پاکستانی سماج رجعت پسند اور جدیدیت کے دوراہے پر

Pakistani-School-College-girls-Selfie-Picture-Instagram-29

پاکستان کے قدرے قدامت پسند معاشرے میں نئی نسل کو سوشل میڈیا کے ساتھ وابستگی پر مشکل کا سامنا ہے۔ ٹین ایجر لڑکے اور لڑکیاں سوشل میڈیا کے استعمال پر مغربی معاشرے جیسی آزادی کے معاملے پر کنفیوز دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں ایسے گھرانے بھی ہیں جہاں کے ٹین ایجرز اور خاص طور پر لڑکیاں اپنی ’سیلفی‘ تو بنا لیتی ہیں لیکن گھریلو اور خاندانی پابندیاں اُن کے آڑے آ جاتی ہیں۔ وہ مغرب کی یوتھ کی طرح اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر کھلی آزادی کے ساتھ پوسٹ نہیں کر سکتیں۔ پاکستان کی ’جنریشن زیڈ‘ کو کئی قسم کے سماجی، معاشرتی، مذہبی اور اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ’جنریشن زیڈ‘ سے مراد سن 1990 کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو لیا جاتا ہے اور اِس کی وجہ اُن کا انٹرنیٹ تک آسان رسائی ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک پندرہ سالہ پاکستانی لڑکی نے کہا کہ وہ اپنی تصاویر میں بیزاری کا اظہار کرنے کے لیے سکیڑ کر ہونٹ باہر نکال کر نہیں دکھا سکتی کیونکہ اِس کے معنی لوگ کچھ بھی لے سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک اسکول کے طلبا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ آن لائن گفتگو کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے استعمال اور اُن پر تصاویر کو پوسٹ کرنے پر کھل کر اظہار کیا۔

ایک لڑکی نے بتایا کہ ایسی تصاویر صرف دوستوں کے ساتھ شیئر کی جا سکتی ہیں اور اگر عام کر دی جائیں تو خاندان، قریبی رشتہ داروں، دوست احباب اور اساتذہ کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس لڑکی کے مطابق ایسی تصاویر پوسٹ کرنے پر کچھ لوگ تو انتہائی عامیانہ الفاظ کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اسلام آباد کے اسکول کے طلبہ و طالبات نے اپنے نام مخفی رکھتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی یوتھ اسمارٹ فون کی آمد اور تھری جی فور جی کے علاوہ سوشل میڈیا تک فوری رسائی پر کسی حد تک کنفیوز دکھائی دیتی ہے۔

امریکی سوشلائٹ کم کارداشیان جیسی پاکستان میں بھی کئی خواتین سوشل میڈیا پر ہزار ہا مداحوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔ ان میں قندیل بلوچ اور مہوش حیات سمیت کئی نام لیے جا سکتے ہیں۔ یہ خواتین اپنی ہوش ربا تصاویر سے ذاتی تشہیر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کی دیکھا دیکھی ٹین ایجرز اور یوتھ بھی مختلف انداز میں اپنی ’سیلفی‘ بنا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع کرتے رہتے ہیں لیکن ایسی پوسٹ کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔

پاکستان کی ایک بڑی اکثریت قدامت پسندانہ رویے کی حامل ہے۔ اِس اکثریتی آبادی کی کوشش ہے کہ گھروں اور معاشرے میں سخت مذہبی اقدار کے ساتھ ساتھ خاندان کی عزت و وقار کا بھرم بھی قائم رہے اور ان کے منافی رویوں کی حوصلہ شکنی ہر ممکن طریقے سے کی جائے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر سوشل میڈیا کے سرگرم ہونے سے کئی تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ملک کے ٹین ایجرز نئی صورت حال میں ایک نئی سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔

DW

Comments are closed.