بلوچ رہنماؤں کی شہادت نو آبا دیا تی جمہو ریت کا بد ترین مظہر 

دوستین بلوچ 

picture-for-blog

جمہوریت کیا ہے اور اپنی عملی صورت میں کسی بھی معاشرے کے کن انسا نی گروہوں کے مفادات کی تر جما نی کر تی آئی ہے ؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے حکمران قوتوں کی طرف سے سامنے آنے والے جوابات ابہام ،عدم اطمینان اور مزید سوالات پیدا کر رہے ہیں ،جس کا سبب قو می و طبقا تی جبرو استحصال اور نابرابری پر قائم نو آبادیاتی معاشی و سیاسی ڈھانچوں کے تحت متعارف کردہ ’’جمہوریت‘‘ہے۔

بعض سیاسی و سماجی معلمین جمہوریت کی ہمہ گیر طور پر تسلیم شدہ تعریف اور مروجہ ’’جمہوریت‘‘کو باہم متضاد تصور کرتے ہیں ،جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں بلکہ اقتدار میں براہ راست عوامی شرکت، اظہار رائے اور حقوق کے حصول کیلئے سیاسی جدو جہد کی آزادی مختلف اقوام کو اپنی قو می تہذیبی و لسا نی شناخت اور سر زمین کے تحفظ ، خود مختاری سلامتی اور اپنی مر ضی و خواہشات اور امنگوں کے مطابق زند گی گزارنے کا حق اور مختلف اقوام و طبقات سمیت تمام انسانی گروہوں کی مساویا نہ حیثیت اور ترقی و حکمرانی تک رسائی کیلئے یکساں غیر امتیازی سلوک جمہوریت کے اجزاء لانیفک بیان کئے جاتے ہیں ۔

جس میں قو می حق خوداریت یا قو می آزادی کاسوال بھی جمہوریت سے وابستہ ہے ، لیکن قدیم غلام دارا نہ و جاگیر دارا نہ دور سے لے کر مو جو د ہ جدید سر مایہ دارانہ سامرا جی دور تک سامنے آنے والی جمہوریت اور آمریت کی رائج الوقت تعریف میں تفریق کر نا ممکن نہیں رہا ہے،قومی و طبقا تی جبرو استحصال پر استوار ریاستی نظام میں حکمرا نی کا حق ہمیشہ بالادست اقوام و طبقات کو حاصل رہا ہے ،جہاں تمام تر معیشت و سیاست اور تہذیب و ثقافت پر بالا دست قو توں کا غلبہ رہاہے ۔

کثیر القو می ہیت و ساخت کی حا مل ریاستو ں میں طرز حکمرا نی جمہوری اصو لوں کی بجائے نو آبادیاتی ساختوں کا مظہر رہی ،ایک مخصوص قوم کی بالا دستی نے جس قو می سوال کو جنم دیا ، اس کا حل جمہوری تقاضوں کی تکمیل میں ممکن تھا، مگر سوال کو حل کر نے کی بجائے اُسے دبا نے اور کچلنے کا آمرا نہ راستہ ہی بالادست قوتوں کو اپنی بقاء اور بالادستی و حکمرا نی کا ضامن نظر آیا،جبکہ جمہوریت کے زریں اصولوں کے مطا بق کو ئی بھی قوم کسی کثیر القو می فیڈریشن یا یو نین سمیت کسی بھی اتحاد میں رہنے یا نہ رہنے کا بنیادی حق رکھتی ہے۔

اور ایک ایسی فیڈ ریشن ،یو نین یا اتحاد جو رضا کارا نہ کی بجائے بزور طاقت قائم کئے گئے ہوں ایسے معاشروں کو جمہوری نہیں نو آبادیاتی و آمرا نہ قرار دیا جاتا ہے، جہاں جمہوریت کے نام پر بنائے گئے تمام تر پارلیما نی ادارے و حکو متیں اپنے تمام تر دعووں کے با وجود ایک مخصوص بالادست قوم اور بالائی حکمران طبقے کے آمرا نہ تسلط تلے دبے ہو تے ہیں ،جن کی تمام نقل و حر کت اور فعالیت زیر دست کمزور اقوام کے وسائل اور سر زمین سے وابستہ نو آبادیاتی مفادات کی تکمیل کے لئے ہو تی ہے۔

جبکہ اس نو آبا دیا تی طر ز حکمرا نی کے خلاف متا ثرہ محکوم اقوام کے فطری سیاسی رد عمل کو دبا نے کیلئے ایسے آمرا نہ قوا نین کا نفاد عمل میں لا یا جاتا ہے جو قطعی طور پر جمہوریت کے منا فی اور متضاد ہیں ،بعض تجزیہ کار اور بلوچ سیاسی و عوا می حلقے بلوچ قو می سوال کو بھی ایسے ہی ریاستی نظام سے دو چار بیان کرتے ہیں ،ان حلقوں کے مطا بق یہاں رائج معا شی و سیاسی ریاستی نظام نے قو می و طبقا تی آزادی کے سوال کو بڑی شدت سے اُبھار ا ہے یہُ ابھار آغاز سے ہی دیکھنے میں آیا ہے ،جس کا مظاہرہ1948ء میں بلو چستان میں ریاستی عسکری طاقت کے استعمال میں بھی پہلی بار کھل کر سامنے آیا۔

اس کے بعد بلوچ قو می سوال کے گرد تحریک مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے پروان چڑ ھتی رہی ،جس کے نتیجے میں بلو چستان میں فو جی کارروائیوں سمیت ریاستی طاقت کی مختلف اشکال کا استعمال بدستور جاری رہا،بلوچ عوام شروع دن سے ہی بلو چستان کے الحاق کو متنا زعہ اور ان کی مر ضی و منشاء کے منا فی اقدام قرار دیتے آئے ہیں ،اور اس سے پیدا ہو نے والے تنازعے کو تاریخی حقائق اور بلوچ قوم کی امنگوں و خواہشات کے مطابق حل کر نے پر زور دیتے رہے ہیں ۔

اس سلسلے میں بلوچ عوام نے ہمیشہ قو می تحریک کی شکل میں اپنی سیاسی جدوجہد کا اظہار کیا ، لیکن اپنی آواز کو بلند کر نے کیلئے انہیں وہ جمہوری فضا دستیاب نہیں رہی جس میں پر امن ذرائع سے وہ سیاسی عمل میں شریک ہو سکتے ، بلوچ سیاسی وعوا می حلقوں کے مطابق اپنے قومی حقوق کے حصول کیلئے جب بھی یہاں کے عوام نے آواز اٹھا ئی تو بد ترین آمرا نہ ریاستی جبرو تشدد کا سامنا کر نا پڑا ،اس کیفیت میں بلو چستان کے عوام ایک ایسی حقیقی جمہو ریت سے محروم رہے جس میں اظہار رائے اور سیاسی جدو جہد کی آزادی اور عوا می رائے و مساویا نہ حقوق کا احترام پایا جاتا ہے ۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ قا نو نی و جمہوری راستوں کی بندش اور جبرو تشدد کے نتیجے میں بلوچ قو می تحریک میں پر امن ذرائع کے علاوہ مسلح سیاسی عنصر اور طریقہ جدو جہد غالب رہا ،لیکن حکمرانوں نے مسلح اور پر امن ذرائع سے جدو جہد کر نے والی قو توں میں کو ئی بھی فرق رکھے بغیر انہیں یکساں بد ترین ریاستی تشدد سے کچلنے کی کوشش کی ، جو سر اسر غیر جمہوری و غیر انسا نی شکل و صورت کا حا مل تھا، اس دوران اہم ترین رہنماؤں سمیت ہزاروں بلو چوں کو شہید اور قیدو بند کا نشا نہ بنا یا گیا ،لیکن ہر بار تحریک ختم ہو نے کی بجائے مزید پھیلتی گئی ۔

جس کا ایک بار پھر انتہائی شدت سے اُبھار رواں صدی کے آ غاز سے ہوا اور ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر نے کے با وجود یہ تحریک آج بھی بلندیوں کو چھو رہی ہے، اس تحریک میں بلوچ سماج کے تمام شعبہ ہائے زند گی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی جان نچھاور کر نے اور ہر قسم کا انسانیت سوز جبرو تشدد بر داشت کرنے کی ایسی داستانیں رقم کر رہے ہیں جن کی نظیر بہت کم ملتی ہے ۔

اس سلسلے میں بی این ایم اور بلوچ طلباء و نو جوا نوں کا کردار سب سے نما یاں ہے ، بی این ایم اگر چہ پر امن و جمہوری ذرائع سے بلوچ قو می آ جو ئی کی جدو جہد کو آگے بڑ ھا رہی ہے ، مگر اس کی قیادت اور کار کنوں کو د ہشت گرداور غداری کے القا بات سے نوازتے ہو ئے جبری گمشد گیوں ،سفا کا نہ ذہنی و جسما نی تشدد اور قتل و غارت گری کا نشا نہ بنا یا جا رہا ہے ۔

اب تک اس جماعت کی قیادت کی دو نسلوں کو شہید کیا جا چکا ہے ،چیئر مین غلام محمد بلوچ ،لالہ منیر ،صمد بلو چ ، کامریڈ رزا ق ، رسول بخش اور دیگر رہنماوں سمیت بی این ایم کے سینکڑوں کارکنوں کی ماورائے عدالت اغواء نما گرفتاریاں و جبرلی گمشد گیاں اور دوران حراست بد ترین تشدد کا نشا نہ بنا تے ہو ئے انہیں شہید کرنے اور مسخ شدہ لا شیں پھینکنے کا تسلسل واضح کر تا ہے کہ حکمران قو تیں بی این ایم کی شکل میں بلوچ قوم کی پر امن و جمہوری جدو جہد کو بھی برداشت کر نے پر آمادہ نہیں ہیں ۔

مبصرین کے مطا بق بی این ایم کے جمہو ری طرز عمل کا جواب غیر جمہوری و غیر انسا نی ریاستی جبرو تشدد سے دینے کا حکمران رو یہ نہ صرف بر قرار نظر آ تا ہے بلکہ اس میں کمی کی بجائے مزید شدت آتی دکھا ئی دیتی ہے ، جس کا مظا ہرہ گذ شتہ دنوں مستو نگ میں بی این ایم کے مر کزی سیکر ٹری جنرل ڈاکٹر منان اور رہنما محراب بلوچ سمیت پانچ بلو چوں کی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے المناک سانحہ کی صورت میں کیا گیا ۔

بعض بلوچ سیاسی حلقوں اور عوا می ذرائع کے مطا بق ڈاکٹر منان اور محراب بلوچ سمیت پانچوں شہداء نہتے اور غیر مسلح تھے اور اپنے تنظیمی سیاسی دورے پر آئے ہو ئے تھے ،جنہیں سیکورٹی اہلکاروں نے حراست میں لے کر سر میں گو لیاں مار کر شہید کیا گیا ،جسے ماورائے عدالت وقا نون قرار دیا جا رہا ہے ، شہداء کے ور ثاء اور سیاسی و عوا می حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ بلوچ رہنما حکو مت کو مطلوب مجرم تھے تو انہیں گرفتار کر کے عدا لت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا، چا ہے انہیں فو جی عدالتوں میں ہی پیش کیا جاتا ۔

اس سانحہ کے با رے میں صرف بلوچ عوام ہی نہیں بلکہ انسا نی حقوق کی تنظیموں و مختلف حلقوں نے بھی حکو متی مو قف اور دعووں کو مشکوک قرار دیا ہے ، یہ حلقے حیران ہیں کہ مقا بلے میں کسی سر کاری اہلکار کو خراش تک نہیں آئی ہے ، جبکہ ڈاکٹر منان کو بلوچ مسلح تنظیم کا کما نڈر ظا ہر کر نے کے حکو متی دعووں پر بھی بے اعتباری پا ئی جا تی ہے۔

لو گوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر منان سیاسی طور پر کو ئی غیر شنا سا یا اجنبی و گمنام رہنما نہیں تھے بلکہ دنیا جا نتی ہے کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یا فتہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور با شعور نظر یا تی و انقلا بی سیاسی کارکن تھے جنہوں نے اپنے علم و ہنر کو دولت کما نے کا ذر یعہ بنا نے کی بجا ئے بلوچ قوم کی محکو می سے نجات کی جدو جہد میں با شعور سیاسی کر دار ادا کر نے کا راستہ اختیار کیا، اور پر امن و جمہوری طور طریقوں سے حر یت پسندا نہ جدو جہد جاری رکھی ۔

اس دوران ڈاکٹر منان کے ہاتھوں میں نہ کسی نے بندوق دیکھی اور نہ ہی وہ پہا ڑوں کی چو ٹیوں پر نظر آئے ،ان کے ہا تھوں میں قلم کتاب ہی دکھا ئی دیئے اور وہ ہمیشہ نہتے عوا می رابطہ کاری کے عمل میں مصروف رہے۔ ان کا اصل جرم بلوچ تحریک آجو ئی کا پر چم تھا منا اور جدو جہد میں شعوری اور متا ثر کن کردار تھا ، جبکہ بابو نوروز،قلمی نام محراب سنگت،بیورغ ایک گمنام دانشور مارکس اور لین کی تعلیمات پر دسترس رکھنے کے ساتھ، علم و کتاب کا شیدائی تھا، یہی حریت پسندا نہ انقلا بی فکرو عمل ان کے ہمرا ہی شہید ساتھیوں کا بھی تھا ۔

مبصرین کے مطا بق حکو مت کے اس اقدام نے ایک با ر پھر ثا بت کر دیا ہے کہ بلوچ عوام کو بنیا دی قو می حقوق کجا جمہو ری و سیا سی ا ظہار رائے کی آزا دی کا حق حا صل نہیں ہے ، جس کا اظہار ڈاکٹر منان سمیت پانچ بلوچ رہنماؤں کی شہادت کیخلاف بلوچ عوام کے پر امن احتجاج و ہڑ تال کو بزور طا قت سبو تاژ کر نے کے عمل میں بھی نظر آیا ۔

میڈیا رپورٹس کے مطا بق احتجاج و ہڑ تال کر نے وا لے تاجروں کی دکا نوں اور کارو با ری مرا کز کو سیل کر دیا گیا اور گرفتاریاں عمل میں لا ئی گئیں ،ایسی کیفیت بلوچستان میں جمہو ریت نہیں نو آبا دیا تی تسلط کو ظا ہر کر تی ہے، تاہم بزور طا قت یہ تسلط قا ئم نہیں رکھا جا سکے گا۔

One Comment