توہین رسالت کے قانون کا پس منظر

محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ

islamic-justice
مسلمان اپنے آقا ومولا حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام وناموس پر مرمٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔ اس پر تاریخ کی کسی جرح سے نہ ٹوٹنے والی ایسی شہادت موجود ہے جو ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو خواہ وہ ایشیا ہو یا یورپ، افریقہ ہو یا کوئی او رخطۂ ارض، جہاں بھی اقتدار حاصل رہا، وہاں کی عدالتوں نے اسلامی قانون کی روسے شاتمان رسول کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ اس کے برعکس جب کبھی یا جہاں کہیں ان کے پاس حکومت نہیں رہی، وہاں جانثار ان تحفظ ناموس رسالت نے غیر مسلم حکومت کے رائج الوقت قانون کی پرواکیے بغیر گستاخان رسول کو کیفرکردار تک پہنچایا اور اور خود ہنستے مسکراتے تختہ دار پر چڑھ گئے۔

برصغیر پاک وہند میں برطانوی دور استعمار سے قبل، حتیٰ کہ مغل شہنشاہ اکبر کے سکیولردور میں بھی، شاتم رسول کو سزائے موت دی گئی۔ لیکن جب اس ملک پر سازشوں کے ذریعے انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہوا تو انہوں نے توہین رسالت کے اس قانون کو یکسر موقوف کردیا۔ پھر انگریز حکومت ہی کی شہ پر جب ہندوؤں، آریہ سماجیوں اور مہاسبھائیوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی پر حملے کرنے شروع کردئیے تو مسلمانوں نے شاتمان رسول کو قتل کرکے، اقرار جرم کرتے ہوئے دارورسن کی روایت کو از سرنوزندہ کیا۔

مسلمانوں کے احتجاج اور مولانا محمد علی جوہر کی تحریک پر اس وقت کی قانون ساز اسمبلی نے1927ء میں ایک معمولی سی دفعہ295 اے کا تعزیرات ہند میں اضافہ کیا، جس کی رو سے توہین مذہب کے جرم کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ مقرر ہوئی ، لیکن اس سے مسلمانوں کی اشک شوئی نہ ہوسکی۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہ توقع تھی کہ یہاں توہین رسالت کے جرم کی شرعی سزا، سزائے موت کا قانون پھر سے بحال ہوجائے گا، لیکن کسی بھی مقنّنہ یا حکومت کو اس بارے میں پیش رفت کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ اسی اثناء میں اسلام دشمن قوتوں نے پاکستان کی اسلامی ریاست کو ختم کرنے کے لئے سازشوں کا جال سارے ملک میں بچھا دیا۔ زرخریدایجنٹوں کے ذریعہ یہاں کے نوجوانوں کو دین سے برگشتہ کرنے کے لئے لادینی لٹریچر بھی پھیلانا شروع کر دیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک کمیونسٹ مشتاق راج کا ذکر ضروری ہے جس کی اشتعال انگیزی قانون توہین رسالت اور اس کتاب کی تصنیف کا باعث بنی۔ اس کی خدمات روس کی حکومت نے حاصل کی ہوئی تھیں۔

مشتاق راج نامی ایک کٹّر کمیونسٹ ایڈووکیٹ نے1983ء میں (آفاقی اشتمالیت) ایک کتاب لکھی جو ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ میں مفت تقسیم کی گئی۔ یہ کتاب راقم الحروف کو جسٹس میاں صادق اکرام نے لاکردی۔ اگرچہ، میں مصنف کے مبلغ علم سے واقف تھا، مگر یہ دیکھنے کے لئے کہ اس کتاب میں کمیونزم کا مذہبی نقطہ نظر سے کس طرح جائزہ لیا گیا ہے، میں نے کتاب پڑھنا شروع کی۔ جیسے جیسے کتاب پڑھتا گیا، میری قوت برداشت جواب دیتی چلی گئی۔ مجھ پر غم وغصہ کی جو کیفیت طاری ہوئی، وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کتاب میں نہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ تمسخر کیا گیا، بلکہ مذاہب او رادیان کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا۔ دینی پیشواؤں کو ’’مذہبی شیطان‘‘ کہا گیا، انبیائے کرام علیہم السلام پر نہایت گھٹیا اور سوقیانہ حملے کئے گئے او رانتہا یہ کہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخی کی جسارت کی گئی۔ 

میں نے نہایت صبر وضبط سے کام لیتے ہوئے ورلڈایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کا اجلاس طلب کیا، جس میں پاکستان کے نامور علمائے دین کے علاوہ بیرون ملک سے عالم اسلام کے دو ممتاز اسکالر ڈاکٹر ربیع المدخلی اور پروفیسر سعید صالح نے بھی شرکت کی۔ سب علماء کا متفقہ فتویٰ تھا کہ شاتم رسول واجب القتل ہے، لہٰذا حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس ناپاک کتاب کو فوری طور پر ضبط کرلے اور بغیر کسی تاخیر کے توہین رسالت کا قانون بناکر اسے نافذ العمل کردیا جائے، تاکہ آئندہ کسی بدبخت کو اہانت رسول کی جرأت نہ ہوسکے۔

لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن او ربار کونسل نے بھی راقم کی تحریک پر مشتاق راج کو بارکی رکنیت سے خارج کردیا او رحکومت سے مطالبہ کیا کہ اسے گرفتار کرکے عبرت ناک سزادی جائے اور اس ناپاک کتاب کی ساری کاپیاں فوری ضبط کرلی جائیں۔ اہل لاہور کو جب اس کتاب کی اشاعت کا علم ہوا تو ان کے جذبات مشتعل ہوگئے او رحکومت نے امن وامان کی صورت حال اور بار ایسوسی ایشن کی قرار داد کے پیش نظر اسے زیر دفعہ295 اے، گرفتار کرلیا۔ کیونکہ تعزیرات پاکستان میں اس وقت تک توہین رسالت جیسے سنگین اور انتہائی دل آزار جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں تھی۔ ملک عزیز کے تمام مکاتب فکر کے علماء، وکلاء، بار ایسوسی ایشنز اور دینی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلہ میں فوری طور پر قانون سازی کی جائے۔ پاکستان کے قومی اخبارات نے بھی اس کی تائیدکی اور اس کی حمایت میں ادارئیے لکھے۔

بالآخر اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامیان پاکستان کے اس مطالبہ کا نوٹس لیا او رجناب شیخ غیاث محمد، سابق اٹارنی جنرل کی تحریک پر حکومت سے سفارش کی کہ توہین رسالت اور ارتداد کی سزا، سزائے موت مقرر کی جائے۔ اس کے باوجود حکومت وقت نے اس نازک مسئلہ کو مستحق توجہ نہ سمجھا۔ لہٰذا راقم الحروف نے فیڈرل شریعت کورٹ میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق اور تمام صوبوں کے گورنروں کے خلاف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ203 کے تحت1984ء میں اپنے ساتھ تمام مکاتب فکر کے علماء، سپریم کورٹ او رہائی کورٹ کے سابق جج صاحبان، سابق وزرائے قانون، سابق اٹارنی جنرل، سابق ایڈووکیٹ جنرل صدر لاہور ہائی کورٹ بار اور دیگر بارکونسلوں کے صدر صاحبان او رنمایندہ شہریوں کو شامل کرکے شریعت پٹیشن نمبر ایل اے1984 ء دائر کی۔

مقدمہ کی سماعت کا آغاز راقم الحروف کی بحث سے شروع ہوا۔ عدالت نے عوام الناس کے نام نوٹس جاری کردئیے۔ کمرہ عدالت اور اس کے باہر ہر روز عوام کا ہجوم اس مقدمہ کی کارروائی کی سماعت کے لئے موجود ہوتا۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عجیب وغریب واقعات پیش آئے، جن میں دو بڑے دلچسپ او رقابل ذکر ہیں۔ اس پٹیشن میں سابق جج لاہور ہائی کورٹ جناب جسٹس چوہدری محمد صدیق بحیثیت مدعی ہمارے ساتھ شامل تھے، جب کہ حکومت کی طرف سے ان کے صاحبزادے جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جو اس وقت ایڈووکیٹ جنرل تھے، پیش ہوئے۔ میں نے عدالت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اس تاریخی مقدمہ میں باپ بیٹا ایک دوسرے کے مقابل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لائق بیٹے نے شریعت پٹیشن کی مکمل طور پر حمایت کی او رتمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلزنے بھی اس پٹیشن کی تائید میں دلائل پیش کئے اور عدالت سے درخواست کی کہ اس درخواست شریعت کو منظور کر لیا جائے۔

ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی ڈپٹی اٹارنی جنرل نے، جو حکومت پاکستان کی جانب سے پیش ہوئے، ہمارے اس موقف سے اتفاق کیا کہ شاتم رسول واجب القتل ہے، لیکن یہ قانونی اعتراض اٹھایا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کو اس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے پیش نظر ایک او رمسئلہ بھی تھا کہ آیا شاتم رسول کی سزا کا معاملہ قانون ساز اسمبلی سے متعلق ہے یا فیڈرل شریعت کورٹ اس بارے میں وفاق پاکستان کو حکم نامہ جاری کرنے کی مجاز ہے۔ بہرحال فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اسی اثناء میں ایک اور سنگین واقعہ رونما ہوا۔

ماہ جولائی1984ء میں ایک خاتون ایڈووکیٹ (عاصمہ جہانگیر)، جن کے شوہر ایک بڑے صنعت کار اور سرمایہ دار قادیانی ہیں، انہوں نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ ایسے نازیبا الفاظ استعمال کیے جو سامعین اور امت مسلمہ کی دل آزاری کا باعث تھے، جس پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس نے اپنے خصوصی اجلاس میں پاکستان کے تمام سربرآوردہ علماء اور وکلاء کی جانب سے اس کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طو رپر شاتم رسول کے بارے میں سزائے موت کا قانون منظور کرے اور فیڈرل شریعت کورٹ سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ شریعت پٹیشن پر اپنا فیصلہ صادر کرے۔

اسلامی جذبے سے سرشار خاتون مرحومہ آپانثار فاطمہ نے اس قابل اعتراض تقریر کا قومی اسمبلی میں سختی سے نوٹس لیا او رراقم الحروف کے مشورے سے قومی اسمبلی میں تعزیرات پاکستان میں ایک مزید دفعہ295-Cکا بل پیش کیا، جس کی رو سے شاتم رسول کی سزا، سزائے موت تجویز کی گئی۔ مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کے پیش نظر کسی کو اس کی مخالفت کی جرأت نہ ہوسکی۔ البتہ وزیر قانون اقبال احمد خان کی طرف سے اس بل میں یہ ترمیم کردی گئی کہ شاتم رسول کی سزا، سزائے موت یا عمر قید ہوگی۔ اس طرح دفعہ295-Cکا تعزیرات پاکستان میں اضافہ کردیا گیا۔ لیکن اس دفعہ سے راقم الحروف، مرحومہ آپا نثار فاطمہ، علمائے کرام، وکلاء او رمسلمان عوام مطمئن نہیں تھے۔ اس لئے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ میں295-Cکوراقم نے مسلم ماہرین قانون کی تنظیم کی جانب سے اس بناء پر چیلنج کردیا کہ توہین رسالت کی سزا بطورحد سزائے موت مقرر ہے او رحدکی سزا میں کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔

اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت یکم اپریل1987ء کو شروع ہوئی، جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو بھی معاونت کی دعوت دی گئی۔ اس مقدمہ کی سماعت لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فل کورٹ نے کی جو جناب جسٹس گل محمد خان چیف جسٹس، جناب جسٹس عبدالکریم خان کندی، جناب جسٹس عبادت یارخان، جناب جسٹس عبدالرزاق تھیم او رجناب جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خاں پر مشتمل تھا۔ من جملہ دیگر علمائے کرام کے مولانا سید محمد متین ہاشمی، مولانا محمد حسین اکبر اجتہادی، مولانا حافظ یوسف صلاح الدین اور جناب سید ریاض الحسن نوری قابل ذکر ہیں۔ 

علماء کرام کے علاوہ حکومت پنجاب کی جانب سے جناب خلیل الرحمن رمدے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، جو اب سپریم کورٹ کے آنریبل جج ہیں، حکومت سرحد کی جانب سے جناب جسٹس محمد اجمل میاں، جو اس وقت سپریم کورٹ کے فاضل جج ہیں، سندھ اور بلوچستان کی طرف سے وہاں کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل صاحبان نے بھی ہمارے موقف کی مکمل تائید اور حمایت کی۔ ملک کے ممتاز اسکالر مولانا سید محمد متین ہاشمی اور جناب ریاض الحسن نوری مشیر وفاقی شرعی عدالت نے عمر قید کی سزا کے اسلامی احکام سے منافی ہونے کے بارے میں مؤثر دلائل پیش کیے۔ سندھ کی حکومت نے بھی شاتم رسول کی سزا، سزائے موت کو تسلیم کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف تھا کہ سزا کے لئے نیت کی ضرورت نہ ہے۔ اسے فی الفور قتل کیا جائے۔

توہین رسالت کے مقدمہ میں عاجز کو رفیق محترم جناب ڈاکٹر ظفر علی راجا ایڈووکیٹ کی شب وروز معاونت حاصل رہی ہے، جس میں ان کا خلوص اور ملی حمیت کا جذبہ کارفرمارہا ہے۔ بالآخر وہ ساعت سعید بھی آگئی، جب فیڈرل شریعت کورٹ نے متفقہ طور پر، اس گدائے شہہ عرب وعجم کی، پٹیشن منظور کرتے ہوئے توہین رسالت کی متبادل سزا عمر قید کو غیر اسلامی اور قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا او رحکومت پاکستان کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ عمر قید کی سزا کو دفعہ295-Cسے حذف کیا جائے، جس کے لئے حکومت کو30اپریل سال1991ء تک کی مہلت دی گئی۔

اس فیصلہ کے بعد ایک عجیب مرحلہ پیش آیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت نے جو کہ نفاذ اسلام اور قرآن وسنت کے قانون کی بالادستی کا منشورلے کر برسراقتدار آئی تھی، سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ جس پر راقم نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو پیغام بھجوایا کہ حکومت اس اپیل کو فوری طو رپر واپس لے ورنہ اس انتہائی حساس مسئلہ پر مسلمانوں کے جذبات اس حکومت کے خلاف مشتعل ہوجائیں گے۔ خدا کاشکر ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف نے توجہ مبذول کرانے پر فوری اور بروقت نوٹس لیا اور برسرعام اعلان کیا کہ اس اپیل کا انہیں قطعی علم نہ تھا ورنہ ایسی غلطی کبھی سرزد نہیں ہوسکتی تھی۔

اگر اس جرم کی سزا، سزائے موت سے بھی سنگین تر ہوتی تو ہم اسے بہر صورت نافذ کرتے۔ چنانچہ ان کے حکم سے توہین رسالت کی سزاء موت کے خلاف سپریم کورٹ سے یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ جو بوجہ دستبرداری خارج ہوگئی، جس کے بعد یہ قانون مکمل طور پر سارے ملک میں نافذ ہوگیا۔ اس طرح نہ صرف عاجز، مرحومہ آپانثار فاطمہ او رمولانا سید محمد متین ہاشمی مرحوم کی بلکہ پوری امت مسلمہ کی دلی آرزوپوری ہوئی۔ اس فیصلہ کی بدولت حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی سنت تازہ ہوئی جس پر تمام مسلمانوں کے ایمان کا دارومدار ہے۔ جس کے لئے فیڈرل شریعت کورٹ کے فاضل چیف جسٹس جناب گل محمد خان مرحوم او ران کے تمام رفقاء جج حضرات بھی پوری امت مسلمہ کی جانب سے مستحق مبارک باد ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بھی تعزیرات ہندکی طرح برٹش گورنمنٹ کی پالیسی کے تحت قانون توہین رسالت سرے سے موجود ہی نہیں تھا مگر اب بفضل تعالیٰ یہ قانون سارے پاکستان میں نافذ العمل ہے، لیکن اردو یا انگریزی میں قانون توہین رسالت پر قرآن، سنت، فقہ اور مروجہ قانون کے حوالہ سے تاریخی پس منظر کے ساتھ کوئی مستند کتاب موجود نہ تھی۔ اس لئے توہین رسالت کے مقدمہ کے سلسلہ میں کافی مواد اکھٹا کرنا پڑا، نئے مسائل او رمباحث کے جوابات بھی علمی دیانت کے ساتھ پیش کئے گئے تھے، اس لئے انہیں بھی یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کرنے کی سعادت مجھ عاجز کو حاصل ہوئی، جس سے نہ صرف فاضل اراکین عدلیہ، قانون داں حضرات او راہل علم و دانش بلکہ صاحب ذوق قارئین بھی مستفید ہوں گے۔

اس کتاب کے کچھ مسودات مکہ مکرمہ حرم نبوی او رطائف میں لکھے گئے، اس لئے اہل دل کو اس میں جو حسن اور دل کشی نظر آئے، وہ ان ہی حسین مقامات کا عکس جمیل ہے او رجو خامیاں اور غلطیاں نظر آئیں، اس میں میری کوتاہیوں کا دخل ہے۔ قارئین محترم سے گزارش ہے کہ غلطیوں سے جو سہواً ہوگئی ہیں، مطلع فرمائیں تاکہ انہیں دور کیا جاسکے۔

بشکریہ : ناموس رسول ؐاورقانون توہین رسالت، شائع کردہ :الفیصل ناشران تاجران کتب، لاہور 

2 Comments