ایران عرب تناؤکے بلو چستان پر ممکنہ اثرات

میراث زِروانی

saudi-iran-conflict
کیا دنیا ایسے تضادات کی دلدل میں پھنس چکی ہے جس سے نکلنے کا کو ئی راستہ اور تد بیر نظر نہیں آ تی؟یہ اوراس طر ح کے دیگر مخدوش مستقبل کے حوالے سے جنم لینے والے وہ سوالات ہیں جو ہمہ گیر سطح پر سا منے آرہے ہیں ،ان سوالات کی باز گشت اگر چہ اکسویں صدی کے آ غاز میں اس وقت سے سنی جارہی ہے جب سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سامرا جی طاقتوں کے درمیان مفاداتی ٹکراؤ ایک جنگی صورت میں ڈھلنا شروع ہوا۔

مگر مشرق وسطیٰ سمیت مغر بی ایشیاو شمالی افریقہ میں مختلف عالمی طاقتوں کی اپنے مقا می حواریوں کے ہمراہ پراکسی جنگوں میں جو شدت آ رہی ہے اور علاقا ئی و عالمی طاقتوں کے ما بین تنازعات حل ہو نے کی راہ پر گامزن ہو نے کی بجائے نت نئی پیچید گیاں اور معاشروں کی توڑ پھوڑ کر نے والے نتائج مر تب کر رہے ہیں۔ ایسے میں مذکو رہ با لا سوالات آج زیادہ تشویش میں ڈوبے ہو ئے نظر آ تے ہیں ،جن پر عرب ایران ٹکراؤ نے مزید خوف کے سائے پھیلا دیئے ہیں ۔عرب فارس ٹکراؤ جسے عرب و عجم تنا زعہ بھی قرار دیا جا رہا ہے کا حالیہ ابھار بظا ہر سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم اور سیاسی رہنما شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دینے کا نتیجہ ہے۔

شیخ نمر اُن پھا نسی پانے والے 47، افراد میں شا مل تھے جن پر دہشت گردی اور دیگر الزا مات عائد تھے ، اگر چہ اتنی بڑی تعداد میں پھا نسیوں کا اقدام بحیثیت مجمو عی انسا نی حقوق کے تقا ضوں کے منا فی تھا ،لیکن اس پورے اقدام کیخلاف غیر فر قہ وارا نہ رد عمل کی بجا ئے ایران اور اس کے مسلکی پیروکار وں نے محض شیخ باقر النمر کی پھا نسی پر شدید احتجا جی رد عمل کا مظا ہرہ کر کے تنا زعہ کو فر قہ وارا نہ رنگ میں بدل دیا ہے ، جس سے سعودی عرب میں سزائے موت سمیت سیاسی مخالفین اور جمہوری آزادی کے خواہشمند وں کو مختلف ایذارساں سزائیں دینے والے وہ اقدامات جو انسا نی حقوق کی سراسر پا ما لی ہیں کا سوال دب کر رہ گیا ہے۔

سعودی عرب کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ شیخ نمر سمیت سزائے موت پانے والے تمام 47، افراد کیخلاف شفاف عدالتی کارروائی عمل میں لائی گئی جس میں مذ ہبی و فر قہ وارا نہ تعصب کا کو ئی عمل دخل نہیں ہے ،لیکن سعودی دعوؤں کو بھی مبصرین و انسا نی حقوق کے داعی حلقے پورا سچ ما ننے سے انکا ری ہیں۔ان حلقوں کے مطا بق صرف شیخ نمر ہی نہیں بلکہ اب تک دی گئی سزا ئے موت سمیت مختلف بے رحما نہ و غیر انسا نی ایذا رساں سزاؤں ،میں آمرا نہ اور انصاف کے تسلیم شدہ تقا ضوں کے منا فی قوا نین کا استعمال عمل میں لایا گیا ہے،

اور سعودی عرب کا عدالتی نظام شہنشاہیت اور شخصی آمریت کے غیر جمہوری تھیو کر ٹیک آئین و قا نون میں جکڑا ہوا ہے ،جسے کسی طور آزاداور غیر جانبدار خیال نہیں کیا جاتا ، آمرا نہ قوانین پر مذ ہبی و فر قہ وارا نہ رنگ چڑھا کر انہیں ایک ایسی مقدس حیثیت دے دی گئی ہے کہ جس کے خلاف لب کشائی قابل گردن زنی جرم قرار پایا ہے ۔ شیخ نمر کیخلاف سزائے موت کا اقدام بھی انہی آمرا نہ قوانین کے تحت عمل میں لایا گیا ہے، حالا نکہ وہ مسلح جدو جہد کی بجائے جمہوری اور پر امن طور پر اپنے مسلک سے تعلق رکھنے والی آ بادی کے مذ ہبی و سیاسی حقوق کیلئے آواز بلند کر رہے تھے ۔

شیخ نمر کا تعلق سعودی عرب کے مشرقی شیعہ آباد ی والے صوبے قطیف سے تھا ،وہ1959ء میں عوا میہ میں پیدا ہوئے اور تقریباً دس سال تک ایران میں مقیم رہتے ہو ئے مسلکی و دیگر علوم کی تعلیم حاصل کرتے رہے اور یہاں علمی سر گر میوں میں مصروف رہے ،اس کے علا وہ انہوں نے شام میں بھی کچھ وقت گزارا ،شیخ نمر جب واپس وطن لو ٹے تو انہوں نے شیعہ آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک اور سعودی حکمرانوں کے آمرا نہ اقدامات کیخلاف با قا عدہ سیاسی جدو جہد کا آ غا ز کر دیا ، ان کی سیاسی جدوجہد اور مطالبا ت کا دائرہ سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی آبادی والے مشر قی صوبوں کے سیاسی ، مذ ہبی و جمہوری حقوق تک محدود رہا ،بعض لو گوں کے مطا بق شیخ نمر شیعہ آبادی والے مشر قی صوبوں کی سعودی عرب سے علیحد گی کے بھی خواہشمند تھے ۔

ان کے سیاسی متحرک کردار نے مشر قی علاقوں میں باغیا نہ رحجا نات کی آبیاری کی اور یہاں کا معاشرہ مسلسل بے چینی اور سعودی حکمرانوں سے کشمکش کا شکار رہا ، مشرقی علاقوں میں بڑھتی ہو ئی کشید گی سے سعودی ارباب اقتدار کی صفوں میں تشویش اور خوف کا پھیلنا نا گزیر تھا ،کیو نکہ شیعہ اکثریتی آبادی والے مشر قی علاقے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور یمن کے ساتھ طویل سر حد کے باعث انتہائی اہم جغرافیائی واسٹریٹجک حیثیت رکھتے ہیں ،جبکہ سعودی عرب کیلئے سب سے زیادہ خائف کرنے والا خدشہ ان صوبوں میں علیحدگی کی تحریک کے ابھارکا ہے ، اس کے علاوہ یہاں کی آبادی کے ذریعے ایران اپنا معاشرتی و سیاسی اثر رسوخ بڑھا رہا ہے ، جس سے سعودی عرب میں داخلی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔

کیونکہ عرب ہونے کے باوجود یہاں کے باشندوں میں سعودی حکمرانوں پر عدم اعتمادی اور ایران کے ساتھ گہری ہمدردی پائی جاتی ہے، اور وہ اپنے مفادات کا تحفظ ایران کی خطے پر بالادستی میں دیکھتے ہیں ، جبکہ عرب خصوصاً حکمران طبقات خود کو تہذیبی وقومی لحاظ سے ایران یا فارس یا پھر عجم سے اعلیٰ و برتر خیال کرتے ہیں ،کمتری و بر تری کے یہ تصورات حالیہ کشمکش یا گذشتہ چند دہائیوں اور صدیوں سے نہیں بلکہ ہزاروں سالہ تاریخ کے حامل بیان کئے جاتے ہیں ،۔

عربوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ’’عربی‘‘کو ہی زبان اور باقی دیگر زبانیں بولنے والوں کو بے زبان یا گونگا قرار دیتے ہیں، اسی ناطے انہیں عجمی یا گونگوں کا نام دیا گیا ، جس کا زیادہ تر استعمال ایرانی یا فارسی تہذیب و زبان کیلئے عمل میں لایا گیا، لیکن ایرانیوں کو عرب تصورات و تعصبات سے ماورا اپنی قدیم اعلیٰ ترین تہذیب و تمدن اور زبان پر ناز رہا ہے، اور انہوں نے خود کو عرب و دیگر تہذیبوں سے بر تر خیال کیا ہے، جس کے باعث وہ عرب تہذیب و سیاست کے زیر اثر آنے اور اس کی بر تری کو قبول کرنے کی بجائے اپنی تہذیب ،زبان وثقافت اور سیاسی نظریات کو عرب وعجم سمیت پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے سرگرم رہے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے کہ طاقتور ریاستی مرکز کے بغیر مطلوبہ مقاصد بہتر اور پائیدار طور پر حاصل نہیں ہوسکتے ۔ایران نے بحیثیت علاقائی طاقت ان تقاضوں کو پورا کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے، جس میں ایرانی انقلاب کے بعد زیادہ وسعت اور تیزی پیدا ہوئی ہے،اور جس طرح عرب اسلام کو بھی اپنی تہذیب وثقافت کا حصہ سمجھتے ہوئے دونوں میں تفریق نہیں سمجھتے اسی طرح ایران بھی شیعہ مسلکی نظریات وعقائد اور اپنی تاریخی تہذیب وتمدن کو باہم مربوط اور ضم کر چکے ہیں ، اور یوں ایران اپنے مسلکی نظریات وعقائد کے پھیلاؤ کے ذریعے اپنا تہذیبی ولسانی اور سیاسی اثر رسوخ بھی بڑھا رہا ہے۔

ایسا ہی کردار عرب حکمرانوں کا بھی بیان کیا جا تا ہے، جو آخری تجزیے میں ایرانی اور عرب ریاستوں کے مفادات کا ترجمان اور آئینہ دار بن کر رہ گیا ہے، اور ریاستوں کا مفاد بالادست اقتدار ومالیاتی سرمائے کے مالک حکمران طبقات کے ذاتی و گروہی مفادات میں ڈھل گیا ہے، جہاں مسلکی نظریات کو قومی ومذہبی مفاد کے نام پر اپنے مخصوص ذاتی وبالادست طبقاتی مفادات کے حصول اور آمرانہ حکمرانی کے تحفظ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس تناظر میں اگر ایران کے داخلی حالات پر نگاہ ڈالی جائے تو عرب ریاستوں کی طرح یہاں بھی رجعت پسندانہ سخت گیر فرقہ وارانہ وغیر جمہوری اور قومی وطبقاتی جبر پر قائم سیاسی ومعاشی نظام ہے، جس میں ایک مخصوص شیعہ فرقے اور گجر قوم کی معاشی ،سیاسی اور سماجی بالا د ستی اور حکمرانی کو مضبوط بنایا گیا ہے، جبکہ یہاں کی سنی مسلک اور مختلف اقوام بلوچ ، کرد، لر اور عربوں کے ساتھ غیر مساوی وغیر جمہوری امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ اس فرقہ وارانہ اور قومی جبرو استحصال کیخلاف نہ تو کسی کو آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے اور نہ ہی کوئی پر امن جمہوری طریقے سے سیاسی جدوجہد کا حق رکھتا ہے، جو بھی مذہبی ،قومی اور طبقاتی استحصال کیخلاف آواز بلند کرتا ہے، تو اُسے ویسے ہی بد ترین ریاستی جبرو تشدد اور پھانسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے سعودی عرب میں دیکھنے کو ملتا ہے، جس کی عکاسی ایران میں آئے روز پھانسیوں اور ایزارساں بد ترین سزاؤں کے بڑھتے ہوئے واقعات میں دیکھی جا سکتی ہے۔

ان سزاؤں کا نشانہ دیگر محکوم اقوام کی طرح ایران کے زیر کنٹرول بلوچ قوم کو شروع دن سے ہی بنایا جا رہا ہے ،بلوچ قوم کو نہ صرف قومی بلکہ سنی مسلک سے تعلق کے باعث مذہبی وفرقہ وارانہ تعصبات و حقارت کاسامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کے خلاف یہاں بلوچ قوم کی طرف سے مختلف صورتوں میں سیاسی جد و جہد اور مسلح مزاحمت بھی کی گئی ہے، مسلح مزاحمت کا راستہ جدوجہد کے جمہوری و پر امن ذرائع پر ریاستی بندش کا فطری ردعمل تھا ، کیونکہ سیاسی و معاشی حقوق کجا یہاں بلوچ زبان و ثقافت اور فن وادب کی حامل سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں ہے ، جس کسی نے بھی اپنی قومی شناخت اور زبان وثقافت کے تحفظ اور پھیلاؤ کیلئے کوشش کی اُسے قید وبند سمیت بد ترین ریاستی تشددکا نشانہ اور تختہ دار پر چڑھایا گیا ۔

بلوچ قوم کے ساتھ روا رکھے جانے والے نو آبادیاتی و جابرانہ فکرو عمل کی مثالیں دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، جن میں نو جوانوں سمیت ہرعمر کے بلو چوں کی پے در پے پھانسیوں کے واقعات قا بل ذکر ہیں ،بعض لو گوں کے مطا بق عبدالمالک ریکی کو دی گئی پھا نسی بھی دیگر بلو چوں کو دی جا نے والی پھانسیوں اور سزاؤں کی طرح انصاف او ر انسا نی حقوق کے تقا ضوں کے مطا بق کھلی عدالتی کارروائی کے ذریعے نہیں دی گئی تھی ،یہی کچھ سعودی عرب نے شیخ نمر کے ساتھ بھی کیا ۔

جس طرح ایران اپنے بنیاد پرست رجعت پسندا نہ مذ ہبی ،قو می و طبقا تی جبر پر استوار غیر جمہوری آمرا نہ آ ئین و قانون اور طرز حکمرا نی کی خلاف ورزی کر نے والوں کو ملک دشمن و غدار تصور کرتا ہے اور انہیں سزائے موت کا حقدار قرار دیتا ہے ،اسی طرح سعودی عرب بھی غداری و محب وطنی کو اسی پیما نے پر پررکھتا ہے جو پیما نہ ایران نے تھام رکھا ہے ،اور صرف ایران و سعودی عرب ہی نہیں بلکہ نو آبادیا تی مقا صد کی حامل قو می و طبقا تی جبر پر استوار ہر سہ مایہ دارا نہ ریاست غداری و محب وطنی کے یکساں باہم مشا بہہ پیما نے رکھتی ہے ،چا ہے وہ اعلیٰ تہذیب و اقدار اور جمہوری و روشن خیال انسا نی حقوق کے دعویدار امریکی و یورپی ریاستیں ہوں ،لہٰذا شیخ نمر کی سزائے مو ت پر ایرا نی رد عمل محض سعودی عرب میں انسا نی حقوق کی پا ما لی کے پس منظر کا حا مل نہیں تھا ،بلکہ یہ دونوں ریاستوں کے درمیان جاری ٹکراؤ میں آ نے والی شدت کا نتیجہ تھا ،جس نے ٹکراؤ اور تناؤ کو براہ راست تصادم کے دہا نے پر لا کھڑا کیا ہے۔

کہا جا تا ہے کہ ایران میں سعودی سفارتخا نے کو شیخ نمر کی سزائے موت کے رد عمل میں نذر آتش کر نے کا واقعہ محض مشتعل ہجوم کا خودرو اقدام نہیں تھا بلکہ اس کے پس پردہ ایرانی حکام خاص طور پر سخت گیر مقتدرہ حلقوں کی رہنمائی و کردار بھی شا مل ہے ،تاہم صدر رو حا نی اور دیگر حکو متی عہدیداران نے سعودی سفارتخانے کو نذر آ تش کر نے کی مذ مت کرتے ہوئے ذمہ داران کیخلاف کارروائی اور سعودی سمیت تمام سفارتی املاک و شخصیات کو مکمل تحفظ فراہم کر نے کا عزم ظاہر کیا ہے ،لیکن سفارتخانے پر حملے پر سعودی عرب آگ بگو لہ ہو گیا اوراس نے فوری طور پر ایران سے سفارتی و تجارتی اور فضائی تعلقات ختم کر نے کا اعلان کر دیا ،جس کی تقلید میں کویت ،قطر ،اور بحرین نے بھی ایران سے تعلقات منقطع اور عرب امارات نے محدود کر دیئے ہیں ۔

جبکہ عرب لیگ اور خلیج تعاون کو نسل نے سعودی سفارتخا نے پر حملے کی سخت مذ مت کرتے ہوئے سعودی عرب کی بھر پور حمایت و تعاون کا اعلان کیا ،اس کے علاوہ سعودی عرب کی جا نب سے سنی مسلم ممالک کے 34رکنی اتحاد کو بھی ایران کیخلاف عرب محاذ میں شا مل کر نے کی کو شش کی جا رہی ہے، اس سلسلے میں سعودی حکمرانوں کا پاکستان پر سب سے زیادہ دباؤ نظر آتا ہے ، جس کا اظہار ایران سے حالیہ تناؤ کے ابھار کے بعد سعودی وزیر خار جہ اور وزیر دفاع سمیت اعلیٰ ترین حکو متی شخصیات کے پے در پے پاکستا نی دوروں میں دکھائی دیا۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطا بق سعودی حکام کے ان دوروں کے دوران ایران سے جنگ کی صورت میں پاکستا نی فو جی امداد و عملی شمو لیت بات چیت کا مرکزی نکتہ رہی ،جس میں پاکستا نی حکام کی طرف سے سعودی عرب کی سلامتی کو پہنچنے والے نقصان کی صورت میں بھر پور عملی حمایت کی یقین دھا نی کرائی گئی ، اس حوالے سے حکو متی عہدیداران کاکہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی و اسٹریٹجک معاہدات ہیں جن کے تحت پاکستا نی سعودی عرب کی سلامتی کے تحفظ کاپابند ہے ۔لیکن ایران سے جنگ کی صورت میں سعودی اتحاد کا حصہ بن کر جنگ میں حصہ لینے پر پاکستان آمادہ نہیں ہے ،

اس ضمن میں پاکستا نی حکام کا کہنا ہے کہ فریق بننے کی صورت میں پاکستان داخلی طور پر شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات و انتشار کا شکار ہو سکتا ہے ،جبکہ سعودی تعلقات کی انتہائی اہمیت کے باوجود پاکستان کے ایران کے ساتھ بھی گہرے مفادات وابستہ ہیں ،دونوں ممالک باہم طویل سرحدوں کے ملاپ کے علاوہ متعدد اہم ترین سیاسی و اقتصادی اور ایک دوسرے کی سلا متی و جغرافیائی سالمیت کے معاملات پر گہرا اشتراک عمل رکھتے ہیں،خاص طور پر بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک اور اس کے دونوں اطراف کے مشرقی و مغربی بلوچستان پر مرتب ہو نے والے اثرات نے پاکستان اور ایران کو باہمی طور پر مزید قریب کر دیاہے ،جبکہ مشرق وسطیٰ سمیت مغر بی اور جنو بی ایشیاء کی ممکنہ ازسر نوجغرافیائی نقشہ سازی میں پاکستان اور ایران کے بھی متاثر ہو نے کی باز گشت نے علاقا ئی و عالمی صف بندیوں میں دونوں کو ایک جگہ کھڑا ہو نے پر مجبور کر دیا ہے ۔

اس حوالے سے بعض تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے عرب ممالک سے وہ تعلقات قائم نہیں رہ سکیں گے جو ماضی میں ہواکرتے تھے ،کیو نکہ مشرق وسطیٰ سمیت خطے اور دنیا میں جس نوعیت کی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان میں عرب حکمران امریکہ و یو رپ جبکہ پاکستا نی مقتدرہ روس اور چین کی صف میں نظر آتی ہے،اسی صف میں ایران بھی شا مل ہے، اگر چہ ایٹمی معاہدے کے بعد گذشتہ ماہ اقوام متحدہ ،امریکہ اور یورپ کی ایران پر عائد پا بندیاں اٹھا لی گئی ہیں،مگر اس کے با وجود شام سمیت مشرق وسطیٰ میں ایران سے پائے جا نے والے تضادات کے با عث امریکہ نے نہ صرف بعض پابندیوں کو نہیں اٹھا یا بلکہ خلیج میں امریکی جہازوں کے قریب بلاسٹک میزائل کا تجر بہ کر نے کی پا داش میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کردی ہیں ۔جس سے ظاہر ہو تا ہے کہ دونوں تاحال حریفا نہ کشمکش سے نہیں نکل سکے ہیں ،

اس کیفیت کے بر قرار رہنے سے ایران عالمی و علاقا ئی حریفا نہ صف بندیوں میں روس اور چین کے اس دامن کو نہیں چھو ڑے گا جو پا کستان نے بھی مضبو طی سے پکڑ رکھا ہے ،یہی وہ محرکات ہیں جو پاکستان کی ایران سے قر بت اور عرب ریاستوں سے دوری پیدا کر رہے ہیں ،کہا جا تا ہے کہ ما ضی میں مشرق وسطیٰ میں عرب اسرائیل تضاد غالب تھا ،جہاں پاکستان عرب مما لک کے ساتھ تھا ،تب سعودی و دیگر عرب ریاستوں کی سلامتی کیلئے صرف اسرائیل کو خطرہ تصور کیا جا تا تھا ۔لہٰذا ایسی صورت میں مسلم ریاستوں کی طرف سے ایک دوسرے کی سلا متی کو خطرات لا حق نہ ہو نے کی و جہ سے پا کستان کیلئے جنگ کے نتیجے میں سعو دی سلا متی کے تحفظ میں کردار ادا کر نے میں کسی پیچید گی کا خد شہ نہیں تھا ،اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اسلا می برادرا نہ بنیادوں پر خطے میں تمام اسلا می مما لک سے قریبی تعلقات پر استوار تھی جس میں ایران بھی شا مل تھا ۔

لیکن اب عرب ریاستوں کی سلا متی کا سوال اسرائیلی خطرے سے نہیں بلکہ ایک مسلم ایرا نی ریا ست کے خطرے سے پیدا ہوا ہے،جس سے پاکستا نی خارجہ پالیسی کا مشکلات سے دوچارہو نا لاز می ہے ،پاکستان نہ تو عرب اتحادیوں کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی ایران سے بگاڑ مول لے سکتا ہے ،ایسی ہی مشکل صورتحال ایران عراق جنگ کے مو قع پر بھی پیدا ہو ئی تھی تب جنرل ضیاء نے عرب وعجم کے درمیان فریق بننے کی بجائے ثالث بننے کا کردار ادا کیا تھا ،یہی راستہ مو جو دہ پاکستا نی حکمرانوں نے بھی اختیار کر نے کا فیصلہ کیاہے ، جس کے تحت وزیر اعظم اور آر می چیف سعودی عرب اور ایران کے دورے پر روانہ ہوئے ،جہاں انہوں نے دونوں اطراف کے حکمرانوں پر تمام متنازعہ معاملات مذاکرات اور پر امن ذرائع سے حل کر نے پر زور دیا ۔

لیکن پاکستا نی حکو متی دعوؤں کے با وجود تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستا نی قیادت ایسا اثر رسو خ نہیں رکھتی کہ جس سے وہ دونوں حریفوں کو باہم قریب لا سکے ،کم از کم عرب حکمران یمن جنگ میں شا مل نہ ہو نے پر پاکستان سے جس قدر نالاں اور بد اعتمادی کا شکار ہیں ایسی کیفیت میں وہ پاکستان کو ماضی جیسی اہمیت نہیں دیتے ،جس کا مظاہرہ اقوام متحدہ کی انسا نی حقوق کمیٹی کے اراکین کے انتخاب میں عرب ریاستوں کی طرف سے پاکستان کو ووٹ نہ دینے کی شکل میں محض ایک ٹرائل کے طور پر دیکھنے کو ملا ،جبکہ مبصرین کے مطابق اندرون خا نہ صورتحال تعلقات کی ظاہری سطح سے زیادہ خراب ہے۔ سعودی عرب کی پاکستان سے توقعات ثالثی کی نہیں بلکہ ایران کیخلاف محاذ میں متحرک اتحادی اور عملی حمایتی کی ہیں ، اس سے کم کردار کو عرب حکمران قبول نہیں کریں گے ،خاص طور پر ایک ایسے دور میں کہ جب یمن اور شا م میں جنگی محاذ گرم کر چکاہے جہاں اُسے شدید مزاحمت اور مقاصد کی تکمیل میں انتہائی تکلیف اور نقصان دہ طوالت کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ۔

اس جنگ اوردیگر پراکسی جنگوں میں سعودی عرب کو بھاری مالی بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے ،جس میں تیل کی قیمتوں میں شدید گراوٹ نے ناقا بل برداشت اضا فہ کر دیا ہے، سعودی عرب کی آمدن کا تقریباً 0 7فیصد انحصار تیل پر ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق سعودی بجٹ کا خسارہ سو ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اور آمدن میں 160،ارب ڈالر سے زائد کمی آئی ہے،جس کے باعث سعودی عرب کو اپنے محفوظ مالی ذخائر میں سے تقریباً 72،ارب ڈالر نکلوانے پڑے ہیں ،ایک طرف آمد نی میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور دوسری طرف اخراجات خصوصاً دفاعی و غیر پیداواری اخراجات میں اضا فہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں سعودی حکمرانوں کو تیل کی اندرون ملک قیمتوں میں بھاری اضافہ کر نا پڑا ہے، اور اس کے علاوہ بجلی، ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات زند گی کے نرخ بھی بڑ ھا دیئے گئے ہیں ، جس سے سعو دی عوام میں پائی جا نے والی بے چینی اور شاہی حکمرانوں پر بد اعتمادی میں بڑھو تری آنا لاز می ہے، جو ’’عرب بہار ‘‘کا رخ سعودی عرب کی طرف موڑنے کا مو جب بن سکتی ہے۔

،سعودی عرب کو لا حق پریشا نی اور خوف کے مو جو دہ دور کا ایک منظر اس کا دفاعی طور پر کمزور ہو نے کا بھی ہے ۔بعض حلقوں کے مطابق سعودی فوج میں 45فیصد حو ثی ہیں ، جن کی ایک بھاری تعداد یمن میں حو ثیوں کیخلاف سعودی جنگ کے بعد بھاگ چکی ہے، جس نے نہ صرف سعودی فو جی طاقت کو کمزوربنا دیا ہے بلکہ با قی ماندہ فوج کے مو رال پر بھی منفی اثر ڈالا ہے اور وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو ئی ہے ،یہی نفسیاتی دباؤ جو خوف کے زیر اثر ہے آج سعودی حکمرانوں پر نمایاں نظر آتا ہے ،اسی لئے وہ پاکستان کو غیر جانبدار اور ثالث جیسی پوزیشن اختیار کر نے کی رعایت دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے ،اورعدم تعاون کی صورت میں سعودی عرب ہمیشہ کی جا نے والی مالی امداد سے ہاتھ کھینچ سکتا ہے، جس کی تقلید دیگر عرب ریاستیں بھی کریں گی۔

ایسا اقدام پاکستا نی معیشت کو شدید طور پر متاثر کر سکتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے دور میں کہ جب پاکستا نی معیشت کا انحصار بیرو نی امداد و قرض پر پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے اور قرضوں کا حجم 4700،ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، اور بر آمدات و بیرو نی سر مایہ کاری میں مسلسل کمی اور داخلی پیداوار میں گراوٹ آرہی ہے، اور داخلی جنگی صورتحال و خار جی سطح پر تصادم خیز تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر دفاعی و غیر پیداواری ریاستی اخراجات میں بے پناہ اضافہ کر نا پڑرہا ہے،ایسے بحرانی دور میں عرب اتحادیوں کی خاطر خواہ مالی معاونت سے محرو می پاکستان کومعاشی طور پر سنگین صورتحال سے دوچار کر سکتی ہے ۔

اسی لئے پاکستا نی مقتدرہ تنازعہ میں شمو لیت سے بچنے کیلئے جہاں ثالثی کا کردار اداکر رہی ہے ،وہاں سعودی عرب کی بعض دفاعی ضروریات کو پورا کر نے پر بھی مجبور ہے ، جس کی عکا سی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان میں بھی نظر آتی ہے،جس میں مو صوف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں مزید پاکستا نی فو جی روانہ کئے جائیں گے،اس ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ عسکری تعاون تمام دفاعی شعبوں میں ہوگا ،جس سے تجزیہ کار امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی تصادم کا حصہ بن سکتا ہے ،اگر چہ سعودی عرب اور ایران جس نو عیت کے داخلی و خار جی چیلنجوں سے دوچار ہیں ایسی شکل میں اس امر کا امکان انتہائی کم ہے کہ وہ ایک دوسرے کیخلاف براہ راست گرم جنگ کی طرف جائیں تاہم مشرق وسطیٰ سمیت خطے میں بڑھتا ہوا تصادم اور عالمی طاقتوں میں بڑھتی ہو ئی کشید گی میں کو ئی بھی غلط اقدام یا بڑا واقعہ دونوں کے مابین براہ راست جنگی ٹکراؤ کو بھی جنم دے سکتا ہے ،البتہ پراکسی وار کا آز مو دہ وزیر استعمال ہتھیار بد ستور بروئے کار لایا جاتا رہے گا۔

دونوں صورتوں میں مشرق وسطی سمیت مغربی ایشیاء میں حالات بد سے بد ترین ہوں گے جن کی زد میں پاکستا نی معیشت و سیاست اور معاشرہ بھی آئیں گے ،جس میں سب سے زیادہ تباہ کن اثرات بلو چستان پر مر تب ہو نے کا خد شہ ہے، کیو نکہ بلوچستا ن کی نہ صرف ایران سے سینکڑوں میل لمبی زمینی سر حد ہے بلکہ مغر بی بلوچستان کا ایک بڑا وسیع و عریض علاقہ ایران کے زیر کنٹرول ہے ،جہاں کی بلوچ آبادی سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے، اس فر قہ وارا نہ تضاد کو عرب اتحادیوں کی طرف سے پراکسی وار کی شکل میں استعمال کر نے کی ا طلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں ۔

بعض لو گوں کا کہنا ہے کہ مغر بی بلو چستان میں مذ ہبی فر قہ و ارا نہ بنیادوں پر شدت پسند عسکری قو توں اور کارروائیوں کا ظہور بھی پراکسی عنا صر و عوامل سے خا لی نہیں رہاہے ،ایسی ہی کیفیت پاکستان کے زیر کنٹرول مشرقی بلوچستان میں بھی نظر آتی ہے،جہاں سعودی وہا بی نظر یات کی حا مل مذ ہبی فر قہ وارا نہ انتہا پسند قو تیں اپنا اثر رسوخ اور دائرہ کار بڑ ھا رہی ہیں ،جو جب اور جہاں چاہیں عسکری کارروائیاں کر تی آئی ہیں جن میں شیعہ مسلک کے لو گوں کو نشا نہ بنا نے کے واقعات نمایاں ہیں ۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ان مذ ہبی فر قہ وارا نہ انتہا پسند قو توں کو پروان چڑھا نے میں داخلی و خار جی پراکسی عناصر شامل ہیں ،اس حوالے سے انسا نی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ بھی سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان میں مذ ہبی انتہا پسند گروہوں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت پروان چڑھایا جارہا ہے،جس کا مقصد یہاں جاری قوم پرست تحریک کو کاؤنٹر کر نا نظر آتا ہے ، ایسی ہی خبریں خار جی طور پرسعودی عرب اور ایران کی فر قہ وارا نہ پراکسی سر گرمیوں کے حوالے سے بھی گر دش کر رہی ہیں ۔

اس تناظر میں یہ واضح نظر آتا ہے کہ عرب و عجم کی لڑائی اور اس میں پاکستا نی مقتدرہ کے کسی بھی قسم کے کردار سے بلوچستان نت نئے تصادموں اور علاقا ئی و عالمی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ کے تباہ کن نتائج سے دوچار ہو سکتا ہے، جس سے بچاؤ کا راستہ بلوچ سماج کو انتہا پسند فرقہ وارا نہ رحجانات و عناصر سے محفوظ رکھنے کاہے۔بعض حلقوں کے مطابق بلوچستان کی سرزمین اور بلوچ سماج کو پراکسی عوامل پر مبنی فرقہ وارانہ انتہا پسندی سے بچا نے میں سامراج دشمن ترقی پسند روشن خیال اور سیکو لر حریت پسندانہ انقلا بی فکرو عمل کی حامل قو تیں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں ،جس میں یہاں جاری بلوچ آجو ئی پسند قو می تحریک کلیدی حیثیت رکھتی ہے ۔

Comments are closed.