قصہ پاکستانی پرچم جلانے کا

سلمان احمد ۔ ٹورنٹو

image3355

چند ہفتے قبل ٹورنٹو میں بلوچ نوجوانوں نے ، بلوچستان میں بلوچ سیاسی کارکن ڈاکٹر منان بلوچ کے بے ہیمانہ قتل کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بلوچ مظاہرین نے پاکستانی پرچم کو بھی نذر آتش کیا ۔ پرچم نذر آتش کرنے والوں میں کینیڈا میں مقیم ممتاز لکھاری اور دانشور طارق فتح بھی شامل تھے اور بلوچوں کو کم لیکن طارق فتح کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

دوران تعلیم ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان میں صرف پنجابی ہی ہیں جو محب وطن ہیں جبکہ باقی غدار ہیں جو پاکستان کی عزت کرنا ہی نہیں جانتے۔جی ایم سید ہوں یا باچا خان اور ولی خان، مجیب الرحمن ہو یا خیر بخش مری یا اکبر بگتی یہ حضرات دشمن کے ایجنٹ تھے جو پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے۔ ہم پنجابیوں میں دوسرے صوبوں کے متعلق حب الوطنی سے متعلق منفی تاثر پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹورنٹو میں پاکستانی ریاست کے ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں نے جب پاکستان کا پرچم جلایا تو پنجابیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی لیکن بلوچی، سندھی اور پٹھان نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ 

پاکستانی پرچم جلانے پر پنجابیوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے کیونکہ پنجابی ہی پاکستان کا درد رکھتے ہیں جبکہ باقی صوبوں کے نزدیک پاکستان کوئی مقدس ریاست نہیں ہے ۔اگر اس کے حصے بخرے ہو بھی جاتے ہیں تو انہیں کوئی دکھ نہیں ہو گا ۔ ایک ابھرتے ہوئے پنجابی لکھاری کو اتنا ’’دکھ‘‘ ہوا کہ انہوں نے فوری طور پر اپنا احتجاجی بیان بھی جاری کردیا ۔ موصوف بسیار نویسی کا شکار ہیں اور ہر موضوع پر (سوائے بلوچستان میں ریاست کے ظلم و ستم کے خلاف ) اپنا بیان جاری کرنا فرض سمجھتے ہیں اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ماشاء اللہ ان کی فین فالوونگ بھی کافی ہے ۔ 

یہ کوئی تیس بتیس برس پہلے کی بات ہے، میں ان دنوں بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ تھا ، بلوچ رہنما اکبر بگتی لاہور آئے ہوئے تھے ۔ ہم کچھ دوست ان سے ہوٹل ملنے گئے ۔ سیاسی صورتحال پر گفتگو کے دوران بتایا کہ ہم کچھ لوگوں نے حکومتی پالیسی کے خلاف مال روڈ پر احتجاج کیا تو وہ بولے کتنے آدمی تھے؟ ہم نے کہا کہ یہی کوئی چالیس پچاس۔۔۔ وہ مسکرائے اور بولے کہ جب تک پاک فوج دس ہزار پنجابیوں کو قتل نہیں کرے گی انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آسکتا کہ ریاست کیسے ظلم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بنگالیوں سے پوچھو یا بلوچوں سے کہ پاک فوج کتنی ظالم ہے ۔جنرل ضیانے سندھیوں پر کتنا ظلم ڈھایا یہ سندھی ہی جانتے ہیں۔ پختونخواہ میں کیسے باچا خان کو غدار قرار دیا گیا یہ ان سے پوچھیں۔ بنیادی طور پر پاکستانی ریاست ایک غیر حقیقی ریاست ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے قیام کے ساتھ ہی اس کی سالمیت خطر ے سے دوچار ہو گئی۔

اس وقت تو ہم جذباتی تھے اور ان کی بات کو سنی ان سنی کردیا لیکن بعد میں آنے والے حالات سے ہمیں ان کی بات سمجھنے میں آسانی ہوگئی۔ بائیں بازو کی سیاست کے سلسلے میں بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے طول و عرض میں لوگوں سے ملنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ یہاں کے عوام پاکستانی ریاست کے متعلق کیسے جذبات رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ ریاست کیسے اپنے ہی لوگوں کا استحصال کرتی ہے۔

بعد میں ایک این جی او کے پلیٹ فارم سے ہمیں بنگلہ دیش جانے کا موقع ملاتو وہاں کے عوام کے ذریعے یہ پتہ چلا کہ وہ پاک فوج سے کتنی نفرت کرتی ہے۔ ایک ادارے میں جب لوگوں کو پتہ چلا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے توانہوں نے ہمارا استقبال اس وقت تک کرنے سے انکار کر دیا جب تک ہم بنگالیوں سے 1971کے مظالم کی معافی نہ مانگیں۔لہذا ہمارے وفد کے سربراہ نے معافی مانگی اور افسوس کا اظہار کیا تو سلسلہ آگے بڑھا۔

کوئی تیس سال پہلے بھی بلوچستان میں محمد علی جناح کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا تھا اور اب تو نیا زمانہ نے رزاق سربازی کا ایک مضمون بھی شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں اب تعلیمی اداروں میں توپاکستان کا قومی ترانہ بھی نہیں پڑھا جاتا تھا اس کی بجائے ایک بلوچ شاعر کا نغمہ ’’ ما چکیں بلوچی‘‘ پڑھا جاتا ہے۔

ماچکیں بلوچانی

جب ریاست اپنے شہریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہی ہو، ہزاروں افراد کو اپنے حقوق کی بات کرنے پر اغوا کر لیا جاتاہو اور پھران کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہوں ،ان پر بربریت کا بازار گرم ہو تو پھر اس کے شہریوں سے حب الوطنی کا تقاضا کرنا سراسر بے وقوفی ہی کہا جا سکتا ہے۔پاکستانی ریاست ایک ناکام ریاست ہے۔ یہ اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ریاست نے اپنے عوام کو فرقہ وارایت ، قتل و غارت اور خود کش حملوں کے سوا کچھ نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں لوگ پاکستان کو چھوڑ کر یورپ و امریکہ بسنا چاہتے ہیں۔

ریاست کی عزت پرچموں سے نہیں ہو تی بلکہ اس کی مضبوط معیشت اورعوام کو سماجی انصاف مہیا کرنے سے ہوتی ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ امریکہ یا اسرائیل کا پرچم جلایا جاتا ہوگا مگر اس سے ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکہ کی عزت اس کے پرچم میں نہیں بلکہ اس کی مضبوط جمہوری نظام میں ہے جہاں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔

Comments are closed.