اصلی سکھ اور اصلی مسلمان؟

liaqلیاقت علی ایڈوکیٹ

مارچ1953میں پنجاب کے طول و عر ض میں شدید فرقہ ورانہ فسادات ہوئے ۔ فسادات کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت لا ہور میں مارشل لاء نافذ کر نا پڑا جو مئی 1953تک نافذرہا ۔ بعد ازاں ان فرقہ ورانہ فسادات کے پس پردہ وجوہات اور محر کات کا تعین کرنے کے لئے پنجاب حکومت نے ایک عدالتی کمیشن بنایا جس کے چیئر مین جسٹس محمد منیر اور رکن جسٹس ایم آر کیانی تھے ۔ اس کمیشن نے دیگر امور کے علاوہ اس دور کے جید علماء کرام سے پوچھا کہ ان کے نزدیک مسلمان کی تعریف کیا ہے ؟ کون سی شرائط اور لوازمات ہیں جن پر پورا اترنے والا شخص مسلمان کہلانے کا حق دار ہے ؟

تحقیقاتی ٹربیونل کے رو برو پیش ہونے والے علما کرام مسلمان کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں تھے ۔ ایک کی تعریف دوسرے سے مختلف بلکہ بعض صورتوں میں متضاد تھی ۔یاد رہے کہ عدالت کے رو بر و پیش ہونے والے علما کرام میں مولانا ابوالاعلی مودودی ،مولانا امین احسن اصلاحی ،مولانا ابو الحسنات محمد احمد قادری ،مولانا احمد علی امیر جمعیت علما ء اسلام مغربی پاکستان ،غازی سراج الدین منیر، مولانا عبدالحمید بدایونی صدر جمعیت علما پاکستان اورمولانا محمد علی کاندھلوی شامل تھے ۔ ایک دلچسپ نقطہ جو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ یہ کہ آج تک کسی نے احمدیوں سے مسلمان کی تعریف نہیں پوچھی کہ ان کے نزدیک صحیح مسلمان کون سا فرقہ ہے جس کے پیچھے آپ نماز پڑھ لیں؟شاید ان کا جواب بھی باقی فرقوں سے مختلف نہ ہو گا۔

مسلمان کی تعریف متعین کرنے کا یہ واقعہ ہمارے ہاں تو نصف صدی قبل پیش آیا تھا لیکن ہمارے ہمسائے بھارت کی ریاست پنجاب میں یہ مسئلہ اب درپیش ہے ۔ بھارت میں رہنے والے سکھوں کی اکثریت ریاست پنجاب اور ہریانہ میں رہتی ہے ۔ ان دو ریاستوں کی مشترکہ ہائی کورٹ میں گذشتہ سال امرتسر کے کچھ طالب علموں نے پٹیشن داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے زیر انتظام ایک تعلیمی ادارے میں انھیں ’ سکھ کوٹہ ‘میں داخلہ دینے سے انکار کیاگیا ہے ۔ طلبا کے مطابق تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے انھیں سر کے بال کٹوانے کی وجہ سے سکھ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔

طلبا کا موقف تھا کہ وہ ’سہج داری سکھ‘ ہیں اس لئے بال کٹو ا سکتے ہیں ۔ سکھ مت میںیہ اصطلاح ایسے سکھوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے سر اور داڑھی کے بال کٹواتے ہیں ۔ معاملہ چونکہ مذہبی نوعیت کا تھا اس لئے ہائی کورٹ نے سکھوں کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم گردوارہ پربندھک کمیٹی جو پنجاب اور ہریانہ میں گردواروں کا انتظام و انصرام کرتی ہے کو عدالت کی معاونت کے لئے طلب کیا اور اس سے کہا کہ وہ ’’سہج دھاری سکھ‘‘ کی متعین تعریف اور سکھ مت میں بالوں کی اہمیت اور تقدس سے عدالت کو آگاہ کرے۔ پربندھک کمیٹی نے عدالت میں جو بیان حلفی داخل کیا اس کے نتیجے میں سکھ کمیونٹی میں ایک ایسے مسئلہ پر زبردست بحث و تمحیص شروع ہوگئی ہے جو سکھ مذہب اور سکھوں کی علیحدہ شناخت کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔

دسمبر 2008میں کمیٹی کی طرف سے عدالت میں جو بیان حلفی داخل کیا گیا اس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ’ سہج دھاری سکھ‘ ایسے سکھ کو کہتے ہیں جو سکھ مت میں نووارد ہو اور ایسے سکھ کے لئے بال بڑھانا ضروری نہیں ہے اور وہ چاہے تو بال کٹوا سکتا ہے ۔ لیکن جب کوئی’ سہج دھاری سکھ ‘ ایک قدم آگے بڑھ کر ’کیس دھاری سکھ‘ بن جاتا ہے تو اس کے لئے جسم کے بال بڑھانا نہ صرف لازم ہوجاتا ہے بلکہ ایسا سکھ کسی صورت بال نہیں کٹواسکتا ۔ پربندھک کمیٹی کی اس تعریف پرسکھ قدامت پسند تنظیموں اور اداروں نے شدید تنقید کی اور اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردی۔ انھوں نے اس کو سکھ مت کے خلاف سوچی سمجھی سازش قرار دیا جو’’کمیٹی میں شامل راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس )سے ہمدردی رکھنے والے عناصر کے ایما پر کی جارہی ہے ‘‘۔

سکھ بنیاد پرستوں کے شدید رد عمل سے پریشان ہو کر پربندھک کمیٹی نے جنوری 2009میں ایک نیا بیان حلفی عدالت میں داخل کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بال کٹوانے والوں کی سکھ مت میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ کمیٹی کا تازہ بیان حلفی ایک نئی بحث کا موضوع بن گیا ہے کیونکہ دیہاتوں اور بھارت سے باہر دوسرے ممالک میں رہنے والے سکھوں کی اکثریت بال کٹواتی ہے اور پربندھک کمیٹی کی تعریف کو اگرمان لیا جائے تو ستر فی صد سکھ ، سکھ مت سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ بہت سے نمایاں سکھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ سکھ مذہبی کتب میں بال بڑھانے کے بارے میں کہیں کوئی حکم نہیں دیا گیا ۔ ان کے مطابق خود گورو نانک کے بال بھی لمبے نہیں تھے۔ انھوں نے تو گرنتھ میں کہا تھا کہ ’’ بال میں نہ تو دھرم ہوتا ہے اور نہ ہی کرم ‘‘۔

گورودوارہ پربندھک کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ سکھوں کی مذہبی تنظیم ہے اور عملی سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس نے ہمیشہ مذہبی عقائد کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے اور اس کے حالیہ موقف کے پس پشت بھی سیاسی مقاصد ہیں ۔پربندھک کمیٹی سمجھتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مذہبی بنیادپرستی اور انتہا پسندی کا اظہار اس کو سکھ عوام کی ان پرتوں میں جو سماجی طور پر پسماندہ ہیں، مقبول بنانے کا باعث بن سکتا ہے ۔پربندھک کمیٹی کے اختیار کردہ موقف کے برعکس سکھ عوام کی اکثریت کے مطابق کون اصلی سکھ ہے اور کون نہیں ہے ،اس بات کا فیصلہ کرنے کااختیار پربندھک کمیٹی کو نہیں ہے ۔

پربندھک کمیٹی نے جس کا بجٹ بھارت کی کئی ریاستوں کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے سکھ عوام کی سماجی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ اس نے سکھ عوام کو ظواہر پرستی کے نام پر پسماندہ اور یر غمال بنارکھا ہے۔گورودوارہ پربندھک کمیٹی کاسیاسی فرنٹ اکالی دل ہے۔ آزادی کے بعد یہ جماعت متعدد مرتبہ پنجاب میں بر سر قتدار آچکی ہے ۔ اس وقت بھی یہی جماعت حکمران ہے لیکن اس نے آج تک سکھ مت اور اس کے عقائد کی ترویج و ترقی کے لئے زبانی جمع خرچ کے سواکچھ نہیں کیا ۔بھارتی پنجاب سماجی زندگی کے بہت سے شعبوں میں بھارت کی کئی ایک ریاستوں کے مقابلے میں پسماندہ ہے ۔سکھ مت اکالی دل کے لئے اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے مذہبی عقائد کو استعمال کرتی ہیں۔

مذہب پر کس طرح اور کس انداز میں عمل پیر ا ہونا ہے یہ ہر فر د کا ذاتی مسئلہ ہے ۔ریاست ، اس کے اداروں اور مذہبی تنظیموں کو اس میں مداخلت سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ ان کی مداخلت سے معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جاتے ہیں۔

Tags: ,

2 Comments