انتظار حسین۔۔۔ کچھ تاثرات

مسعود اشعر

0,,17267218_303,00

انتظار حسین سے میری دوستی کوئی پچاس کی دہائی سے شروع ہوئی۔ میں پہلی دفعہ انہیں آفاق کے دفتر میں ملا۔ نامور نقاد محمد حسن عسکری بھی اس ملاقات میں موجود تھے ۔ بعد میں پاک ٹی ہاؤس میں، جہاں لکھاری ،شاعر دانشور اکٹھے ہوتے تھے ، میری ان سے اکثر ملاقات رہتی۔جب میں روزنامہ امروز میں ملازمت کے سلسلے میں ملتان چلا گیا تو ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ ان کے افسانوں اور ناول تک محدود ہو گیا۔ 

ضیاء الحق کے دور میں جب مجھے حکومتی نقطہ نظر کی حمایت نہ کرنے پر امروز سے نکال دیا گیا تو میں واپس لاہور آگیا۔ یہاں ایک بار پھر انتظار صاحب سے پاک ٹی ہاؤس میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جمعرات کی شامیں ہم کرشن نگر میں کشور ناہید کے گھر اکٹھے ہوتے۔

پچھلے کچھ سالوں سے ہم ہر اتوار کو انتظار صاحب کے ساتھ نئیرنگ آرٹ گیلری میں اکٹھے ہوتے جہاں ہمارے ساتھ ایرج مبارک، شاہد حمید ، اکرام اللہ اور زاہد ڈار بھی ساتھ ہوتے ۔اس کے علاوہ ہر جمعرات کو ارج مبارک کے گھر اکٹھے ہوتے تھے۔ 

میرے انتظار حسین سے کافی زیادہ اختلافات تھے کیونکہ میں پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن سے وابستہ تھا اور انتظار صاحب اس کے مخالف تھے۔ اختلافات کے باوجود ہمارے درمیان ایک اچھا تعلق تھا۔ مجھے ہمیشہ ان کی تحریروں نے متاثر کیا۔ چاہے وہ ’’قیوما کی دکان ‘‘ہو یا ’’ زرد کتا ‘‘ یا ان کی کوئی اور تحریر۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ان کے تمام افسانوں اور ناولوں میں انسانی اور غیر انسانی کیریکٹرز کے علاوہ ان کا بیانیہ دراصل خود ایک کیریکٹر ہوتا ہے۔

میں نے ایک بار کراچی میں جدید ادب پر اپنا مضمون پڑھا۔میں نے کہا کہ ترقی پسند لکھاری ہمیشہ ایک جدید اور ترقی یافتہ معاشرے کی بات کرتا ہے۔ جبکہ انتظار صاحب جیسے لکھاری ہمیشہ پرانی روایت یا تقلید پرستی کی بات کرتے ہیں تاکہ جدید اور ترقی یافتہ معاشرے کی بات نہ کی جا سکے۔ انتظار صاحب جیسے لکھاریوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں روایت کی طرف راغب کر کے ایک قسم کی رجعت پسند ی کی طرف دکھیلا۔سامعین نے میری رائے پر ردعمل ظاہر کیا لیکن اختلافات کے باوجود ہماری دوستی برقرار رہی۔

تقسیم ہند کے بعد رجعت پسندوں نے ترقی پسندلکھاریوں کی تحریروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ تقیسم کے موقع پر ہونے والے فسادات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔اس وقت ممتاز شیریں نے ایک کتاب ظلمت نیم روز شائع کی جس میں محمد حسن عسکری ، انتظار حسین اور دوسرے لکھاریوں کی تحریروں پر مشتمل تھی۔اس کتاب میں انتظار حسین نے کرشن چند ر اور دوسرے ترقی پسند لکھاریوں کو برا بھلا کہا ۔ انہوں نے کرشن چند ر پر ہندو بنیاد پرستی (مہاسبھائی) کالیبل لگا یا۔

تاہم پچھلے چند سالوں سے ان کی سوچ میں بہت بڑی تبدیلی آئی تھی ۔ ایک وقت میں وہ کرشن چند ر کے شدید مخالف تھے مگر بعد میں ان کی تحریروں کی تعریف کرنے لگے تھے۔ انہوں نے ترقی پسند لکھاریوں کی ادبی خدمات کو تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا۔

شروع میں وہ اس بات پر سختی سے یقین رکھتے تھے کہ کسی خاص نظریہ کے ساتھ وابستگی خطرناک عمل ہے۔ تاہم وہ اپنی تحریروں میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو جس طرح بیان کرتے تھے مجھے نہیں یقین کہ وہ بغیر کسی مقصد یا کمٹ منٹ کے ہو سکتا ہے۔ ان کے ناول بستی اور آگے سمندر ہے میں سیاسی بیانیے پر مشتمل ہیں۔

میرے خیال میں انتظار حسین نئی نسل میں ایک ہزاروں سال پرانا آدمی ہے۔

وہ قدیم ہندوستانی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں رچے بسے شخص تھے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ پاکستان میں آخری شخص تھے جو گنگا جمنی اور ہند اسلامی ثقافت پر گہری نظر رکھتا تھا۔ ان کے جانے کے بعد اب کوئی ایسا لکھاری نہیں جو اس ثقافت کو آگے بڑھا سکے۔

انتظار حسین نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا میری تین پرتیں ہیں اور میں آج جو کچھ ہوں وہ ان تین پرتوں کے علم کی وجہ سے ہوں۔ ان کا بہترین کام چیخوف کی تحریروں کا ترجمہ ہے۔وہ مہابھارت اور رامائن کی کہانیاں بھی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی دور کی کہانیاں، خاص کر کربلا کا واقعہ بھی بیان کرتے ۔وہ ایک ایسے شخص تھے جنہیں دوہزار سال پرانی دیو مالائی کہانیاں بیان کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔

انہوں نے ایک دفعہ اپنے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’ اپنے گھر میں بیٹھے میں ہوئے ہمیں اس کا بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ علیحدگی کسے کہتے ہیں ،علیحدگی کے بعد ہی پرانی یادیں ہمیں ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جب انتظار حسین نے تقسیم کے بعد لاہور نقل مکانی کی تو منٹو اور حسن عسکری نے ایک میگزین کا اجراء کیا۔ پہلے ایڈیشن کے لیے عسکری نے انتظار حسین کو افسانہ لکھنے کے لیے کہا۔ انتظار شروع میں کچھ ہچکچائے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا افسانہ منٹو کو بھیج دیا جو کہ اس میگزین کے ایڈیٹر تھے۔ منٹو نے انتظار حسین کو بلایا اور کہا ’’ تم نے یہ کیا لکھا ہے‘‘؟ ۔ انتظار حسین کی وضاحت کے بعد منٹو بولے’’ یہ تم خود تو سمجھ سکتے ہو، پڑھنے والے نہیں سمجھیں گے‘‘۔ انتظار نے اپنا افسانہ واپس لیا اور اس میں تبدیلیا ں کیں۔

انتظار واپس منٹو کے پا س اپنا افسانہ دینے گئے ۔ منٹو نے افسانہ پسند کیا لیکن اس دفعہ انہیں اس کے عنوان ’’ وہ‘‘ پر اعتراض تھا۔ ’’وہ‘‘ کا کیا مطلب ہوا؟ یہ اچھا نہیں لگتا ۔ منٹو نے عنوان بدل کر ’’ وہ پھر آئے گی‘‘ کر دیا۔ یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کے متعلق تھی جس میں کہانی کا کردار ایک مجلس میں ملتاہے اور اس پر بری طرح فریفتہ ہو جاتا ہے۔ مجلس جاری رہتی ہے لیکن وہ لڑکی کی طرف دیکھتا رہتا ہے ۔ آخر کار مجلس ختم ہوتی ہے اور وہ چلی جاتی ہے ۔ وہ کھڑا ہو کر سوچتا ہے کہ وہ کب واپس آئے گی۔

دی نیوز آن سنڈے

Comments are closed.