بھارت اورافغانستان اسٹریٹیجک پارٹنر شپ منظور

0,,19015919_303,00 (1)

افغانستان کے چیف ایگزیکیوٹیوآفیسراور وزارتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ ان دنوں بھارت کے پانچ روزہ دورہ پر ہیں۔ انہوں نے آج پیر کو وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقاتیں کیں۔

دونوں رہنما وں سے ڈاکٹر عبداللہ کی الگ الگ ملاقاتوں کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے کئی ٹوئٹ پیغام بھیجے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ڈاکٹر عبداللہ کی موجودگی میں دونوں ملکوں نے ایک معاہدہ پر دستخط کیے ہیں جس کی رو سے دونوں ملکوں کے سفارت کار اب ایک دوسرے کے یہاں ویزا کے بغیر سفر کرسکیں گے۔ سوروپ نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ سشما سوراج نے افغان عوام کے فائدے کے لئے اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو منظوری دے دی۔

اس سا ل کے اوائل میں بھارتی پنجاب میں فضائیہ کے پٹھان کوٹ ایئربیس اور افغانستان میں مزار شریف میں بھارتی قونصل خانہ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت اور افغانستان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔ بھارتی سکیورٹی افسران کا خیال ہے کہ دونوں حملوں میں کافی مماثلت ہے اور دونوں کے تانے بانے آپس میں ملتے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ دونوں حملے بھارت کی جانب سے افغانستان کو چار ایم آئی 35 گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے اعلان کے ایک ہفتے کے اندر ہی ہوئے تھے۔ ان میں سے تین ہیلی کاپٹرافغان ایئر فورس کو فراہم کردئے گئے ہیں۔ افغان فضائیہ کو بھارت کی طرف سے ان گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کو افغان سکیورٹی فورسز کی فضائی قوت میں اضافہ کرنے کے حوالے سے کافی اہم قدم سمجھا جارہا ہے کیوں کہ ملک میں سکیورٹی کی بگڑی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اسے ایسی فضائی طاقت کی اشد ضرورت ہے۔


مقامی ذرائع کے مطابق ڈاکٹرعبداللہ اور بھارتی رہنماؤں نے پٹھان کوٹ اور مزارشریف پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں،ان کے مضمرات اور سکیورٹی کی تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیا۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور اس ماہ ہونے والے چار ملکی طالبان مذاکرات کے آخری مرحلے کے سلسلے میں بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان میں موجودگی اسٹریٹیجک اعتبار سے بھارت کے لئے کافی اہم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 2001ء میں طالبان اقتدا ر کے خاتمہ کے بعد سے ہی بھارت افغانستان کی تعمیر نو میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ 2002ء کے بعد سے بھارت نے افغانستان کی سماجی اور اقتصادی تعمیر نو کے لئے دو بلین ڈالر کی مدد دی ہے۔ آج بھی وزیر خارجہ سشما سوراج اور ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان ملاقات کے بعد بھارت نے افغانستان میں 92 چھوٹے ترقیاتی پروجیکٹوں کے تیسرے مرحلے کی منظوری دے دی۔

دفاعی تجزیہ نگار اور معروف جریدہ’ دی ڈپلومیٹ ‘کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر انکت پانڈا کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں پیش آنے والے کئی واقعات کے بعد بھارت اورافغانستان کے باہمی تعلقات میں ایک بڑی اور نمایاں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان پر سے افغانستان کا اعتماد کمزور ہوتا نظر جا رہا ہے جبکہ بھارت کی طرف اس کا جھکاؤ بڑھ رہا ہے۔

اس کی ایک وجہ وزیراعظم نریندر مودی حکومت کی افغان پالیسی بھی ہے۔ مودی بھارت کی افغان پالیسی کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت والی سابقہ متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کی پالیسی سے بھی زیادہ آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے افغانستان آرمی اور سکیورٹی فورسز کی مدد اور تربیت دینے کی منظوری تو دی تھی لیکن وہ مہلک ہتھیار فراہم کرنے کے لئے راضی نہیں ہوئی تھی۔

انکت پانڈا کا مزید کہنا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان غالباً پہلی مرتبہ اور مودی اور اشرف غنی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تو یقیناً پہلی بار یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ وسیع تر اسٹریٹیجک اور ملٹری تعاون کے دروازے کھل گئے ہیں اور بھارت بلاشبہ افغانستان کی سلامتی کو یقینی بنانے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ بھارت اور افغانستان، پاکستان کے ساتھ اپنے اپنے باہمی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے اسے کس طرح اور کتنا آگے لے جاسکیں گے۔


خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ کرسمس کے دن کابل گئے تھے اور انہوں نے افغان پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لئے مودی اچانک لاہور پہنچ گئے تھے۔

ڈاکٹر عبداللہ کے اس دورے کے دوران بھارت کے شہر جے پور میں منگل سے شروع ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔ کانفرنس کا انعقاد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ تھنک ٹینک انڈیا فاونڈیشن اور پارٹی کے جنرل سکریٹری شوریہ ڈوبھال نے کیا ہے ، جو بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے بیٹے ہیں۔

اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا افتتاح صدر پرنب مکھرجی کریں گے جب کہ وزیر داخلہ اور وزیر دفاع سمیت کئی مرکزی وزراء بھی اس میں شرکت کررہے ہیں۔

DW

Comments are closed.