اجتماعی شعور اور ترقی

ارشد نذیر

team-114655_960_720

کیا ہمارا اجتماعی شعور ترقی یافتہ سماجوں یا قوموں کے اجتماعی شعور سے پیچھے ہے؟ یہ قضیہ اپنی بُنت میں تقابلی ہونے کے ساتھ ساتھ’’ اجتماعی شعور ‘‘او ر ’’ترقی‘‘ جیسی اصطلاحات کی تفہیم کا متقاضی بھی ہے ۔ بحث کوپھیلانے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہاں ہمارا مطمحِ نظر دورِ جدید ہی کے سماج پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا ہے نہ کہ اسکی ترقی و ارتقاء پر بات کرنا ہے۔ اس لئے دورِ جدید ہی کے سماج کے اجتماعی شعور اور اسکی ترقی کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں۔

اجتماعی شعور کسی قوم کے افراد اور گروہوں کی بلاتفریق صنف ، رنگ و نسل، مذہب اور زبان سماج میں اکٹھے رہنے اور آگے بڑھنے کی خواہش ہوتی ہے ۔ جب افراد کا ایک گروہ زندگی گزارنے کے کچھ قواعد پر باہم اتفاق کر لے اور انہی مشترک اقدار کی بنا پر اکٹھے رہنا شروع کر دے تواُن کی ان مشترکہ اقدار کو ان کا اجتماعی شعور کہا جائے گا۔ یہ سماج اور اس کے افراد کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے ۔

اسی غیر تحریری معاہدے کے تحت سماج کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنے افراد کی انفرادی صلاحیتوں کی بھرپور نشوونما کرنے کرے ، ان صلاحیتوں کی بڑھوتری کے لئے ذرائع اور نئے امکانات پیدا کرے ، انہیں وسعت دے ، جواباً افراد بھی سماج کے اس پیدا کردہ اور فراہم کردہ ماحول کی بقاء اور دوام کی نہ صرف خواہش رکھیں بلکہ اسے برقرار رکھنے کے عمل میں دل و جان سے اس میں شریک ہو جائیں ، تو کہا جاتا ہے کہ سماج عمومی ترقی کی راہ پر گامزان ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجتماعی شعور افراد اور سماج کے درمیان دو طرفہ خیر سگالی کے جذبات پر مبنی ہوتا ہے۔ دونوں میں سے کسی بھی ایک کی سوچ اگر دوسرے کے متضاد اور مخالف ہو جائے تو سماج کی ترقی و ارتقا ء میں رکاوٹ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لفظ ’’ترقی‘‘ مطلق جوہر نہیں ہے بلکہ یہ خود بھی ایک متحرک صفاتی فعل ہے جوساکن ہونے کا تخالف ہے۔ لہٰذا افراد اور سماج کے درمیان قائم یہ سماجی تعلق یا تفاعل بھی ہر وقت حرکی جوہر سے متصف رہتا ہے ۔

سماج کی ترقی کی رفتار تیز یا سست بھی ہو سکتی ہے اورزوال پذیری کاشکار بھی ہو سکتی ہے ۔ کسی سماج کے افراد کی جتنی زیادہ تعداد ترقی کی سمت اور رفتار کے بارے میں شعوری آگاہی رکھے گی، اتنا ہی سماج میں ترقی یافتہ ہونے کے امکانات روشن ہونگے۔ پس سماج اور افراد کے درمیان قائم اس تفاعل کی ہم آہنگی اور مضبوطی کی خواہش ہی اُس کا اجتماعی شعور ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان مضبوط تفاعل اجتماعی شعور کی بلندی کا سبب بنتا ہے۔

سماج کی اجتماعی نفسیات یا شعور جس کی بنیاد پر وہ آگے بڑھتا ہے اور ترقی کرتا ہے ، کو سمجھنے کے کچھ طریقے ہوتے ہیں۔ ترقی کے اس عمل کو سمجھنے کا ایک طریقہ تو تقابلی جائزے کا ہو سکتاہے اور اس تقابل کے مندرجہ ذیل طریقے ہو سکتے ہیں:۔

۔۱) کسی سماج کااُس کے اپنے ماضی سے تقابل
۔۲) دوسری قوموں یا سماج سے تقابل
۔۳) بیک وقت دونوں طرز کا تقابل
تقابل کی پہلی صورت سے تو قوم اور سماج کے زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی اجتماعی نفسیات کا پتہ چلتاہے۔ اس کا اندازہ اُس کے فرد اور فطرت کے درمیان قائم کردہ تعلق سے لگایا جا سکتا ہے ۔ فطرت اور اس کے وسائل، ان وسائل کا افراد اور سماج کے ساتھ ربط و تعلق اور اس ربط و تعلق کے درمیان کفایت شعاری، بہتری اور انسانی وسائل کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کی خواہش ، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو انسان کی فطرت اور قدرتی ماحول کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے ، ان میں تنوع اور جدت لانے کا اظہار ہوتے ہیں۔

جب یہ خواہش اجتماعیت میں اپنا اظہار کرنا شروع کر دے ، تو کہا جاتا ہے کہ یہ بحیثیتِ کل سماج کی اجتماعی نفسیات ہے۔یہ جاننے کے لئے کہ کسی سماج کے اجتماعی شعور میں کس طرح اور کس حد تک زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی خواہش موجود ہے ، سماج کے افراد کی اوسط کے انہی اوصاف کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اُس سماج کے آرٹ، موسیقی، شاعری، رقص، ادب ، فلسفہ، نظامِ تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیر ہ ایسے علوم و فنون ہیں جو اُن کے اجتماعی شعور اور نفسیات کے عکاس ہوتے ہیں۔
ان کے ادب ، آرٹ ، موسیقی، شاعری، فلسفہ، رقص، سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ کے ماضی اور حال کا جائزہ اجتماعی شعور اور اجتماعی نفسیات جیسے گہرے سوال کی کئی گرہیں کھول دیتا ہے ۔ ماضی اور حال کے انسان میں تبدیلی کے اس سفر کے دوران اگر ان فنون سے رغبت بڑھ رہی ہے، ان میں تنوع اور جدت پیدا ہو رہی ہے ، تو کہا جا سکتا ہے کہ قوم یا سماج ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔
سماجی ترقی کی ان منزلوں کو عبور کرنے کے لئے سیاسی اور سماجی ادارے قائم کرتا ہے ۔ ان اداروں کا بنیادی فلسفہ اور نظریہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے افراد کو زیادہ سے زیادہ فکری بالیدگی، آزادی اور امن کی فضا فراہم کریں تاکہ وہ قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کے درمیان ایک بامعنی اور مثبت سمت کا تفاعل قائم کر سکیں۔ یہ انتہائی پیچیدہ سماجی عمل ہوتا ہے ۔ یہ عمل سادہ طریقے سے آگے نہیں بڑھتا کیونکہ یہ منظم ادارے اپنے وجود کی بقاء کے لئے معاشی اور مالی وسائل کے محتاج ہوتے ہیں۔ سماج ہی انہیں یہ وسائل فراہم کرتا ہے ۔

ان اداروں کو چلانے والے افراد میں کچھ عرصے کے بعد ڈکٹیٹرشپ جنم لینا شروع ہو جاتی ہے۔ پھر یہ ادارے اپنے قیام کے بنیادی مقصد اور فلسفے کو بھول جاتے ہیں ۔ ان کا مقصد مسلط ہونے والے افراد اور ان اداروں سے بلواسطہ طور پر مستفید ہونے والوں کے درمیان ایک منحوس اور استحصالی ربط و تعلق قائم کرنا رہ جاتا ہے۔اداروں کے یہ افراد اور بلواسطہ طور پر مستفید ہونے والے دیگر افراد ان اداروں کے قائم کے بنیادی فلسفے کو اپنے ذاتی مفادات کی بھنٹ چڑھانا شروع کر دیتے ہیں ۔

یہاں سے فرد اور ادارے کے درمیان کشمکش جنم لینے لگتی ہے۔ یہ کشمکش اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ اداروں کو ازسرِ نو اور جدید تقاضوں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جائے ۔ اس کے ڈھانچے کو بدل دیا جائے لیکن اس سے مستفید ہونے والے استحصالی طفیلئے اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی خواہش دھیمی بھی ہوسکتی ہے اور شدید بھی۔ یا یہ خواہش بالکل مفقود بھی ہو سکتی ہے۔یہی خواہش سماجی تحریک و حرکت کا سبب ہوتی ہے۔

سماج کی متحرک پرت جو کہ اس کے محنت کش ہوتے ہیں ہی اس تبدیلی کے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔ لیکن سماجی و سیاسی دانشور ، شاعر، ادیب ، فلسفی ، موسیقی کار ، دستکار اور دیگر فنون کے ماہرین اس خواہش کی سمت متعین کرنے میں اور سماجی میں اس حالت کو بدل دینے اور ایک جست لینے کے منظم انقلابی اقدام کا سبب بنتے ہیں۔ بصورت دیگر وہ سماج اسی کشمکش کا شکار ہو کر زوال پذیری کی طرف لڑھکنا، سرکنا یا پھر پھلسنا شروع کر دیتا ہے ۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ سماج کے اپنے قائم کردہ سیاسی اور سماجی ادارے ہی فرد اور سماج کے درمیان ربط و تعلق کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
اگر سماج کے افراد میں ان سماجی اداروں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ جدت اور تنوع بھی شامل ہو جائے، تو کہا جاسکتا ہے وہ تبدیلی کے عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ تبدیلی کے اس عبوری دور میں افراد پر یاسیت اور بے بسی کے دور بھی آتے ہیں۔ یہ دور طویل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے ادوار میں معاشی حملے تیز تر اور شدید تر ہو جاتے ہیں۔ ان کا ردِعمل بھی شدید ہی ہوتا ہے ۔ اس کیفیت کا سماج کے اپنے تاریخی سفر اورارتقا ء میں بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے اور دیگر سماجوں کے ساتھ تقابل میں بھی۔
سماج کے اجتماعی شعور اور اس کی ترقی کی خواہش کو سمجھنے کا دوسرا طریقہ دوسری قوموں اور سماجوں کے ساتھ تقابل کا ہوتا ہے۔ایسی صورت میں دونوں سماجوں کے افراد کے قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کے بہترین استعمال ، اس کے لئے فراہم کردہ ماحول اور اس میں ترقی و توسیع وغیرہ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔

دونوں صورتوں کا بیک وقت جائزہ سائنس ، ٹیکنالوجی اور انفامیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی صورت میں بھی لیا جاسکتا ہے اور ان کی ثقافت اور شعور و آگاہی کی صورت میں بھی ۔ سائنسی ترقی نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے ۔ آج کوئی بھی سماج اپنے ہمسائیوں اور دیگر ممالک سے الگ تھلگ رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ کوئی سماج تن تنہا ترقی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اُسے دیگر سماجوں سے تعلق اور واسطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی ، سیاسی ، لسانی، مذہبی اوراخلاقی مسائل کے حل کرنے کے طریقوں کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔
ترقی کے اس عمل میں سارے سماج ایک ہی معیار پر نہیں ہیں۔ پسماندہ ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک ہمارے سامنے ہیں۔ سرمایہ داری نظام جس میں آزاد منڈی کی بات کی جاتی ہے نے سرمایہ کار اور ترقی یافتہ ریاستوں کے درمیان تضادات کو بھی گہرا کر دیا ہے ۔ سرمایہ دار کا ترقی یافتہ سماجوں کے ساتھ بھی تضاد ہے ۔ وہ ان ترقی یافتہ سماجوں کے سائنسی اور تکنیکی علوم سے استفاد ہ تو کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے ریاستی اداروں کو اپنی راہ کی رکاوٹ خیال کرتا ہے۔ وہ اپنے اوپر ان اداروں کے نظم و ضبط کی پابندیوں کو قطقاً برداشت نہیں کرتا۔

دوسری طرف وہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے قدرتی وسائل کو اپنے منافع کی ہوس کے تابع رکھ کر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سرمایہ دار کا ترقی یافتہ سماج کے اداروں کے ساتھ یہ تضادہے کہ وہ ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرکےسامراجی عزائم کی وسعت اور پھیلاؤ چاہتا ہے اور یہ تمام کچھ وہ بلاتفریق سماج اور جغرافیہ تمام انسانیت کو غربت ، بے روزگاری ، محتاجی، بیماری ، بیروزگاری اور دہشت گردی کی طرف دھکیل کرکرنا چاہتا ہے۔ وہ تمام حدود کو توڑ کر اپنے منافعوں کی ہوس کی تکمیل چاہتا ہے۔

دوسری طرف سرمایہ دار پسماندہ اور ترقی پذیر سماجوں کے انسانی وسائل اور قدرتی وسائل کو لوٹنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ ہوس بین الاقوامی ریاستی اداروں کے آپسی تضادات کو بڑھاوا دے رہی ہے اور سرمایہ دار اور ترقی یافتہ ریاستوں کے باہم بھی یہ تضاد روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال پراکسی وارز کو بھی جنم دی رہی ہے اور ریاستوں کے روایتی وجود پر بھی ایک سنجیدہ سوال اُٹھا رہی ہے۔ یہ صورتحال پرانے نظام کو یکسر بدل دینے کا تقاضا کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ سماج میں یہ بے چینی دیکھی جا سکتی ہے۔
پُرانے ریاستی تصور اور ریاستی اداروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم سرمایہ دار کے نرغے میں آ گئے ہیں۔ ریاست پرانے اور بوسیدہ اداروں کے ساتھ ان علوم کو سرمایہ دار کے نرغے سے نکال نہیں سکتی۔ مجبوراً ترقی یافتہ ممالک سرمایہ دار کے ساتھ مل کر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کے استحصال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام نے ملٹی نیشنل کمپنیز کے کلچر کو جنم دیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارٹلز کے اس کلچر نے روایتی سیاسی اور سماجی اداروں میں بہت تیزی سے توڑ پھوڑ کا عمل شروع کر دیاہے۔ سرمایہ دار نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی حاصلات کو افراد تک بحیثیت صارف ہی پہنچایا ہے ۔

اس کارپوریٹائزیشن کے کلچر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کی ہوس نے انسانیت کی روح کو مجروح کیا ہے ۔ سامراجی کردار نے انتہائی بھیانک روپ اختیار کر لیا ہے۔ آج زندگی ، ماحول اور فضاء سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ سائنس، علوم اور ٹیکنالوجی جس کے بطن سے انسان اور انسانیت کے بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب، زبان اورصنف ایک عالمگیر کلچر کے جنم لینے کے امکانات تھے وہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تباہی کے اس عمل میں سامراجیت اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

آج کے بین الاقوامی انسان کے اندر بے چینی اور بے قراری موجود ہے ۔ اُس کی یہ بے چینی اور بے قراری اس بات کی علامت ہے کہ وہ سرمایہ داری کے غیر انسانی اور وحشیانہ تسلط سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ صورتحال بہت گھمبیر ہے استحصال کرنے والوں اور استحصال زدہ طبقوں کے درمیان یہ کشمکش اس نظام سے بیزاری کا اظہار بھی ہے اور تبدیلی کی علامت بھی۔
دو مختلف سماجوں اور قوموں کے تعلقات کا انحصار زبان ، رنگ ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتا بلکہ ایسے تعلقات کا انحصار ان کے جغرافیہ ، قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کے درمیان علمی ، فکری اور سائنسی ارتباط اور رشتہ پر ہوتا ہے ۔ لیکن سرمایہ داری نظام نے علوم کی غیر جانبدارانہ اور معروضیائی ترقی اور ارتقاء کے عمل کو روک دیا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی محض مراعات یافتہ طبقے کی خدمت پر معمور ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ترقی پزیر اور پسماندہ سماجوں کو منتقل کی جاتی ہے اور نہ ہی غیر منافع بخش مگر انسانیت کی عمومی فلاح کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔

یہ استحصال کی نئی صورت ہے۔ یہ استحصال سرمائے کے ارتکاز کا باعث ہے ۔ استحصالی ریاستیں اور سرمایہ دار اس وقت تک اس استحصال کو جاری رکھتے ہیں جب تک یہ عمل اُن کے لئے فائدہ مند رہتا ہے۔ روز بروز گہرے ہوتے ہوئے تضادات سے بھرپوریہ ریاستی ادارے اور سرمایہ دار ی نظام اب خود ہی ان کے پاؤں کی زنجیر بنتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کیفیت سے متعلق بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے اپنے طبقات میں بھی یہ بے چینی موجود ہے۔ معاشی بحران طبقاتی کشمکش کو شدید کر رہا ہے۔ وہاں بھی بڑے پیمانے پر احتجاجات ان کی نظام سے بے چینی اور بے زاری کی عکاسی کر رہے ہیں۔

اگر بیان کئے گئے معیارات پر اپنے سماج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی بھی نہیں کر سکے کہ ہم اپنے ملکی وسائل کو ہی بروئے کار لا سکیں۔ اگر اپنے سماج کے ان علوم میں دسترس کا موازنہ دیگر سماجوں کے ساتھ کریں تو ہم خود کو یہ ماننے پر مجبور پاتے ہیں کہ ہم اپنے قدرتی وسائل کے استعمال اور استفادے کے لئے بھی ترقی یافتہ ممالک کے دست نگر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہمارے ملکی وسائل پر جن سامراجی عزائم کے ساتھ قابض ہو رہے ہیں ہم اس صورتحال سے باہر نہیں نکل پارہے۔ دیگر سماجوں پر ہمارا معاشی انحصار بھی واضح ہے۔ ہم ایک صارف معاشرہ بن چکے ہیں۔

یہ صورتحال ہماری بدحالی کا نہ صرف منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ استحصال زدہ کیفیت میں مبتلا معاشرے کی بے بسی کی علامت بھی ہے۔ ہمارے سیاسی اور سماجی اداروں اور افراد کے درمیان ربط وضبط اور وہ ہم آہنگی نظر نہیں آتی جو اجتماعی شعور اور اجتماعی نفسیات کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔جہاں سیاسی ادارے کمزور اور افراد مضبوط ہیں۔ جہاں سیاست بغیر نظرئیے کے ہو رہی ہے ، تو ایسے سماج میں لسانی ، جغرافیائی ، قومی اور مذہبی تقسیم اور فرقہ واریوں کو ہوا دی جاتی ہے۔
ہمارے سماج کا مذہبی شعور اور تشریحات و توضیحات بھی اس سماجی انتشار کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والے افراد میں بھی اجتماعیت اور اجتماعی شعور کا فقدان ہے۔ مذہب دورِ جدید کے اُٹھائے گئے منطقی سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہے۔
معاشی استحصال موجود بھی ہے اور بڑی تیزی سے ناقابلِ برداشت حدودوں کو چھونے لگا ہے ۔ہمارا مزدور اور محنت کش طبقہ اپنی اس حالت پر غصے اور نفرت کا اظہار بھی کررہا ہے۔ لڑائی جاری ہے ۔ بائیں بازو کی نظریاتی سیاست کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ معروضی حالات ان کے شعور پر ضرب لگاتے ہیں اور اسے جدوجہد کے میدان میں اتارتے ہیں ۔ لیکن اپنی معاشی احتیاجات اور فکری و شعوری جدوجہد کے درمیان جھولتا یہ طبقہ کبھی ’’بیگانگی‘‘ کی طرف لوٹ جاتا ہے اور کبھی لڑائی کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

دونوں کیفیتوں میں ہماری سماجی اور سیاسی پسماندگی جس میں نفسانفسی ، خود غرضی اور لالچ شامل ہیں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے اس شعور پر قومی ، لسانی اور مذہبی منافرتوں کے وار بھی کئے جا رہے ہیں۔لیکن بڑھتے ہوئے معاشی حملے ان کے لئے کوئی اشرافیہ کا سیاسی کھیل نہیں ہیں بلکہ یہ ان کی بقاء کا سوال ہوتا ہے۔ معاشی استحصال جہاں بڑے پیمانے کی سیاسی لڑائی کے امکانات واضح کرتا جا رہا ہے ، وہاں مزدوروں کے سیاسی اور اجتماعی شعور کا امتحان بھی بنتا جا رہا ہے۔ اگر وہ معاشی استحصال کی اس لڑائی کو طبقاتی لڑائی میں تبدیل نہیں کرتے ، تو دوسری صورت میں فرقہ وارانہ، لسانی اور جغرافیہ انتشار اور خون ریزی کے امکانات کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔
اس منتشر سماج میں ہمارا شاعر ، ادیب ، دانشور اور فلسفی بھی کوئی انفرادی اور آفاقی نظریہ منظرِ عام پرلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ تاہم معروضی جبر، بین الاقوامیت کا سامراجی کردار اور اس میں ہمارے دانشوروں کا کردار جیسے فکری قضیوں کے بارے میں سوچ ابھر رہی ہے۔ علاقائی شاعری اور دانش میں بھی سماجی اور سیاسی جبر کی داخلی اور خارجی وجوہات پر بے چینی دیکھنے کو ملتی ہے۔

اس یاسیت کے باوجود امید کی جو ایک کرن نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نئے لکھاریوں، ادیبوں ، شاعروں اور دانش وروں میں نہ صرف اس انتشار کا ادراک موجود ہے بلکہ اب اس کے داخلی اور خارجی اسباب پر معروضی انداز سے بحث جاری ہے۔ یہی بے چینی بیداری کا پہلا زینہ ہوتی ہے اور یہی بے چینی ہی دراصل نئی صبحیں تراش لانے کا سبب بنتی ہے۔

One Comment