میری آنکھ کھل گئی ہے۔۔

Nusrat-Javed-267x200

نصرت جاوید

نواز شریف ویسے ہی ہیں جیسے 1990ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد مجھے اسلام آباد میں نظر آئے تھے۔ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں اسلام کے نام پر حاصل کئے پاکستان میں ’’نفاذِ شریعت‘‘ کے ذریعے امیر المومنین بننے کی لگن میں ان کی اصل شخصیت کھل کر دُنیا کے سامنے آگئی تھی۔ خلقِ خدا مگر معصوم ہوتی ہے۔ اپنے تئیں کچھ چیزیں فرض کرلیتی ہے اور اس کیفیت میں اپنے حاکموں کو پوری طرح جان ہی نہیں پاتی۔

خلقِ خدا کو دھوکے میں گرفتار رکھنے کے لئے مجھ ایسے سہولت کار بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بظاہر معروضی حالات کا ’’غیر جانبداری‘‘ سے تجزیہ کرتے ہوئے میں نے بھی کئی بار بہت خلوص سے لکھا اور ٹی وی سکرینوں پر دہرایا کہ پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف ’’بدل‘‘ چکے ہیں۔ انہوں نے ماضی کی غلطیوںسے بہت سبق سیکھے

ہیں۔ جلاوطنی خواہ کتنی ہی آرام دہ ماحول میں ہو، بہرحال ایک کڑی سزا ہوتی ہے اور سزائیں کاٹتے ہوئے انسان اپنی خطاؤں سے سبق سیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
یہ سب لکھتے اور کہتے وقت انسانی نفسیات کا اپنے تئیں ماہر بنا میں کم علم کبھی سوچ ہی نا پایا کہ اگر آپ نواز شریف ہوں تو آپ کو اپنی حقیقی یا مفروضہ خطاؤں پر پشیمان ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کو اقتدار سے محروم ایک فوجی آمر اور اس کے حواریوں نے کیا تھا۔ ایسا ایک واقعہ مگر ذوالفقار علی بھٹو نامی ایک وزیر اعظم کے ساتھ بھی ہوا تھا۔

بھٹو کے بدترین ناقدین بھی موصوف کو بہت کائیاں، تاریخ کا ایک ذہین ترین طالب علم اور عالمی رہ نماؤں کے ایک بہت بڑے اور مؤثر گروہ کو اپنی صلاحیتوں سے جگری یاروں میں تبدیل کرنے والا شخص سمجھتے تھے۔ ضیاء نے ان کے خلاف مگر قتل کے جرم میں کٹا ایک پرچہ پولیس کے ریکارڈ سے نکال کر کارروائی کے لئے آگے بڑھادیا۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے اس پرچے کی بنیاد پر بھٹو کو قاتل قرار دے کر پھانسی کی سزا سنائی۔ دُنیا کے کئی طاقتور ملکوں کے سربراہوں نے رحم کی درخواستیں کیں مگر ضیاء الحق نے تارا مسیح کے ہاتھوں بھٹو کو پھانسی دلوائی۔

نوازشریف کو بھٹو کے مقابلے میں ہمیشہ ایک ’’مقامی نوعیت‘‘ کا سیاست دان سمجھا گیا۔ لاہور کے ایک معروف صنعت کار گھرانے کے لاڈلے فرزند ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں پنجاب کے گورنر غلام جیلانی نے انہیں اپنے پروں تلے لے کر حکمرانی کے گُر سکھائے تھے۔ بعدازاں یہ ذمہ سنا ہے مرحوم حمید گل نے اپنے سر لے لیاتھا۔

خلقِ خدا ہمیشہ یہ فرض کئے بیٹھی رہی کہ نواز شریف کو دونوں بار ایسٹیبلشمنٹ نامی کسی شے نے اس ملک کا وزیر اعظم بنوایا تھا۔ ان کے اپنے پلے کچھ بھی نہیں۔ نہ ذہانت، نہ فطانت۔ خطابت کے ہنر سے وہ ہمیشہ محروم رہے۔ کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا الزام بھی ان پرکبھی نہیں لگا اور انہیں عالمی سیاست کا بھٹو جیسا کھلاڑی بھی کبھی نہیں مانا گیا۔

اس نواز شریف کو جب ایک اور فوجی آمر کے دور میں ایک باقاعدہفوجی نہیںعدالت کے ذریعے جہاز کے اغوا کی کوشش کے الزام میں سزا ہوئی تو برسوں سے ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے لگانے والے بھی اپنی جاں بخشی کے لئے پناہ گاہیں تلاش کرنے پر مجبور ہوگئے۔ امریکی صدر کلنٹن مگر نوازشریف کو نہیں بھولے۔ اس نے سعودی عرب کے حکمرانوں کی معاونت سے نواز شریف کی گلوخلاصی کا بندوبست کیا۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مانی حجاز کی سرزمین پر واقع ’’سرورپیلس‘‘ میں نواز شریف اپنے پورے خاندان سمیت مقیم ہوگئے۔ اس ’’جلاوطنی‘‘ میں بارہا عمرہ کرنے کی سعادت اور روضہ رسولﷺ پر حاضری کی آسانی بھی میسر ہوگئی۔ ایسی ’’جلاوطنی‘‘ پر کوئی کافر ہی اپنی حقیقی یا مفروضہ خطاؤں کے بارے میں پشیمان ہوکر خود کو بدلنے کی ترکیب سوچنے پر مجبور ہوگا۔

انسانی نفسیات کا اپنے تئیں ماہر بنے مجھ ایسے کم علم لکھاری مگر تواتر سے یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگئے کہ نواز شریف نے اپنی ’’کڑی جلاوطنی‘‘ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہماری فہم کو مزید کندکرنے کے لئے 14اگست 2014ء سے اسلام آباد میں شروع ہوگیا ایک دھرنا۔ عمران خان کے انقلابیوں اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے متوالوں نے کئی ہفتوں تک قومی اسمبلی اور پاکستان ٹیلی وژن پر اشتعال انگیز حملے بھی کر ڈالے۔ نواز شریف نے مگر درگزر سے کام لیا۔ ہمارا کہا درست ثابت ہوا۔ نواز شریف واقعی بدل گئے تھے۔ اس طرح کے ضدی نظر نہ آئے جیسے اپنے گزشتہ ادوارِ حکومت میں دِکھاکرتے تھے۔

پی آئی اے کے ملازمین کا شکریہ۔ بالآخر ان کے احتجاج نے کئی برسوں سے اُبھرکر موجود رہنے والے ایک سراب سے نجات دلائی۔ ثابت ہوگیا کہ نواز شریف ویسے ہی ہیں جیسے 1990ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد مجھے اسلام آباد میں نظر آئے تھے۔

آنکھ میری اب کھل ہی گئی ہے تو آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان دنوں پی آئی اے کی احتجاجی تحریک کے ذریعے انقلابی ہونے کے دعوے دار جناب سہیل بلوچ کئی برسوں تک کوئی انتظامی عہدہ نہ رکھتے ہوئے بھی قومی ایئرلائن کے بے تاج بادشاہ رہے ہیں۔ پائلٹوں کی تنظیم کے صدر تھے اور اس حیثیت میں ان کی دہشت پی آئی اے میں تقریباً ویسے ہی تھی جیسی کسی زمانے میں عزیر بلوچ کی لیاری میں نظر آیا کرتی تھی۔

مجھے معاشی معاملات کی زیادہ خبر نہیں۔ محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے بھی میں یہ دعویٰ ضرور کردوں گا کہ آصف علی زرداری نے اعجاز ہارون نامی ایک پائلٹ کو پی آئی اے کا سربراہ بنانے کے بعد اس ادارے کے معاملات کو سنبھالنے کی ایک ٹھوس کوشش کی تھی۔ اس کے مثبت اثرات بھی نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ نواز شریف کی مکمل اور بھرپور شفقت کی بدولت سہیل بلوچ نے مگر اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ ہم میڈیا والوں نے بھی زرداری اور پیپلز پارٹی کی اندھی نفرت میں سہیل بلوچ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بھرپور سہولت کاری فراہم کی۔

میڈیا اب پی آئی اے کے ’’انقلابیوں‘‘ کا سہولت کار نہیں ہے۔ پی آئی اے کے جو کارکن منگل کے روز کراچی میں ’’نامعلوم افراد‘‘ کی گولیوںکا شکار ہوئے ان کے قتل پر ہم نے اتنی دہائی نہیں مچائی جتنی مثال کے طورپر اس بچی کی ہلاکت کے بعد مچائی تھی جو وقت پر ہسپتال نہ پہنچنے کے باعث اس دُنیا سے رخصت ہوئی۔ بسمہ کی موت کا ذمہ دار بلاول بھٹو زرداری کے لئے پھیلایا حفاظتی بندوبست ٹھہرایا گیا۔ پی آئی اے کے ملازمین کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو تلاش کرنے میں البتہ ہمیں اتنی دلچسپی نہیں۔

قوم کو بلکہ ہم نے سمجھادیا ہے کہ پی آئی اے قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے چمچوں کی بے دریغ بھرتی کے ذریعے اس کا بیڑا غرق کردیا۔ بہتر یہی ہے کہ نجکاری کے ذریعے اس سفید ہاتھی سے نجات پالی جائے۔ پی آئی اے کو سفید ہاتھی ٹھہراتے ہوئے ہم نے کبھی اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو یہ بنیادی حقیقت سمجھانا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ اس ادارے کے سالانہ بجٹ کا صرف 17فیصد تنخواہوں وغیرہ کے ضمن میں خرچ ہوتا ہے۔ دُنیا بھرکی فضائی کمپنیوں میں ملازمین کی تنخواہوں کا اوسط ان اداروں کے سالانہ بجٹ کا کم از کم 23فی صد ہوا کرتا ہے۔ پی آئی اے کا بیڑا غرق ہوا تو اصل وجوہات اس کے پیچھے کچھ اور ہیں۔

حقیقت جو بھی رہی ہو۔ پی آئی اے جیسے ’’سفید ہاتھی‘‘ سے جان چھڑانے کا فیصلہ ہوگیا ہے اور یہ فیصلہ اسی نواز شریف نے کیا ہے جو 90ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کے پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد مجھے اسلام آباد میں نظر آئے تھے۔

بشکریہ: نوائے وقت

One Comment