ہم بھی وہیں موجود تھے

ڈاکٹر پرویز پروازی

0001236

ہمارے محترم استاد پروفیسر سید وقار عظیم کے بڑے صاحبزادے جنا ب اختر وقار عظیم کی یادوں کی کتاب ’’ ہم بھی وہیں موجود تھے ‘‘سنگ میل والوں نے لاہور سے 2015 میں چھاپی ہے ۔ اختر وقار عظیم پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور پروڈیوسر سے منیجنگ ڈائریکٹر تک کا سفر کامیابی سے طے کرکے وظیفہ یاب ہوئے اور اب پاکستان کے ایک اہم ٹی وی چینل ’’ ہم‘‘ کے سینئر وائس پریزیڈنٹ ہیں۔

ہم اختر وقار عظیم کو تو اتنا نہیں جاتنا ان کے والد گرامی کو جانتے ہیں کیونکہ وقار صاحب صرف استاد ہی نہیں تھے ہمارے محسن بھی تھے۔ اگر ہمیں اورینٹیل کالج میں سید وقار عظیم جیسا استاد اور سرپرست نصیب نہ ہوتا تو ہم اپنا تعلیمی سفر شاید کامیابی سے جاری نہ رکھ سکتے ۔ اختر وقار عظیم تو ہماری ایم اے کی طالب علمی کے زمانے یعنی 1958 سے 1960 تک خود طالب علمی کے دور سے گذر رہے تھیاور غالباً وہ سکول میں ہونگے ۔ پھر 1964 سے 1967 تک ہماری پی ایچ ڈی کی تعلیم کا دورانیہ ہے جس میں ہمیں استاذی المکرم کے گھر آنے جانے کا موقع ملتا رہا ۔

اس دوران بھی ایک آدھ بار اختر اور اطہر کو دیکھا ضرورہے ان سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ 1966یا 67 میں پی ایچ ڈی کا مقالہ کا ایک حصہ ملاحظہ کے لیے دکھانے کو ہم وقار صاحب کے ہاں حاضر ہوئے تو گھر میں کچھ زیادہ صفائی نظر آئی ۔ ہم نے گھنٹی بجائے تو استاذی المکرم نے جھٹ یہ کہتے ہوئے دروازہ کھول دیا ’’ آگئے آگئے‘‘ پھر یک دم رک کر فرمایا’’ بیٹا کل ہماری بیٹی کی شادی ہوئی ہے آج وہ اور ان کے شوہر آنے والے تھے ہم سمجھے وہ آگئے ہیں ‘‘۔

ہم شرمندہ ہوئے کہ ہم نے انہیں پریشان کیا مگر ایسی کوئی بات نہیں تھی استاذی المکرم نے ہمارا مسودہ لے لیا اور حسب عادت پچھلا دیا ہوا مسودہ ہمیں واپس عطا فرمادیا اور ہدایت فرمائی کہ ’’ پندرہ دن کے بعد اگلا مسودہ لے آئیے گا‘‘۔ غرض بیٹی کی شادی جیسی مصروفیت کے باوجود استاذی المکرم نے ہمارا دیا ہوا مسودہ ملاحظہ کر رکھا تھا اور اگلے مسودہ کے منتظر تھے۔ بہت بعد کو ان کے استاد ڈاکٹر اعجاز حسین کی خود نوشت ’’ میری دنیا‘‘ میں یہ پڑھا کہ ڈاکٹر اعجاز حسین کے پی ایچ ڈی کے نگران کسی سکالر کا مسودہ ملاحظہ ہی نہیں فرماتے تھے صرف سنتے تھے اور یوں لکھنے سے زیادہ وقت انہیں سنانے میں صرف ہو جاتا تھا۔ 

استاذی المکرم نے یہ بات اپنے استاد سے سن رکھی ہو گی اس لیے وہ سکالرز کا مقالہ نہ صرف اولین فرصت میں ملاحظہ فرما لیتے تھے بلکہ اتنی باریک بینی سے ملاحظہ فرماتے تھے کہ کتابت کی غلطیاں تک نشان زد فرما دیتے تھے۔ اور کسی بات سے اختلا ف فرماتے تو صرف اتنا لکھ دیتے’’ اگرچہ میری نگاہ میں یہ بات یوں نہیں مگر میں آپ پر اپنی رائے ٹھونسنا نہیں چاہتا‘‘۔ اور مزید تحقیق کے بعد انہی کی رائے درست ثابت ہوتی۔ 

ڈاکٹر اعجاز حسین نے ان کے بارہ میں لکھا ہے کہ ’’ وقار عظیم صاحب میں کسی استاد کی رائے سے اختلاف کرنے کی جرات نہ تھی۔ اگر اختلاف رائے ہوا یا کسی بات کو وہ غلط بھی سمجھے تو استاد کے سامنے معنی خیز مسکراہت کے ساتھ چپ ہوجاتے۔ اور اگر استاد پوچھتا بھی کہ آپ کیوں اس پہلو کو غلط سمجھتے ہیں تو وہ نہایت بھولے پن سے کہتے ’’ جی وہ میری غلطی تھی آپ بالکل صحیح فرماتے ہیں‘‘۔ (میری دنیا صفحہ 338)۔

جب استاذی المکرم کا انتقال ہوا تو ہم جاپان کی اوساکا یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ وہیں سے ہم نے تعزیت کا خط استاذی المکرم کے گھرو الوں کو لکھا تھا جس میں یہ بھی لکھا تھا کہ عزیزان اختر اور اطہر کو اور ہماری بہن کو سلام، باقی بچوں کا ہمیں پتہ ہی نہیں تھااور ہم نے اپنے محترم استاد کی بیگم صاحبہ کی تصویر بھی پہلی بار ان ہی کی کتاب میں دیکھی ہے۔ انہی اختر وقار عظیم کی کتاب چھپی تو ایکسپریس میں پہلے کسی کالم نگار کا تبصرہ دیکھا ۔

اگلے روز جناب انتظار حسین کا تبصرہ پڑھا توا پنے عزیز شاگرد بریگیڈئیر لطیف کو ای میل کہ ہ سکے تو کتاب مجھے بھجوانے کی کوشش کریں۔عزیزم لطیف نے حسب عادت کتاب ڈی ایچ ایل کے ذریعہ زر کثیر صرف کر کے ہمیں دو دن ہی میں پہنچا دی ۔فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔ ہم کتاب پڑھ رہے ہیں اور اپنے استاد محترم کو یاد کر رہے ہیں لکھنے والے اور بھیجنے والے دعائیں دے رہے ہیں۔

اختر نے پنڈت جواہر لال نہرو کے اس تفاخر کا ذکر کیا ہے کہ اقبال نے فارسی کی ایک نظم میں دونوں باپ بیٹوں کا ذکر کیاہے ( ہم بھی وہیں موجود تھے صفحہ214)۔ اس قسم کی ایک نظم اقبال کی پطرس بخاری کے بارے میں بھی ہے ۔

تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا ۔ زناری ء برگساں نہ ہوتا

ایک محفل میں پطرس دون کی لے رہے تھے کہ کوئی ہے جس کو مخاطب کرکے اقبال نے نظم لکھی ہو’’ ایک فلسفہ زدہ سید زادہ کے نام‘‘ اور ایک بار اس کانام بھی لیا ہو؟ عبدالمجید سالک بولے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اقبال نے آپ کا نام ایک بار نہیں لیا دو بار لیا ہے ۔ ایک بار سید زادہ کہہ کر ‘‘۔۔۔ ’’ اور دوسری بار‘‘؟ پطرس نے پوچھا ؟ سالک صاحب نے اطمینان سے جواب دیا ’’ پہلے مصرعہ میں ’’ کھوتا‘‘ بھی تو کہا ہے۔ ہم نے سوچا اختر کچھ سنی سنائی باتیں بیان کر دیتے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں؟

خدا معلوم ہمیں یہ خیال کیوں تھا کہ اختر کشور ناہید کی اس تعلی کا ذکر ضرور کریں گے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے یعنی کشور ناہید ، یوسف کامران اور صوفی تبسم نے اختر وقار عظیم کے کمرہ سے فون کرکے ضیاء جالندھری کو ایم ڈی بن جانے پر راضی کیا تھا؟ اور جب ایم ڈی بن گئے تو انہوں نے اختر وقار عظیم سے کہا تھا کہ ’’ یہ ذرا کشور ناہید اور یوسف کامران کو ٹی وی پر مت بلایا کرو‘‘ ( شناسائیاں رسوائیاں صفحہ 115)۔

اختر نے تو یوسف کامران اور کشور ناہید کا ذکر صرف ایک بار سرسری طور سے کیا ہے اور بس!کشور ناہید کی کتاب کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم نے ڈرتے ڈرتے لکھا تھا کہ ’’ اگر کشور ناہید چاہتی ہیں کہ انہیں اس زمانہ کے ٹیلی ویثرن کا نفس ناطقہ مان لیا جائے تو شاید ممکن نہ ہو۔ اور ان کے ضیاء جالندھری والا بیان کو تو شاید ان کے دوست بھی مشکل سے باور کریں‘‘ ( پسِ نوشت سوم صفحہ 154) اختر کی کتاب ہماری کم فہمی یا ’’ کج فہمی‘‘ کی گواہ بن گئی ہے۔

آغا ناصر نے اپنی کتاب گلشن یاد میں لکھا تھا، لکھا کیا ’’ بیان حلفی جاری کیا تھا کہ مشہور پروگرام الف نون ان کے نام کا مخفف ہے ‘‘ ( پس نوشت حصہ دوم صفحہ 364) کیونکہ آغا صاحب یہ پروگرام پروڈیوس کرتے تھے۔ اختر وقار عظیم نے یہ غلط فہمی دور کر دی’’ نام دینے اور سوچنے کی مشق میں ادیب شاعر فنکار سب ہی شریک ہو تے تھے‘‘ کمال احمد رضوی اور ننھے کے مقبول پروگرام کا نام دونوں کے جثے کو دیکھتے ہوئے ’’ الف نون‘‘ خود کمال احمد رضوی نے تجویز کیا تھا (صفحہ 59)۔آغا ناصر صاحب کے بیان حلفی کی کیا حقیقت رہ گئی؟

اختر نے حیرت سے بیان کیا ہے کہ ’’ میر ظفر اللہ خان جمالی اپنی وزرات عظمیٰ کے دوران کراچی میں ایک آدھ مرتبہ اپنی گاڑی خود بھی چلاتے دیکھے گئے (صفحہ 73)۔ ہمارا تجربہ بھی سن لیجیے۔ ہم ایک بار اپنے دوست قائم مقام صدر ملک معراج خالد کے ساتھ ان کی ذاتی گاڑی جسے وہ خود ڈرائیو کررہے تھے اسلام آباد کی ایک سڑک پر کافی دیر تک کھڑے رہے کیونکہ پولیس والوں نے گورنر پنجاب کی آمد پر سارا ٹریفک روک رکھا تھا اور قائم مقام صدر جن کو اس میٹنگ کی صدارت کرنا تھی ٹریفک میں رکے کھڑے تھے ۔ ہمارے ملک کے رہنماؤں کاایسا رویہ عوام کے لیے ناقابل یقین ہے۔

رنگون میں بہادر شاہ ظفر کے مزار کا دو خود نوشتوں میں ذکر ہوا ہے ۔ ہارون علی کی خود نوشت ’’ ان دیکھی گہرائیاں‘‘ میں اور ایم ایم حسن کی خود نوشت ’’ چھتیس سال ‘‘ میں۔ حسن صاحب بہادر شاہ ظفر کا مزار تلاش نہ کرسکے مگر ہارون ابن علی کی کتاب میں بہادر شاہ ظفر کے مزار کی تصویر موجود ہے جس میں وہ مزار پر پھول چڑھا رہے ہیں۔ اب اختر نے جو مزار دیکھا وہ اصلی مزار ہے یا ہارون ابن علی صاحب والا ؟ فیصلہ کون کرے ؟۔

جنرل ضیاء الحق نے بحثیت صدر یو این او میں اپنے خطاب سے پہلے تلاوت کا جو ڈرامہ رچایا تھا اس کی حقیقت بھی کھل گئی ہے۔ اختر کے قول کے مطابق تلاوت اقوام متحدہ کے اجلاس سے ملحقہ کمرہ میں کی گئی اور پاکستانی ناظرین کو بے وقوف بنانے کو یہ ظاہر کیا گیا جیسے یہ تلاوت اقوام متحدہ کے اجلاس میں کی گئی ہے۔ ’’ حقیقت یہ ہے کہ اظہر لودھی کی اناؤنسمنٹ اور قاری خوشی محمد کی تلاوت اقوام متحدہ کے ہال سے منسلک ایک سٹوڈیو میں کی گئی تھی ۔ اقوام متحدہ کی عمارت میں ایسے کئی سٹوڈیو موجود ہیں جہاں سے آنے والے وفود کی کیمرہ ٹیمیں اپنی خبریں اور پروگرام تیار کرکے اپنے ملک بھیجتی ہیں‘‘۔ ۔۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں ٹیلی ویثرن کا اس طرح سے استعمال عام تھا (صفحہ 85)۔

تجمل حسین نے اپنی خود نوشت جو بچے ہیں سنگ میں لکھا تھاکہ ہندوستان سے آئے ہوئے مشہور ادیب مُلک راج آنند اپنے آبائی وطن پشاور جانا چاہتے تھے مگر ان کے پاس پشاور کا ویزا نہیں تھا۔ تجمل صاحب نے آئی جی پولیس سے خیال رکھنے کو کہا اور ان کی سرکاری گاڑی میں مُلک راج آنند پشاور ہو آئے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ اختر نے بیان کیا ہے کہ ان کے ایک ساتھی ترمذی صاحب کو اپنی والدہ اور بہن سے ملنے سہارنپور جانا تھا مگر ان کے پاس سہارنپور کا ویزا نہیں تھا۔ اس وقت دہلی پولیس کے سربراہ اشونی کمار تھے مشہور اولمپئن تھے۔ انہیں کہا گیا تو ان کی سرکاری گاڑی ترمذی صاحب کو سہارنپور لے گئی اور واپس لے آئی۔(صفحہ 203) قاعدے قوانین اپنی جگہ مگر دوستی ہر جگہ کام آتی ہے۔

اور اب فوجی کتوں کا ذکر ہو جائے۔ میلہ مویشیاں میں ٹی وی کے مبصر رواں تبصرہ نشر کر رہے تھے جب فوج کے کتے نمائشی مارچ کرتے ہوئے سامنے سے گذرے تو مبصر نے کہ یہ دیکھیئے’’ فوجی کتے‘‘۔ مارشل لا کا زمانہ تھا انہیں خیال آیا کہ یہ تو بے ادبی ہوگئی ہے فوراً تصحیح کی یہ دیکھیے ’’ تربیت یافتہ فوجی کتے‘‘۔ کسی نے جنرل مجیب الرحمن سے شکایت کر دی جنرل صاحب نے جواب دیا ’’ کیا میں اس شخص کے خلاف کاروائی کرکے اس کی غلطی سے کہی گئی بات پر مہر تصدیق ثبت کر دوں ؟ ‘‘ (صفحہ 95)۔

اور بات قبلہ و کعبہ سید وقار عظیم سے شروع ہوئی تھی انہیں کے ذکر پر ختم کرتاہوں ۔ اختر نے لکھاہے اور ہم اس بات کی صداقت کے گواہ ہیں کہ ’’درگذر ان کے مزاج کا حصہ تھا اور یہی ہدایت ہمیں بھی تھی کہ اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تو اس کا جواب دینے کی بجائے خاموش ہو جایا کرو۔ خاموشی اور مسکراہٹ انسان کے پاس دو بہت بڑے ہتھیار ہیں۔ مسکراہٹ کئی مسائل کو حل کرتی ہے اور خاموشی کئی مسائل سے بچاتی ہے‘‘(صفحہ 148)۔

اللہ تعالیٰ اس عظیم انسان کی مغفرت فرمائے اور ہمیں ان کی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین۔ اختر وقار عظیم کو یہ کتاب لکھنے کی جزائے جزیل عطا فرمائے۔ ہاں اختر یہ سسُتانا کیاہوتا ہے؟ (صفحہ 80)۔

Comments are closed.