یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟

 ٰشاداب مرتضی

PIA-afp

تین نوکروںکو گولی مار کے ہلاک کیے جانے کے بعد مالکنواز شریف نے پی آئے اے کے باقی نوکروںکو دھمکایا کہ اگر اب بھی باز نہ آئے تو نوکری سے نکال دیا جائے گا اور جیل میں سڑنے کے لیے ڈال دیا جائے گا۔ . عام زبان میں ان کا مطلب یہ تھا کہ سدھر جاؤ کمی کمینو۔ اپنی اوقات میں رہو۔ نوکر ہو نوکر رہو مالک بننے کی کوشش مت کرو۔ قومی ایئرلائن میری ذاتی ملکیت ہے میں اس کا جو چاہوں کروں۔ تم کون ہوتے ہو بیچ میں ٹانگ اڑانے والے!۔

اس کے ساتھ ہی منتخبجمہوری حکومت کی جمہوریت پسندی کا لبادہ بھی پوری طرح اتر گیا اور یہ بات بے شمار مرتبہ کی طرح ایک بار پھر سچ ثابت ہوئی کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت دولتمند، حکمران طبقے کی جمہوریت ہے۔ عوام کو اس جمہوریت میں صرف اتنی آزادی ہے کہ وہ ووٹ ڈال کر دولت مند حکمران طبقے سے کسی ایک یا دوسرے فرد کو حکومت کے لیے یعنی اپنے ہی استحصال کے لیے منتخب کر سکیں۔

نواز شریف سمیت ہر ذی ہوش شخص کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پی آئی اے کسی حکومت یا سیاسی جماعت یا لیڈر کی نجی ملکیت نہیں بلکہ یہ ریاستِ پاکستان کاایک قومی ادارہ ہے جسے عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے قائم کیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ پاکستانی ریاست کی اور اس عوام کی ملکیت ہے جس نے ٹیکس دے کر اس ریاست کی ترقی میں اپنا خون پسینہ نقد و نذر کیا ہے۔ یہ کسی پرائیوٹ کمپنی یا گروپ آف کمپنیز کا بزنس نہیں۔ یہ اس میں کام کرنے والے ملازموں کی وجہ سے چلتا ہے اور اسی لئے جب اس کے کل پرزوں نے،اس کے ملازمین نے ہڑتال کی تو اس کا چلنا بند ہو گیا۔

اس قومی ادارے میں کرپشن اور خسارے کا بہانہ بنا کر اسے بیچنے کی کوشش محض ایک جعلسازی ہے۔ اس ادارے میں ساری کرپشن کرپٹ سیاسی جماعتوں، ان کے وزیروں اور ان کے منظورِ نظر اعلی حکام کی ملی بھگت سے کی جاتی ہے۔ تنخواہ پر کام کرنے والے درمیانے اور نچلے درجے کا ملازم اپنے ادارے کے لئے مختص فنڈ میں کرپشن نہیں کرسکتا کیونکہ فنڈ تک اس کی رسائی ہی نہیں ہوتی۔مسلم لیگ کے وزیر پیٹرولیم شاہدخاقان عباسی کی نجی ایئر لائن تو منافع کما رہی ہے لیکن قومی ایئر لائن خسارے میں جا رہی ہے۔!

وہ خط میڈیا میں دکھائے گئے جنہیں وفاقی اور صوبائی حکومت نے بقول میڈیا رینجرز کو لکھا تھا اور قومی تنصیباتکی حفاظت کے لئے رینجرز کو تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ وزیر اعلی سندھ نے مرنے والوں کے خون کی قیمت بیس لاکھ اور زخمی ہونے والوں کے لئے دو لاکھ فی کس کا اعلان کیا گویا مرنے اور زخمی ہونے والے انسان نہیں بلکہ کوئی نقصانہیں جسے پیسے ادا کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔ واقعے پر انکوائری کمیشن بٹھانے کی بھی حامی بھری. لیکن انکوائری کمیشن کا کیا ہو گا سب جانتے ہیں۔ یہ محض دکھاوے کے آنسووں کی سوا کچھ نہیں.۔

سندھ حکومت اور وفاقی حکومت میں ان بن اور محاذ آرائی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔وفاقی حکومت یعنی مسلم لیگ نواز کا الزام ہے کہ مخالفسیاسی جماعتیں اس معاملے میں ملوث ہیں اور نجکاری کے خلاف ردعمل سیاسی سازش ہے۔ یہی مسلم لیگ نواز پچھلے دورِ حکومت میں بینر لے کر پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف سڑکوں پر نکلی تھی!

سندھ کی صوبائی حکومت یعنی پیپلز پارٹی نے اس واقعے کی سخت مذمت بھی کی اور رینجرز کو خط بھی لکھ دیا کہ پی آئے اے کے ملازمین کے احتجاج سے قومی اثاثوںکے تحفظ کے لئے تعینات ہو جائی۔ واقعے کے بعد رینجرز اور پولیس کے قاتلان،مجرمان، غیرآئی، غیر جمہوری، عوام دشمن اقدام کے خلاف مقدمہ درج کرکے سندھ حکومت نے ازخود کارروائی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی۔

پیپلز پارٹی کی اس منافقانہ پالیسی سے اس کے اور وفاقی حکومت, یعنی مسلم لیگ نواز کے عزائم میں سطحی اختلاف کی وقتی نوعیت صاف ظاہر ہے۔ پیپلز پارٹی کو عوام سے زیادہ اپنی حکومت پیاری ہے. یہ پیاری حکومت ایسی ہے کہ مٹھی ہسپتال میں ایک مہینے میں بھوک اور بیماری سے ڈیڑھ سو کے قریب بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے وڈیرے لیڈر کروڑوں, اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

رینجرز نے احکامات کی بجاآوری میں عوام دشمن کردار نبھایا۔ ریاست کے ملازموں پر، شہریوں پر، جن کی حفاظت ان کا پیشہہے اور جن کے یہ محافظہیں انہی پر لاٹھیاں بھی برسائیں اور پھر گولی بھی چلا دی اور اس طرح قوم کا،عوام کا, پاکستان کے شہریوں کا محافظہونے کا اپنا حق ادا کردیا۔ پھر رینجرز کے حکام نے اس بات کو جھٹلانے کے لئے دعوی بھی کردیا کہ گولی رینجرز نے نہیں چلائی۔.

میڈیا کی منافقت بھی اس طرح ظاہر ہو گئی کہ میڈیا یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ لاٹھیاں اور گولی کھانے والے مظاہرین جھوٹ بول رہے ہیں کہ گولی رینجرز نے چلائی یا رینجرز حکام سچ بول رہے ہیں کہ گولی رینجرز اہلکاروں نے نہیں چلائی!۔

واپڈا کی نجکاری کے خلاف واپڈا کے ملازمین بھی سراپا احتجاج ہیں۔ قومی ایئرلائن کے ملازموں کی جدوجہد سے ان کو بہت حوصلہ ملا ہے۔ انہوں نے بھی اپنی جدوجہد کو مزید تیز کردینے کا اعلان کردیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ مطالبات نہ مانے تو سیاسی لیڈروں کی, بڑھے گھروں کی بجلی بند کردی جائے گی۔ نیشنل بینک کے ملازموں کو بھی اس نجکاری کے خلاف اس ابھرتی ہوئی تحریک میں جلد از جلد شامل ہوجانا چاہیے کیونکہ نیشنل بینک کی نجکاری کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔

سرکاری ملازمت, عوام کو روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے حکومت کوئی بھی ہو۔ قومی اداروں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی، ہمیں مقروض بنانے والی جونکوں کی پالیسی کے تحت نجی سرمایہ داروں کو بیچ کر عوام سے سرکاری ملازمت چھیننا عوام کے بنیادی شہری اور جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالنے کے برابرہے۔ نجی ملازمت میں کوئی جاب سیکیورٹی نہیں ہوتی اور روزگار کو ملازمکا حقتسلیم نہیں کیا جاتا۔

نجکاری کے ذریعے ریاست بھی نجی کمپنیوں کی غیرآئینی اور غیرجمہوری قانون شکنی کی روک تھام کی زمہ داری سے خود کو بری الذمہ کرلیتی ہے اور قرض اتارنے کے بہانے نجکاری کے تحت قومی اداروں کو بیچ کر قومی معیشت کو مزید کمزور کرتی ہے۔ اس کا اصل محرک کرپشن کرنا اور عوام کی ٹیکسوں سے بنے قومی اداروں کو حکومتی طاقت کے ذریعے حیلے بہانوں سے اپنی یا اپنے منظورِ نظر افراد کی نجی ملکیت بنانا ہوتا ہے۔ اگر نجکاری سے قرض اترتا ہے تو ملکی قرضے میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے!۔

روزگار،اچھا اور مستقل روزگار ریاست کے ہر باشندے کا حق ہے۔ اسے یقینی بنانا ہر ریاست کا فرض ہے۔کوئی بھی حکومت اس جمہوری،عوامی حق کی حق تلفی کر کے خود کو ملکی مفادکا نگہبان و پاسبان کہلوانے کے لائق ہر گز نہیں۔ اگر ریاست روزگار نہیں دے سکتی،مکان نہیں دے سکتی, تعلیم اور صحت کی سہولیات نہیں دے سکتی تو ریاست کو ٹیکس دینا بھی باشندوں پر فرض نہیں! لیکن ریاست عوام سے بے انتہا ظالمانہ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ صرف پٹرول کی فروخت سے ریاست ایک ماہ میں تیس ارب روپے کما رہی ہے! تیل کی قیمتوں میں نصف سے زیادہ کمی کے باوجود ایک عام آدمی کو پٹرول اسی روپے لیٹر مل رہا ہے!

نجکاری اور بیرونی قرضوں کےذریعے ملک کو ترقی دینے کی پالیسی ملکی معیشت کو مزید تباہی کی جانب لے جائے گی۔ تمام عوام دوست حلقوں کو متحد ہو کر اس پالیسی کی سخت مزاحمت کرنی چاہیے اور حکومت کی غنڈہ گردی اور کرپشن کا سخت ترین محاسبہ کرتے کوئے بنیادی شہری حقوق بشمول روزگا،مکان, تعلیم اور صحت عامہ کا پرزور مطالبہ کرنا چاہیے.

Comments are closed.