پاس پراکسی وار کے لیے رہن رکھنے پر تیار ہیں ہم تو آج بھی افغانستان میں قتل عام کرنے والوں کو گڈ طالبان بھی کہتے ہیں اور افغان گورنمنٹ سے دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں مدد بھی مانگتے ہیں ۔

ہم پروگریسو تعلیمی پالیسی بنانے سے بھی قاصر ہیں ہمارے ننھے منھے بچوں کو آج بھی جہاد کا لفظ انجیکٹ کیا جاتا ہے ۔ہماری کوئی میڈیا پالیسی نہیں ہے جس میں رواداری کا پر چار کیا جا ئے ۔ہم لڑائی صرف ہتھیاروں سے لڑنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ وہی نکل رہا جو افغانستان میں نکل رہا ہے۔ اس لڑائی کو جیتنے کے لیے نظریاتی محاذ پر سرگرم ہونا پڑے گا اور ایک نیا بیانیہ سامنے لا نا ہو گا ۔اس وقت یہ تفریق مٹانے کی ضرورت ہے کہ وردی والے اور بغیر وردی والے کے بچے کی جان ایک جتنی قیمتی ہے ورنہ اس سسٹم سے نفرت میں اضافہ ہو گا اور پھر ہر گھر میں دہشت گرد ہی پیدا ہونگے ۔

2 Comments