لیجئے انتظار حسین کی سناؤنی بھی آگئی۔۔۔

ڈاکٹر پرویز پروازی

0,,17278037_401,00
اردو افسانے اور ناول نگاری کی ایک روایت ان کے ساتھ گئی۔ اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر ۔۔۔

پہلی بار ہم نے انتظار حسین کو پاک ٹی ہاؤس میں ناصر کاظمی کی معیت میں بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔ آخری بار بھی ہم نے انہیں ناصر کاظمی ہی کی معیت میں چائنیز لنچ ہوم کے اوپر بنے ہوئے ایک کیبن میں دیکھا اور بس۔ یہی ہماری دور کی ملاقات ان سے رہی ، مگر ان کے کالموں اور بعد کو ان کی دو خود نوشتوں’’ چراغوں کا دھواں‘‘ اور ’’ جستجو کیا ہے ‘‘ کے ناتے انہیں بالاستعیاب پڑھنے کا موقع ملا اور ہم ان کی زبان کی شستگی کے اسیر ہو کر رہ گئے۔

انتظار حسین کی زبان دلی کے کسی روڑے کی زبان ہے نہ لکھنؤ کے کسی بانکے کی زبان مگر اس کی مٹھاس پڑھنے والے کے منہ کا ذائقہ بدل دیتی ہے۔ لذیذ اور رواں دواں ! ہندوستان کی وشال دھرتی انہیں بہت کشش کرتی تھی۔ ہندو دیو مالا کے کردار انہیں بہت مرغوب تھے یہی وجہ ہے کہ اپنا آخری سفر نامہ جستجو کیا ہے لکھتے ہی انہوں نے آگے جانے کی تیاری پکڑ لی اور چوتھے کھونٹے جا نکلے۔ 

’’ کتنے سفر میں نے الف لیلہ کے سوداگروں اور شہرزادوں کے ساتھ کئے ہیں۔ حاتم طائی نے جو سفر کئے میں کتنے موقعوں پر اس کے پیچھے گرد سفر بن کر چلتا رہا۔ پانڈو برادران جب اپنی جلا وطنی کے دنوں میں تیرتھ کے بہانے ہندوستان کی وشال دھرتی پر خاک پھانکتے پھر رہے تھے میں نے ان کے ساتھ بھی کچھ سفر کیے ہیں اور کتھا سرت ساگر وہ تو دیسوں اور نگریوں سے بڑھ کر جنموں کے سفر ہیں۔ ایسے سفر اسفار کے ذائقہ سے بھی آشنا ہوں ۔ اسی سے مجھے خیال آیا کہ ایک سفر ایسا بھی داستانی مسافروں کو درپیش رہا ہے کہ تین کھونٹ سے نکل کر چوتھے کھونٹے جانکلے‘‘۔( جستجو کیا ہے صفحہ 294)

ان کا آنا بھی کیا آنا تھا کہ ’’ اکھڑی ہوئی خلقت کا ایک سیلاب امنڈاہوا تھا اور سیلاب میں بہت سا خس و خاشاک بھی بہتا چلا آتا ہے تو بس ایسے ہی یہ تنکا بھی بہہ کر یہاں چلا آیا‘‘ (چراغوں کا دھواں صفحہ 9)َ۔پھر انتظار حسین نے ’’ اس وقت کی ہجرت کے عمل کو برا بھلا سمجھنے کی کوشش کی تھی ، یاروں نے ایک فلسفہ ہجرت مجھ سے منسوب کر دیا ‘‘ ( ایضاً صفحہ 10)۔ 

سادہ لفظوں میں یوں سمجھئے کہ انتظار حسین کو بھولی بسری یادوں کی بھول بھلیوں میں الجھا ہوا ماضی زدہ افسانہ نگار کہا گیا جس نے ہجرت کو قبول ہی نہ کیا ہو۔ مستزاد انتظار کی زبان میں ہندی کا لوچ! مگر انتظار حسین اپنے رویہ پر ثابت قدم رہے نہ بھولی بسری یادوں کا دامن چھوڑا نہ وشال دیس کی لپک کم ہوئی۔ ’’ جنم کہانیوں ‘‘ سے شروع ہو کر ’’ بستی، تذکرہ، چاند گہن، آگے سمندر ہے‘‘ تک اور افسانوں میں خیمے سے دور ، زمین اور فلک اور آخری آدمی ، کنکری ، دن اور داستان ، پنجرہ ، گلی کوچے، کچھوے ، شہر افسوس اور علامتوں کے زوال تک ، ان کا ایک ہی رنگ اور ایک ہی اسلوب ہے جو ان کے ساتھ گیا۔ 

لاہور میں ریسرچ کے زمانہ میں ہماری شامیں ٹی ہاؤس میں گذریں ان کو ہمیشہ دروازہ کے ساتھ والی مخصوص میز پر ناصر کاظمی اور احمد مشتاق کے ساتھ بیٹھے ہوئے پایا۔ اس میز کے علاوہ یہ کہیں اور نہیں بیٹھتے تھے جو ناصر سے یا ان سے ملنا چاہتا وہ اٹھ کر ان کے ساتھ پاس آتا ۔ یہ ان کی وضع داری تھی جس پر ہمارے دیکھنے کی حد تک تینوں پابندی سے کاربند رہے۔ٹی ہاؤس کے دوسرے کردار جن کا انتظار صاحب نے مزے لے لے کر چراغوں کا دھواں میں کیا ہے بڑی حد تک اپنی اپنی میزوں سے جڑے ہوئے تھے۔ 

زاہد ڈار اور اسرار زیدی بھی اپنی مخصوص میز نہیں چھوڑتے تھے۔ ہاں باقی لوگ آتے جاتے رہتے جس کو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتا۔ یہ آرجار ٹی ہاؤس میں رات گئے تک جاری رہتی ۔ 

ہمیں پہلی بار انتظار حسین کی کتاب سے معلوم ہوا کہ ٹی ہاؤ س میں بعض ’’کھسکے ہوئے ‘‘ لوگوں کو کھانا اور چائے مفت ملتی تھی ۔ ضرور ملتی ہوگی ورنہ اتنی پابندی سے ہو کیوں آتے؟

ڈاکٹر سلیم ، واحد سلیم کو تو ہم نے بھی دیکھا جان پہچانا ہے۔اچھے خاصے میڈیکل ڈاکٹر تھے پریکٹس کرتے تھے بظاہر ان میں سنک کے کوئی آثار نہیں تھے ۔ ہمارے دوست ارشاد حسین کاظمی سے ان کی جان پہچان تھی ۔ ہم نے انہیں اسی کی میز پربیٹھےْ ْْْْْْْاور باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر ان کو دیوانگی کے عالم میں واہی تباہی ننگے سر ننگے پیر بھاگتے بڑبڑاتے دیکھا۔بہت رحم آتا تھا انہیں دیکھ کر ۔ اللہ نے انہیں سنبھال لیا۔

Comments are closed.