پاکستانی لبرلز کی ترجیحات

مہرجان

Funny-Disco-Ass
ایک دن نہیں بلکہ ہردن محبت کا دن ہونا چاہیے۔ یہی وقت کی ضرورت ہے نہ صرف عوام الناس بلکہ ریاستوں کو چلانے والے بھی اگر تمام تر حساب کتاب ,طاقتوں کی بدصورتیوں اورحریص لبادوں کو اتار پھینک کر محض یہ محبت کا عالمی دن منالیں تو اس میں برائی ہی کیا ہے۔

لیکن مسئلہ ترجیحات کا ہے جس شدت سے لبرلز نے ویلنٹائن ڈے منانے پہ نہ صرف اسرار کیا بلکہ بہت کچھ لکھا بھی کاش پاکستانی لبرل صحیح معنوں میں محبت کے لئے لڑنے والے بھی ہوتے اور انسانی کشت و خون کے خلاف محبت کے نام پر انسانیت کے لئے اسی سنجیدگی سے آواز بھی اٹھاتے تو کیا بات تھی۔

گذشتہ دنوں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایک سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے پر امن جد وجہد کرنے والے کارکنوں کو ماورائے عدالت ریاستی اداروں نے شہید کیا۔ اس جبر پہ اک آدھ سوشلسٹ حضرات کچھ لکھ بیٹھے۔ لیکن لبرل حضرات جو کہ آزادی اظہار کی بہت بات کرتے ہیں اس نکتے پر آکر انہیں سانپ سونگھ گیا ۔

مجھے کافی دوست یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بجائے مذہبی انتہا پسندی پہ لکھنے کے آپ لبرل حضرات کو ہدف ِتنقید کیوں بناتے ہو میرا سادہ سا جواب یہی ہوتا ہے کہ مذہبی لوگ عقل و آزادی کی بات نہیں کرتے سوچ بچار کو وہ خاطر میں نہیں لاتے وہ مذہب کے نام پہ ریاستی و مذہبی ٹھیکہ داروں کو کھلی چھٹی دے چکے ہیں کہ ان کو مارو اور مسخ شدہ لاشیں پھینکو۔

لیکن لبرل حضرات چونکہ آزادی اظہار کی بات کرتے نہیں تھکتے اور ہر وقت عقل و دانش سے جڑے رہتے ہیں۔ سول سو سائٹی سے لے کر میڈیا تک اظہار آزادی کے چیمپیئن بنے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر دانش اور ڈاکٹر مسعود سب ان لبرلز کو بوٹ پالیشیے نظر آتے ہیں۔ لیکن جونہی نفرت کے اظہار کے طور پر ماورائے عدالت اقدام پہ جھنڈے کو جلایا جائے تو پھران میں اوریا مقبول پن جاگ اٹھتا ہےپھر انسانیت سے زیادہ ان کو پرچم عزیز ہوتا ہے۔

چوہدری نثار نے ویلنٹائن ڈے پہ اک پاپندی کیا لگائی بس پھر سوگ میں کالمز قطاراندر قطار نظر آنے لگے لیکن یہی ادارے جب ماورائے عدالت لوگوں کی خون سے ہولی کھیل رہے ہوتے ہیں تو انکی طرف سے اتنا سناٹا چہ معنی دارد؟۔

اس کو کہتے ہیں لبرل ازم اور اسے کہتے ہیں آزادی اظہار ۔سیکولر ازم یا مذہبی بیانیہ اپنی جگہ تاریخ کی سچائی اور اسکا نفاذ اپنی جگہ لیکن آج جو خون مسلسل بہہ رہا ہے اس پہ کتنے دانشوروں نے کتنے کالم لکھ کر ذہن سازی کی اور اصل صورتِحال واضح کی.؟۔

جے ایس مل نے لبرٹی پہ بہت کچھ لکھا اس کی افادیت پسند ی کی دلکشی اپنی جگہ لیکن افادیت والوں کی دنیا میں اقلیت کے لیے کوئی جگہ نہیں وہ

maximum pleasure for maximum number

پہ یقین رکھتے ہیں تب ہی تو وہ کانٹ کا فلسفہ ضمیر کو رد کرچکے ہیں۔ یہاں لبرل حضرات کے دلائل اور بیانیے سے یوں لگتا ہے جیسے کہ ریاست پاکستان میں صرف اقلیتوں کو مسئلہ ہے اور اقلیت سے مراد ان کی غیرمسلم ہیں لیکن جس شدت سے یہاں قومیتوں کا مسئلہ ہے وہ اسے جان بوجھ کے پس ِپردہ رکھنا چاہتےہیں۔

یہاں ان کے پاس دلائل کا فقدان ہے کیونکہ یہ میدان تاریخ اور سچائی کا متقاضی ہے اس میدان میں جناح کی تقریروں کا پول کھل جاتا ہے کہ وہ کیسے بنگلہ دیش میں بنگالی زبان پہ اردو کو ترجیح دے کر (یعنی قومی زبان قرار دے کر )انگریزی میں تقریر کر رہے تھے۔ آزادی اظہار ،انفرادی آزادی ،آزاد معیشت یہ تمام پرکشش نعرے ریاستی جبر تلے کھوکھلے نظر آتے ہیں اور آج جس طرح ریاستی جبر پنجے گاڑھے ہوئے قومیتوں کو کچل رہا ہے اسی طرح جب یہی پنجے بنگلہ دیش میں گاڑھے گئے تھے۔

اس ظلم کو فیض صاحب نے خون کے دھبوں سے تشبیہ دی اور ایرانی طلبا کے نام اپنی نظم میں گویا ہوئے (یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں چھن چھن چھن چھن دھرتی کے پیہم پیاسے کشکول میں گرتی جاتی ہیں کشکول کو بھرتی جاتی ہیں یہ کون سخی ہیں) آج بقول قمر مسعودبلوچوں کے لئے یہ وہ سخی ہیں جن کے لیے اب کوئی فیض نہیں، کوئی جالب نہیں بس یہ ہیں.اور کسی ٹارچر سیل میں ان کے چہرے مسخ کرنے کے آلات ہیں اور سڑک کا کوئی کنارہ ہے یہ وہ بلوچ ہیں جو آزادی سے زندہ رہنے کا حق مانگ رہے پیں۔۔۔

مگر۔۔۔۔۔ مگر اب وہ ماں باپ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جن کےجواں بچے کی لاش کسی سڑک کنارے مل جاتی ہے چاہے وہ مسخ شدہ ہی کیوں نہ ہو ۔پیدا ہونے والی کتنی بچیاں ہیں جو آج تک اپنے باپ کے رخسار پہ بوسہ دینے کی بجائے باپ کی تصویر کو بوسہ دیتے ہوئے بڑی ہو رہی ہیں اور ہر روز سڑک کنارے یا کسی ویران میدان کو دیکھنے جاتی ہیں کہ شاید اپنے باپ کی لاش کو ڈھونڈ پائیں ۔

مگر بے حسی ہے کہ چاروں اور پھیلی ہوئی ہے کوئی حرف کوئی آواز ان کے لیے نہیں اُٹھ رہی نہ ملک میں نہ ملک سے باہر آج 13 فروری کو سوئیڈن کے شہر سٹاک ہولم میں بلوچوں نے اس قتلِ عام کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا مگر سوائے بلوچوں کے کسی دوسری قوم کا کوئی فرد وہاں نہیں آیا۔ مگر لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہےشام بھی کٹ جائے گی سویرا بھی ہوگا اور تاریخ یاد رکھے گی کہ اس سفر میں دانش پسند کس صف میں کھڑے تھےاور انکی ترجیحات کیا تھیں۔

2 Comments