فائدہ اور نقصان کا تصور 

qazi-310x387فرحت قاضی


ہر سماج میں روایات،رواجات،رسومات ، سماجی اور اخلاقی قدریں ہوتی ہیں۔ انگریز نے ہند میں اپنے پاؤں جمانے کے لئے اگرچہ نوآبادیاتی قوانین نافذ کئے پولیس اور فوج کی تربیت بھی اس نقطہ نظر سے کی گئی تو ساتھ ہی مفتوحہ ملک کے مفادات مغرب اور یورپ سے جوڑنے کے لئے جدید تعلیمی ادارے بھی قائم کئے گئے۔
تاہم یہ ان ہی نئے سکولوں کے قیام کا پھل ہے کہ پاک و ہند کا نوجوان نئی سائنسی تعلیمات اور ایجادات کی جانب راغب ہوا اس نے قدم قدم پر قدیم روایتوں، رواجوں، رسموں،سماجی اور اخلاقی قدروں کو اپنی راہوں میں رکاؤٹ پایا اور تاحال ان سے برسرپیکار ہے۔
درحقیقت روایات، رواجات،رسومات،سماجی اورا خلاقی قدروں کا تعلق مروجہ نظام سے ہوتا ہے یہ بالا دست طبقات اپنے، اپنے خاندان اور طبقے کے مفادات کے لئے پیدا کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کو تبدیل کرتے اور نئے بھی پیدا کرتے رہتے ہیں۔
چنانچہ جب متحدہ ہند میں سکول کھولے جانے لگے تو قبائلی سرداروں اور جاگیرداروں کو اپنا اقتدار مٹتا ہوا نظر آنے لگا لہٰذا انہوں نے حسب معمول اس کی براہ راست مخالفت سے گریز کیا اور اسے مروجہ سماجی اور اخلاقی قدروں سے متصادم قرار دیتے ہوئے عوام کو ان کے خلاف متحد کیا۔
یہاں اہم اور غور طلب سوالات یہ ہیں کہ کیا یہ روایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدریں خود بخود یا پھروقت اور زمانے کے ساتھ پیدا ہوتی گئیں اور پھر اس کا جزو لاینفک بھی بن گئیں۔
کیا ہماری مروجہ روایات، رواجات، رسومات،سماجی اور اخلاقی قدریں معاشرے کی تعمیراور ترقی میں مثبت کردار ادا کررہی ہیں ۔
ان کاسماج میں موجود جاگیردار اور سرمایہ دار سمیت تمام طبقات کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
یایہ فقط مخصوص طبقہ یا طبقات کی حفاظت کررہی ہیں۔
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا کھوج لگانے سے یہ حقیقت سامنے آسکتی ہے کہ بالآخر نئی ایجادات اور تعلیمی اداروں کی مخالفت کیوں کی گئی اور آج ان میں پہلے والی شدت کیوں نہیں رہی۔
خان خوانین کے پاس زمین اور دولت ہوتی ہے ان کو اپنے پیسے کی چوری کا خدشہ رہتا ہے ایک چور یا ڈکیت گروہ واردات کے ارادے سے کہیں جاتا ہے تو اس کے پاس اسلحہ بھی ہوتا ہے اور مزاحمت پر وہ اس کاا ستعمال بھی کرسکتا ہے ۔چنانچہ پیسہ کے ساتھ ساتھ انہیں جان کا بھی خطرہ رہتا ہے ان ممکنہ خدشات کے تدارک اور پیش بندی کے طور پر چوکیدار اور باڈی گارڈ رکھے ہوتے ہیں چونکہ ان کو اپنے ان ملازموں سے بھی دھڑکا لگارہتا ہے ۔لہٰذا انہیں ایسی سماجی قدروں کی بھی ضرورت رہتی ہے جن سے اس کے جان و مال اور پیسہ کی حفاظت یقینی ہو۔
اسی طرح ایک جاگیردار چاہتا ہے کہ ایک علاقہ طبقاتی بنیادوں پر استوار ہو اور غریب محنت کش نہ صرف یہ کہ اس کے کھیت اور کھلیان پر اپنا خون پیسہ ایک کرکے اس کی کوکھ سے فصل اگاتے ہوں بلکہ اس کو اپنا ان داتا بھی تصور کرتے ہوں
اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے ایسی روایات،رواجات اوررسومات کو سماج میں رواج دیا جن سے ایک جانب ان کے قد وقامت کو بڑھاوا ملا تو ساتھ ہی غریب غرباء بھی اس کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دست نگر رہ گئے شادی بیاہ اور فوتگی کے مواقع پر کھانے کا اہتمام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں مگر یہ شاید کافی نہیں تھیں جاگیردار اس طبقہ کے افراد میں اتفاق و اتحاد سے بھی خوف زدہ رہتا تھا چنانچہ اسی لئے ان کو ان گنت تنازعات میں بھی الجھادیا تھا اب اگر ہم ان روایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدروں کا ناقدانہ جائزہ لینا شروع کردیں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ یہ وقت اور زمانے سے زیادہ جاگیردار طبقہ کی پیداوار ہیں 
جاگیردارانہ نظام میں جاگیردار کے پاس اپنے کھیتوں اور مکانوں کے ساتھ ساتھ ضرورت کی ہر چیز ہوتی ہے چنانچہ اس لئے یہ طبقہ معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی کا روادار نہیں ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ایک جاگیردار اپنے گاؤں کا خود مختار بادشاہ ہوتا ہے اور اپنی اس سلطنت میں وہ کسی کو اپنا شریک کار اور برابر نہیں دیکھنا چاہتا ہے
اس کو دیہہ میں موجودروایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدروں سے ان گنت فوائد حاصل ہوتے ہیں شادی اور فوتگی کے مواقع پر جاگیرداروں اور سرکاری حکام کی آمد سے اس کے تعلقات،طاقت اور اختیارات تو ساتھ ہی مالی و معاشی طاقت سے غریب طبقات میں دہشت بیٹھ جاتی ہے
جب متوسط اور غریب طبقات ان رسومات کو اپناتے ہیں تو ان کی معاشی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ عموماً دست نگر رہنے لگتے ہیں
ان روایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدروں کے پالن پر غریب طبقات میں تضادات اور تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں یہ ان کو جاگیردار کے ہی نہیں بلکہ پولیس اہلکاروں،وکلاء اور ججوں کے بھی محتاج بنا دیتے ہیں اور ان کا شب و روز کی محنت و مشقت سے پیدا کیا ہوا پیسہ ضائع تو ہوتا ہی ہے مگر ساتھ ہی یہ غیر معاشی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہوجاتے ہیں
یہ سماجی قدریں غریب طبقہ کے افراد کو غربت کی چکی سے نکلنے نہیں دیتی ہیں تعلیم کے معاملہ کو ہی لے لیجئے اگر غریب گل کی بیٹی پڑھ لکھ لیتی ہے اور اسے معقول اجرت کی ملازمت ہاتھ لگ جاتی ہے تو اس کنبہ میں پیسہ کمانے والے ایک اور فرد کا اضافہ ہوجاتا ہے چنانچہ گھر اور خاندان پر معاشی بوجھ کم ہوجاتا ہے علاوہ ازیں لڑکی اور علاقہ کو بھی ان گنت فوائد حاصل ہوجاتے ہیں
تعلیم سے لڑکی میں شعور آجاتا ہے وہ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجاتی ہے تو اس میں خود اعتمادی آجاتی ہے گھر بار میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور اسے اب ایک انسان سمجھ لیا جاتا ہے خواتین کے حوالے سے سماج میں پائے جانے والے منفی تصورات ماند پڑنے لگتے ہیں صنفی امتیازات کے خاتمے کے لئے راہ ہموار ہوجاتی ہے جبکہ اس کاباپ بھی رفتہ رفتہ جاگیردار کی دست نگری اور محتاجی سے نکل جاتا ہے غریب خاندان کی بیوی اور بیٹیوں کو صاحب جائیداد خاندانوں کے گھروں میں ان کے جھوٹے برتن صاف کرنے اور گالیاں سننے سے نجات مل جاتی ہے
والدین کو بچی کو اپنے پر بوجھ سمجھ کر کسی بوڑھے کے کھونٹے سے باندھنے کی جلدی نہیں رہتی ہے لڑکی سے اس حوالے سے اس کی رائے پوچھنا ضروری ٹھہرتا ہے تعلیم کے حصول کے بعد ملازمت کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں لہٰذا شوہر اور بیوی کو نارینہ اولاد کے لئے اطباء اور پیروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہتی ہے بلکہ غیر متحرک نصف آبادی متحرک ہونے سے ملک اور قوم کی ترقی کا پہیہ تیز ہوجاتا ہے 
پڑھنے لکھنے سے چیزوں اور واقعات کاباہمی ربط و تعلق سمجھنے میں آنے لگتا ہے جس سے عقل و شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے
جاگیردارانہ نظام کے تحت ایک دیہہ اور گاؤں میں قتل کا ایک واقعہ ہوتا ہے تو مقتول کے ورثاء انتقام لینے کی ٹھان لیتے ہیں اور موقع کی تاک میں رہنے لگتے ہیں اور پھر دشمنیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے ایک گروہ ایک اور دوسرا دوسرے کو غیرت دلاتا رہتا ہے اس کے نتیجہ میں دونوں فریق مالی و معاشی طور پر کمزور ہوکر نہ صرف صاحب جائیداد افراد کے محتاج ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی تمام تر توجہ انتقام پر مرکوز رہتی ہے اور ان کا اپنی معاشی سدھار کی جانب کم ہی دھیان جاتا ہے
ان تنازعات کا فائدہ علاقے کے جاگیردار طبقہ کو پہنچتا ہے اس کا قد و قامت اور کروفر مزید بڑھتا ہے اور کوئی اس کا معاشی اور سماجی حوالے سے ہم پلہ نہیں رہتا ہے پختونخوا میں اگر تنازعات اور دشمنیوں کے ذریعے کھیت مزدور اور دیہہ کے باسیوں کو کمزور کیا جاتا ہے تو پنجاب میں ایک غریب کنبہ ایک بھینس خرید لیتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہ ایک سے دو اور دو سے چار میں تبدیل ہوجاتی ہیں تو چوہدری اپنے کارندوں سے ایک یا دو بھینسیں چوری کروالیتاہے
ملک میں وہ گروہ جو پختون کو ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں کرنا چاہتا ہے اس نے پختونخوا کے قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں بھتہ خوری اوراغواء برائے تاوان کا ایک سلسلہ شروع کردیا چنانچہ کئی امیر کبیر خاندان علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد، پنجاب، کراچی اور دیگرممالک منتقل ہوگئے اسی طرح کوئی تعمیرات یا کاروبار میں ترقی کرتا ہوا ایک سے دو اور دو سے دس کروڑ پر پہنچتا ہے تو اسے اغواء کرکے کروڑوں کا تاوان طلب کیا جاتا ہے نتیجہ میں وہ علاقہ سے جانے کی سوچنے لگتا ہے یا مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے جب ایک علاقہ میں پیسہ نہیں ہوتا ہے تو اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی نہیں کھلتے ہیں زراعت ترقی نہیں کرتی ہے اور کارخانہ نہیں لگتے ہیں چنانچہ وہ علاقہ پس ماندہ رہ جاتا ہے جبکہ یہ سماجی قدریں بھی ایک شہری کو مالی و معاشی طور پر سر اٹھانے نہیں دیتی ہیں
غریب غرباء جانتے ہیں کہ جاگیردار کی تھانے اور کچہری تک رسائی ہوتی ہے اس کے جاننے والوں میں پولیس اور سرکاری محکموں کے اعلیٰ حکام بھی ہوتے ہیں اور ا ن کو مصیبت کی گھڑی میں یہی افراد دست تعاون بڑھاسکتے ہیں اس لئے یہ غریب کاشتکار خان خوانین کے جال میں مزید پھنس جاتے ہیں چونکہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے یہ اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اجاگر کرتی ہے اور اس کے ذریعے غریب دیہاتی جاگیردار کے جال سے نکل سکتا ہے اسی لئے دیہات میں جدید تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام کی بھر پور مخالفت کی گئی اور اس مقصد کے لئے روایات،رواجات اور رسومات کا سہارا لیا گیا
ان جاگیردارانہ روایات، رواجات اور رسومات نے جہاں دیہاتی کو مدت مدید تک دست بگریباں رکھا وہاں اسے معاشی طور پر بھی سر اٹھانے کے قابل نہیں رہنے دیا گیا اگر ان روایات اور سماجی قدروں کو عقل کی کھسوٹی پر پرکھا جاتا اور نئی چیز اور ایجاد کو مسئلہ اور نفع و نقصان کے نقطہ نظر سے دیکھا اور جانچا جاتا تو صورت حال یقیناًمختلف اور بہتر ہوتی
اسی تعلیم کے مسئلہ کو لیجئے اگر اس کو غیرت اور روایات کے منافی گردان کر مخالفت کی بجائے یہ دیکھا جاتا کہ یہ ایک نیا مسئلہ ہے اور بعض افراد حامی اور کچھ مخالفت پر کمر بستہ ہیں مگرحقیقت کیا ہے کیا اس سے واقعی نقصان کا اندیشہ ہے یا اس کا ایک کنبہ کو ہی نہیں علاقہ کو بھی فائدہ پہنچتا ہے تو اس موضوع پر بحث مباحثہ کا ایک سلسلہ چل پڑتا مفید اور نقصان دہ پہلو سامنے آجاتے اور ایک فیصلہ کیا جاتا جو یقیناً پسماندہ علاقہ کی فلاح اور بہتری کے لئے ہوتا آج بھی جن دیہات میں تعلیم اور نئی ایجادات کو روایات،رواجات،رسومات اور مروجہ سماجی قدروں میں تولا اور ماپا جاتا ہے اور دیہی باشندوں کی سوچ و فکر کاروباری نہیں ہے وہاں معمولی واقعات پر تنازعات چل رہے ہیں اور وہ باقی گاؤں اور دیہات سے ترقی کی دوڑ میں کوسوں پیچھے ہیں
پشتون معاشرے میں ان تنازعات کو بڑھاوا اور جاری رکھنے کے لئے کاروباری ذہنیت کو ہمیشہ برا تصور کیا گیا اور اس کا اظہار معمولات زندگی میں کیا جاتا رہا چنانچہ ایک جانب بزنس کو پیشہ پیغمبری کہا جاتا ہے اور دوسری جانب ہندو کو بنیاء کہہ کر اسے گٹھیا درجہ دیا جاتا ہے اسی طرح سنار کے بارے میں مشہور کیا گیا ہے
’’
زرگر لہ مور ھم غلا کوی ‘‘
صراف تو ماں سے بھی چوری کرتا ہے
اسی طرح تعلیم کے حوالے سے یہ حدیث نبویؐ پیش کی جاتی ہے
’’
تعلیم کا حصول مرد اور عورت دونوں پر فرض کیا گیا ہے‘‘
اور ساتھ ہی کہا جاتا ہے
’’
خزے لہ پارہ کور یا گور دے‘‘
عورت کومرتے دم تک گھر کی چار دیواری میں رکھنا ہی مناسب ہے
بزنس مین کے حوالے سے یہ لطیفہ بھی زبان زد عام ہے
ایک تاجر سے اس کے مرنے کے بعد فرشتوں نے پوچھا:’’ تمہارے گناہ اور ثواب مساوی ہیں لہٰذا اب تم بتاؤ کہ کدھر جانا مانگتے ہو؟‘‘
دکاندار نے جواب دیا:’’جہاں دو پیسہ کا منافع ہو‘‘
یہ درست ہے کہ کاروباری ذہنیت کا حامل انسان اشیاء سمیت رشتوں اور روابط کو بھی نفع و نقصان کے ترازو میں تولتا ہے وہ بھکاری کو خیرات میں دس روپیہ کا نوٹ دس انسانوں کی موجودگی میں ہی دیتا ہے یتیموں، بیواؤں اور معذوروں کی امداد کرتے کرتے فلاحی ٹرسٹ بنا لیتا ہے مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ہے تو نقشے میں دکانوں اور اپنے مکان کو پہلے لے آتا ہے فری میڈیکل کیمپ، یتیم بچیوں کی اجتماعی شادی اور معذوروں کو وہیل چیئر کی فراہمی کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد ہوتا ہے تواس کی خبریں اور تصویریں اخبارات اور میڈیا میں نمایاں جگہ پر لگانے کی سعی کرتا ہے جس سے ٹرسٹ کی شہرت دیہہ اور گاؤں سے باہر پہنچتی ہے تو چندہ دوچند ہوجاتا ہے
گورنر یا وزیر کو تقریب پر بلاتا ہے جوکہ اپنے خطاب یا بعد ازاں فنڈ دینے کا وعدہ کرتا ہے
ملک میں ہزاروں فلاحی ٹرسٹ کی موجودگی کے باوجود غریب غرباء کی تعدا د گھٹتی نہیں بڑھتی ہی جارہی ہے 
بلاشبہ کاروباری ذہنیت کے منفی پہلوؤں سے اغماض نہیں برتا جاسکتا ہے سب سے برا پہلو تو یہ ہے کہ اس میں اشیاء ہی نہیں ہر رشتہ کو بھی اسی پیمانے سے تولا جاتا ہے یہ ذہنیت ایک وقت آتا ہے کہ اس سطح پر پہنچ جاتی ہے
کہ سخت گرمی ہے جھلسا دینے والی دھوپ ہے اور اس میں وہ دیر سے کھڑا ہے ایک بندہ خدا کو اس کی حالت رحم آتا ہے وہ تھوڑا سا سرک کر اسے سائے میں کھڑے ہونے کی دعوت دیتا ہے تو اسے بھی جواب میں کہتا ہے:
’’
بھلا کیا دو گے؟‘‘
مگر اس کے روشن اور مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کے بھی ان گنت نقصانات ہیں آپ ملک کے ترقی یافتہ شہروں کراچی اورلاہور اور پاکستان کی تخلیق کے پس پردہ عوامل کا جائزہ لینا شروع کریں تو یہی ذہنیت کارفرما نظر آئے گی حتیٰ کہ یہی ذہنیت نئی نئی ایجادات اپنانے پر آمادہ بھی رکھتی ہے اور ترقی کا دروازہ بھی کھولتی ہے
دیہات اور دیہی باشندے فرسودہ روایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدروں کو کاروباری اور تاجرانہ ذہنیت اور نقطہ نظر سے دیکھتے تو وہ ترقی کی دوڑ میں شہروں سے پیچھے نہیں رہ جاتے
حقیقت یہ ہے کہ ایک کھیت مزدور اور دیہی باشندہ سمیت جو بھی ہو وہ نفع و نقصان کا کاروباری انداز اور سوچ اپناتا ہے تو پھر دیہہ کے خان خوانین، وڈیروں اور پیر وں اور شہروں کے مداری، چالاک اور ہوشیار افراد کے لئے ان کو بے وقوف بنانا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا آسان نہیں رہتا ہے
ایک مسافر لاہور سے پشاور کی بس میں بیٹھ گیا ہے راستے میں ساتھ بیٹھے مسافر سے گپ شپ لگاتا ہے اس دوران سٹاپ آجاتا ہے وہ مسافر دو جوس ہاتھ میں لئے داخل ہوتا ہے ایک خود پیتا اور دوسرا ساتھی مسافر کو دیتا ہے اگر اس مسافر کی ذہنیت کاروباری ہے تو دس بار سوچتا ہے
’’
دوست تو بن گیا ہے جوس بھی لے آیا ہے
مگرکیوں۔۔۔۔؟‘‘
وہ اگر مگر نہیں سوچتا ہے تو اس کے ہاتھ میں قیمتی موبائل، ہاتھ پر ریسٹ واچ اور جیب میں بارہ ہزار آٹھ سو روپے سے محروم ہونے کے امکانات موجود رہتے ہیں

Comments are closed.