اجتماعی خودکشی

آئینہ سیدہ

201132185722431371_10

عظیم قومیں عظیم افراد سے بنتی ہیں ایسے افراد سے جو اپنے ہنر ،علم و فن ،تحقیق ،سیاست، بین الاقوامی تعلقات ،معاشیاتوغیرہ جیسے علوم پر دسترس رکھتے ہیں اور پھر اپنی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے یہ افراد اپنی قوم اور ملک کے لیے کارنامے انجام دیتے ہیں اور ان کارناموں کی بدولت دنیا میں ان افراد کا نام انکے ملک اور قوم کا نام روشن ہونے کا با عث بنتا ہے۔

پاکستان 1947 میں قائم ہوا تھا اور آج 2016 میں ہمیں دنیا کے نقشے پر ابھرے تقریبا 68سال ہوچکے ہیں قوموں کی زندگی میں 68 سال بہت ہی معمولی عرصہ ہے لیکن یہ ہماری خوش قسمتی رہی کہ اس مختصر سے عرصے میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو ،باچا خان ، جی ایم سید ،حیدر بخش جتوئی ،خیر بخش مری ،نواب اکبر بگٹی ،بے نظیر بھٹو جیسے قابل اور بین الاقوامی عزت و شہرت کے حامل سیاستدان ملے۔

ہمیں فیض احمد فیض جنہیں لینن پیس ایوارڈ یافتہ شاعر نصیب ہوئے جوش ملیح آبادی، حبیب جالب ، محسن نقوی ،احمد فراز ،پروین شاکر، منیر نیازی ، احمد ندیم قاسمی جیسے ہندو پاک اردو ادب پر حکمرانی کرتےشاعرملے….. کھیل ہوں یا اقتصادی میدان ، فن کا سفر ہو یا صحافت کا، 68 سال کی مختصر عمر میں اس قوم نے کیا کیا نہ گوہر پائے مگر

وائےناکامی متا ع کارواں جاتا رہا

کارواں کے ساتھ احساس زیاں جاتا رہا

ہم نے اجتماعی طور پر نہ ان گوہر نایاب سیاستدانوں سے فائددہ اٹھایا نہ فن کے جھلملاتے ستاروں سے! کھلاڑی بھی ہماری سازشی کہانیوں کی نظر ہوئے اور اپنے پیشے سے عشق کرنے والے جانباز صحافی بھی .ہم نےکبھی پہلے پاکستانی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبد السلام کوکافر کہہ کر دنیا میں اپنا ہی مذاق اڑایا تو کبھی سب سے کم عمر امن کا نوبل پرائیز پانے والی بہادر ملالہ کو ایکٹنگ کوئین اور یہودی ایجنٹ مشہور کر کے اپنے مزید ذلیل ہونے کا بندوبست کیا۔

اپنے ہی عوام کے ہر دلعزیز اور منتخب رہنماؤں کو قاتل ، مجرم بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پھر دنیا سے یہ امید کہ وہ آپ کی اس ملک کی اور اس کے عوام کی عزت کرے ؟ کیا دنیا والے ایسی عوام کی عزت کریں جو کبھی ایک قاتل کو چار حلقوں سے ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں تو کبھی کرپشن کوئین کو مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی خاتون وزیر اعظم بنا دیتے ہیں !۔

دنیا ایسی عوام کو کیا سمجھے جو ایک ہائی جیکر کو تین بار وزیر اعظم منتخب کرتی ہے ، کبھی اپنی دو بار منتخب وزیر اعظم بیوی کے بھائی اور کبھی خود اسی وزیر اعظم بیوی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے کوعوامی پارلیمنٹ بھاری اکثریت سے اپنا صدر بنالیتی ہے؟

دنیا اس ملک کے باسیوں کو کیا سمجھے جن کے شاعر اکثر ہی جلاوطن رہتے ہیں یا پھر جیل میں کبھی ان پر حیدرآباد سازش کیس چلتا ہے تو کبھی وہ امریکہ ، کینڈا یا برطانیہ میں جان بچا کر چھپے رہتے ہیں۔

جس شاعری کو دنیا سنتی ہے، داد دیتی ہے اپنی اپنی زبانوں میں اسی شاعری کے ترجمے کروا کر اپنی درسگاہوں میں رائج کرتی ہے ، ہم اس کو غدار ڈکلئیر کرتے ہیں فیض ہو یا فراز، انشا جی ہوں یا جوہر میر ہم نے اپنے شاعر و ادیب کی علم و فن کی زندگی مختصر ترین کر دی ۔اس کی زندگی فن کے چراغ جلاتے نہیں بلکہ جلاوطنی کے عزاب سہتے گزری۔

آج بھی وہ قلم کار جو بلوچستان کے جوانوں کو شعور دیتے ہیں ریاستی بربریت کی زد پر ہیں نہ کوئی مقدمہ ہے نہ کوئی الزام ثابت ، نہ وکیل نہ جج اور سیدھا سزائےموت کھلاڑیوں کی طرف آئیں تو کبھی کسی گولڈ میڈلسٹ باکسر کو شہر کی گلیوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی کی گاڑی کھینچتے دیکھیں گے تو کبھی کسی فٹ بال کے مایہ ناز پلئیر کو۔

کھیلوں اورکھلاڑیو ں کو برابری کی سطح پرفنڈز مہیا نہیں کیے جاتے بلکہ یہاں بھی ناانصافی کا دور دورہ ہے آپکو کرکٹ ہی اس ملک کا قومی کھیلنظر آ ئے گا ہاکی ہو یا فٹبال جیسا بین الاقوامی کھیل اسکے کھلا ڑی ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں۔

لوک فنکار کسی بھی زمین کا اٹوٹ انگ ہوتے ہیں یہ فنکاروں کی واحد قسم ہے جوبازارمیں بیچی اور خریدی نہیں جاسکتی کیوں کہ اسکا تعلق فن سے زیادہ مٹی سے ہوتا ہے۔یہ بھارت اور امریکہ جا کر صرف اپنے فن کا مظاہرہ کر کے اپنے وطن کا نام غیر ملکیوں کی زبان پر لے آتے ہیں مگر انکے رنگ میں کبھی بھی نہیں ڈھل سکتے ! ایسے سچے اور کھرے فنکاروں کے لیے آجکل کے یہ دو نمبر کے میڈیا ہاوسز ، ٹی وی چینلز ، ایف ایم ریڈیوز ، اسٹیج شوز وغیرہ کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے ! ایک زمانہ ان لوک فنکاروں پر آیا تھا کہ یہ مٹی سے گندھے اپنے فن کو عوام تک پہنچا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے مگر جس طرح مکروہ آمریت نے جمہوریت کی اصل کا گلا گھونٹ دیا ویسے ہی اصل فنکاروں کو بھی موت کے منہ میں پہنچا دیا۔

بلکہ اگر میں کہوں کہ مائی بھاگی ، استاد ابراہیم ،فیض محمد بلوچ ، استاد خمیسو خان ، ریشماں اور ان جیسے خوبصورت ترین فنکار جو کسی بھی ملک کا بہترین اور قیمتی ترین اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان 68 برسوں میں عوامی بے توجہہی اور حکومتوں کی لاتعلقی کی وجہ سے ایسے بچھڑے ہیں جیسے خزاں رسیدہ شجر سے زرد پتے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔

قدرت نے صحافی بھی وہی اس ناقدر معاشرے سے چن چن کر اٹھا لیے جو اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے پورا کرنا جانتے تھے۔ آمرانہ نظام نے کچھ تو ملک چھوڑنے پرمجبور کر دیا اور کچھ کو اگلے جہاں کی راہ دکھا دی کچھ کمزور اعصاب کے مالک صحافیوں نے سویلین ہوتے ھوئےبھی ہتھار ڈالنے میں ہی عافیت جانی اور آج بھی بھری جیب اور بوجھل ضمیر کے ساتھ صحافت کی ٹمٹماتی مشعل کواپنے ہاتھوں خوف کے سائے میں زندگیاں گزار رہے ہیں کہ نہ جانے کونسی رات ہو گی جس میں رہزنوں کے روپ میں نام نہا د چوکیدار حملہ آور ہونگے اور ایسے صحافیوں کی زندگیاں بھی ختم کرنا چاہیں گے جو بزدل تو ہیں مگر انکے سینے میں طاقت کی غلام گردشوں میں کامیاب اور ناکا م رہتی سازشوں کے راز دفن ہیں۔

لیکن نادان ہیں وہ جو سمجھتے ہیں کہ موت ان سیاستدانوں ، فنکاروں ،قلمکاروں ،صحافیوں کو نقصان پہنچاتی ہے ایسا نہیں کیونکہ انسان تو ہے ہی فانی ! آج نہیں تو کل ختم ہوجانا ہے مگر کیونکہ اس ملک اور اس میں بسنے والوں کی قسمت خراب ہے لحاظہ جو کچھ ان عظیم افراد نے قوم کی عظمت اور وقار کے لیے دنیا میں کرنا تھا اسکا نہ انکو وقت دیا گیا اور نہ فرصت !!۔

ان میں کوئی اپنے پر لگےجھوٹے الزمات دھوتے دھوتے دنیا سے کوچ کر گیا تو کسی کو ریاست نے قاتل ، ڈاکو ، مجرم، غدار ،کافر ،وطن دشمن ، دہریہ ، بے راہ رو کہہ کر کبھی ذہنی تو کبھی جسمانی طور پر قتل کر ڈالا۔

سچ یہی ہے کہ جس طرح فرد خودکشی کرنے پر آ ئے تو اسکو وقت بھی مل ہی جاتا ہے اور موا قع بھی اسی طرح قومیں بھی جب اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو تاریخ میں رسوا و ذلیل کرنے پر آئیں تو اپنے ہی ہیروز کو چن چن کر پہلے بدنام اور پھر قتل کروا دیتی ہیں اور اس طرح اپنی اجتماعی خودکشی کو کامیاب بنا دیتی ہیں۔

2 Comments