برسلز میں یورپی یونین کا ناکام اجلاس

جرمنی کی ڈائری : عرفان احمد خان۔ فرینکفرٹ

1354278096


میں نے پچھلے کالم میں بلقان ممالک کے سیکیورٹی حکام کی ایک اہم میٹنگ کا ذکر کیا تھا جو آسٹریا میں منعقد ہوئی تھی۔ آسٹریا اس کانفرنس کا میزبان بنا تھااور اس نے بلقان کے دس ممالک کو مدعو کیا تھا لیکن یونان کو اس کانفرنس سے باہر رکھاگیا۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے یونان نے آسٹریا سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ حال ہی میں برسلز میں ہونے والی وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھی یونان کے وزیر داخلہ شدیدغصہ کا اظہار کیا ہے۔

یونان کا موقف ہے کہ مہاجرین ترکی سے یونان تک کا سفر بوٹ میں کرتے ہیں اور یونان بے حال مہاجرین کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ا ن کو مزید سفر کرنے کے قابل بناتا ہے ۔ یونان سے مہاجرین کو بذریعہ سڑک یورپ کی طرف سفر شروع ہوتا ہے ۔ بلقان ممالک نے مقدونیہ سے لے کر آسٹریا تک کے فیصلے کر لیے اور ہمیں باہر رکھ کر ہماری اب تک کی خدمات کی نفی کی گئی ہے۔ اگر سب نے اپنے اپنے فیصلے کرنے ہیں تو یورپی یونین کی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔ یونان کے ساحلوں پر اترنے والوں کے مستقبل کا فیصلہ پھر ہم خود کریں گے ۔ ہم لبنان سے بذریعہ ترکی یونان آنے والوں کو واپس ترکی بھجوا دیں گے۔

مہاجرین کے حوالے سے جمعرات کے روز دو اہم فیصلے ہوئے ۔ ایک تو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کا اہم اجلاس تھا جس میں اب تک کی صورت حال اور مہاجرین کی آباد کاری میں مشکلات کا جائزہ لیا گیا۔ کوٹہ پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ مزید تین ملین مہاجرین کو یورپ لانے کے معاملے پر یورپی یونین بری طرح تقسیم ہے ۔ جو آچکے ہیں ان کی تعداد میں کمی کرنے پر زور دیا جارہا ہے ۔ اس کا واحد ذریعہ ڈی پورٹیشن ہے۔ جس پر یورپ کے بیشتر ممالک زور دے رہے ہیں ہیں ۔ لکسمبرگ کے وزیر داخلہ نے بہت سخت تقریر کی انہوں نے کہا کہ مہاجرین کے مسائل یورپ کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گے۔ہم نے ایک سال گزار دیا اور ایک کامن لائن اختیار نہیں کر سکے ۔ 

یورپین یونین کے کمشنر برائے مہاجرین نے سات مارچ کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ مہاجرین کی تعداد کم کی جائے نہیں تو پورا سسٹم فیل ہو جائے گا۔ جرمن وزیر داخلہ نے یورپی یونین کو حوصلہ دیا کہ معروضی حالات اور جنگ سے متاثرہ علاقوں سے انسانوں کی نقل مکانی پر گھبرانا نہیں چاہیے ۔یورپی یونین ان تین ملین سے خوف زدہ ہے جو ترکی اور لبنان میں عارضی پناہ گزین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جرمنی نے ترکی کو تین بلین یورو اسی غرض سے دیئے ہیں کہ وہ جب تک یورپ پہنچ جانے والے مہاجرین کی آباد کاری ہماری گرفت میں نہیں آجاتی وہ ان مہاجرین کو ترکی میں رکھے گا۔ جرمن وزیر کی تقریر سے اشارہ ملتا ہے کہ جرمنی 2020 تک ہر سال پانچ لاکھ مہاجرین کو قبول کرے گا یعنی آئندہ چار سال میں جرمنی 3.6 ملین مہاجرآباد ہو ں گے۔

جمعرات کے روز ہی جرمن نیشنل اسمبلی نے آسائلم سیکرز کے لیے نئے پیکج کی منظوری دی ہے۔ اس کے حق میں 429 ووٹ جبکہ مخالفت میں 147ووٹ ڈالے گئے ۔ اس کے مطابق آسائلم کیسز کو فوری طور پر نبٹایا جائے گا۔ جن کے کیس منظور نہ ہوں ان کی ڈیپوٹیشن کا انتظام موجود ہو۔ پورے ملک میں پناہ گزینوں کے سپیشل سنٹر بنائے جائیں گے جہاں تین ہفتہ رکھ کر ان کی رجسٹریشن ، میڈیکل چیک اپ ، فنگر پرنٹ وغیرہ وغیرہ مکمل کیے جائیں گے ۔ محفوظ ممالک کے لوگوں کے سنٹر علیحدہ ہوں گے۔ آسائلم منظور ہونے کی صورت میں فیملی بلانے کی اجازت ہو گی۔ نوعمر بچے بھی دوسال بعد والدین کو بلا سکیں گے۔ یہ قانون جمعہ کی صبح سینٹ سے بھی منظور ہو گیا ہے۔

جرمن حکومت نے محفوظ ممالک کی جو فہرست جاری کی ہے۔ ان ممالک کے باشندوں کو ان کے ممالک بھجوانے کاکام جاری ہے۔ بدھ کے روز 125 افغان باشندوں کو لے کر سپیشل طیارہ کابل ائیر پورٹ پر پہنچا تو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ آواز بھرائی ہوئی تھی اور اکثریت نے سجدہ ریز ہو کر اپنے وطن کی مٹی کو چوما۔ ان کے استقبال کے لیے افغان حکومت کے افسران موجود تھے جنہوں نے بتایا کہ جرمنی میں ڈیڑھ لاکھ افغانوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ مزید ایک لاکھ افغانی دنیا کے 43 ممالک میں سیاسی پناہ کے لیے بیٹھے ہیں ۔ جرمن حکومت نے واپس جانے والے ہر افغانی کو 700 یورو دیئے۔

کابل سے گھر جانے کا خرچہ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین ادا کر ے گی۔ ایک ہزار مزید افغانی ان چند دنوں میں جرمنی سے کابل روانہ ہوں گے ۔ جن کی ملازمت اورروزگار کے لیے آئی ایم ایف نے افغانستان میں پروگرام شروع کیے ہیں۔

جرمن حکومت ڈیڑھ لاکھ افغانیوں سے گھبرا گئی ہے جبکہ پاکستان میں رجسٹرڈ افغانیوں کی تعداد 1.5 ملین اور غیر رجسٹرڈ ایک ملین ہیں۔ نقل مکانی کا انسانی سانحہ اب زندگی کا مستقل موضوع بن چکا ہے۔

Comments are closed.