عاشق رسول کو پھانسی دے دی گئی

54fe8ffda07ea


گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو آج صبح اڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

تمام مذہبی جماعتوں نے اسے سچا عاشق رسول قرار دیا تھا جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک گستاخ رسول کو قتل کیا تھا۔ غازی علم دین کے بعد ممتاز قادری پاکستان کے مسلمانوں کا ہیرو بن گیا تھا ۔ ریاست نے تو ممتاز قادری کو پھانسی دے دی ہے مگر غازی علم دین شہید کی طرح قادری بھی پاکستانی عوام کا ہیرو رہے گا ۔

کئی بارایسوسی ایشنوں نے توہین رسالت کے قانون کے حق میں قراردادیں پاس کیں اور عدلیہ بحالی کے علمبردار اور چیف ( افتخار چوہدری ) کے جانثار وکلاء نے توہین کے ’’مرتکب‘‘ افراد کا مقدمہ لڑنے والوں کو دھمکیاں دیں۔ ممتاز قادری جب بھی عدالت میں پیش ہوتا تو چیف کے جانثاروں کی بھاری تعداد قاتل کا استقبال کرتی، اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی اور اس کو چومتی چاٹتی جبکہ حکومتی وکیل کودھمکیاں دی جاتیں اور اسے ہراساں کیا جاتا۔

Mumtaz-Qadri-2

سنہ2010 میں جب پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے خلاف توہین رسالت کے جھوٹے الزام کے تحت اسے بری کرنے اور توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس میں تبدیلی کی بات کی تو ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے جہادیوں، جن میں مہربخاری، حامد میر ، کامران خان اور کاشف عباسی سرفہرست تھے، نے ایک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کردیا جس کے نتیجے میں سلمان تاثیر کو دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔

پورے ملک میں خوف و دہشت کی فضا قائم ہو گئی۔راتوں رات لاہور میں ’’ گستاخ رسول کی سزا، سرقلم سے جدا‘‘ والے بینر آویزاں ہو گئے۔پیپلزپارٹی کی قیادت خاموش ہوگئی اور کوئی بھی اس عمل کی مذمت کرنے کو تیار نہ تھا۔ مذہبی تنظیموں نے اعلان کیا تھا کہ سلمان تاثیر کی نماز جنازہ کوئی مولوی نہیں پڑھائے گا۔ بہرحال حکومت نے کسی نہ کسی طرح ایک مولانا کا بندوبست کیا جو نماز جنازہ پڑھانے کے فوری بعد انتہا پسندوں کے ردعمل کے خوف سے’ غائب‘ ہوگئے ۔

چونکہ قاتل نے علی الاعلان اپنے جرم کا اقرار کر لیا تھا اس لیے چند ماہ مقدمہ چلا اور جج صاحب ممتاز قادری کو موت کی سزا سنا کر عمرہ کرنے سعودی عرب چلے گئے اور پھروہاں سے کینیڈا کی راہ لی۔ چیف کے جانثاروں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اس کی سزائے موت کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کردیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ شریف نے ممتاز قادری کی وکالت کا اعلان کیا۔

ممتاز قادری لوگوں کے دلوں پر راج کرتا رہا۔جیل میں اسے وی آئی پی پروٹو کول ملا۔ مبارکبادیں دینے والوں کاتانتا بندھا رہتا حتیٰ کہ اس نے جیل میں دعوت و تبلیغ کا کام بھی شروع کردیا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کی تبلیغ کے لیے کتنے علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک روز خبر آئی کہ اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر جیل کے ایک سپاہی نے توہین رسالت کے الزام میں قید ایک عمر رسیدہ شخص کو گولی مار دی۔آزاد میڈیا نے اس خبر کو اہمیت دینامناسب نہ سمجھا۔

جنوری2015 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو ممتا ز قادری کے وکلاء کی تعداد نوے تھی جو ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف اور سابق جج نذیر اختر کی قیادت میں آئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممتاز قادری کے کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے اس پر دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا فیصلہ دیا لیکن سپریم کورٹ نے اسے موت کی سزا دینے کافیصلہ برقرار رکھا۔

q1

پاکستانی سماج میں جس طرح انتہا پسندی سرایت کر چکی ہے اس کا اندازہ پاکستان میں رہنے والے ہی لگا سکتے ہیں۔قرارد ادِ مقاصد سے لے کر 1973کے آئین کو قرآن و سنت کے ماتحت کرنے اور پھر ایک موذی ڈکٹیٹر کی جانب سے آئین کو اسلامائز کرنے کے بعد اب ملٹری کورٹس کے ذریعے انتہا پسندی کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔توہین رسالت کے قانون کے خاتمہ تو دور کی بات کوئی اس پر نظر ثانی کی بات کرنے کو تیار نہیں اور اگر کوئی سر پھرا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کی سزا ’’سر تن سے جدا‘‘ والی ہوتی ہے۔

Comments are closed.