اس روز کیا ہوا تھا ….کہانی 



فففہمیدہ ریاض

شروعات تو ایک بین الاقوامی لٹریچر فیسٹول کے عین بیچوں بیچ ہوئی تھی۔.
ہال آخری کرسی تک بھرا ہوا تھا ۔ شرکت کرنے والے سب ادیب سٹیج پر پردے کے پیچھے ایک لمبی سی میز کے چاروں طرف بیٹھے تھے۔ حاضرین اور شرکا ، دونوں ہی پردہ اٹھائے جانے کے منتظر تھے۔ لیکن تب ہی ایک ایسی موت کی خبر آگئی کہ ہال میں افراتفری سی پھیل گئی۔ جانے کس وقت ڈوری کھینچ کر کسی نے سٹیج کا پردہ بھی اٹھا دیا تھا۔ادیب اور دانشور سٹیج سے نیچے اترنے لگے ۔فیسٹیول میں آنے والے بھی اپنی کرسیوں سے اٹھ گئے تھےاور چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوںمیں باہر جانے کے لیئے دروازوں کی طرف جارہے تھے۔

 
ہال ایسا منطر پیش کر رہا تھا جیسا کسی بھی لٹریچر فیسٹول میں افتتاحی سیشن ختم ہونے کے بعد کسی ہال میں نظر آتا ہے اس بھیڑ میں مجھے وہ جوان سال، خوش شکل افسانہ نگار نظر آیا جسے افتتاحی خطبہ یا کی نوٹ سپیچ پڑھنی تھی ۔ہلکے نیلے سوٹ میں وہ وجیہ نظر آرہا تھا اور اس کا چہرہ ہمیشہ کی طرح پر سکون تھا۔۔لیکن میں نے دیکھا کہ اس کی سیاہ کٹیلی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ میں سمجھ سکتی تھی کہ اس پر اس اچانک موت کی خبر کا اثر ہے اس نے دونوں ہاتھوں میں کچھ کاغذات اور ایک کتاب پکڑ رکھی تھی، ڈبڈبائ آنکھوں سے اس نے مجھ پر ایک نظر ڈالی ۔ ہم نے سنجیدگی سے ایک دوسرے سے ایک آدھ بات کی ۔ اور پھر ہم جدا ہو گئے ۔

اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو ان کے گھر میں پایا ۔ فیسٹی ول کسی اور ایشیائی ملک میں ہو رہا تھا ۔۔۔فیسٹیول تو خیر ہو نہیں پایا لیکن مین اپنے ہوٹل واپس جانے کے بدلے اب ان کے گھر میں تھی ۔۔کون تھے وہ ؟ چہرے کے نقوش سے کوئی ساوتھ انڈین ادیب لگ رہے تھے۔ کیا نام تھا ان کا ؟اب یہ سب لکھنے کے لیئے مجھ کو انہیں کوئی نام تو دینا ہی پڑے گا۔ مین ان کو الف تو نہیں کہہ سکتی کیونکہ وہ پہلے مرد ادیب تو نہین تھے جو مجھے اتنے اچھے لگ رہے تھے۔اور نہ ہی میں ان کو ی کانام دے سکتی ہوں ۔ وہ کیوں ؟میں وجہ کے بارے میں اعتماد سے نہیں بتا سکتی سواے اس کے کہ میری طبیعت اس طرف مایل نہیں ہے ۔تب مین ان کو بس وہہی کیوں نہ کہوں ۔

ان کے کمرے میں ایک آرام کرسی پر نیم دراز میں سکون سے ان سے باتیں کرنے لگی ۔ یہ شاید ان کی سٹڈی تھی ۔دیواروں پر چوبی شیلف لگے تھے جو کتابوں سے بھرے تھے ،دوسری دیوار پر ایک پرانی جینی پینٹنگ لگی تھی جس پر تپا ئی پر رکھے لیمپ کی روشنی پڑ رہی تھی کیا یہ جینی ہیں ؟ میں نے دل میں سوچا لیکن پوچھنا مناسب نہ لگا ۔ہمارے سامنے میز پر بھی کاغذ اور قلم رکھے تھے ۔
کتنی ڈھیر سی باتیں میں نے ان سے کیں ۔ان کے چہرے پر مسرت بھری مسکراہٹ تھی ۔یاد نہیں چشمہ لگایا تھا یا نہیں ۔ بال بالکل سفید تھے ۔۔میری ہی عمر کے رہے ہوں گے ۔ انہون نے ململ کا سفید کرتہ اور چھوٹی مہری کا سفید پایجامہ پہن رکھا تھا ۔۔صاف ظاہر تھا کہ میرے آنے سے وہ بہت خوش تھے ۔ان کی اس خوشی پر کیسا مسرور تھا میرا دل ۔۔مسرور ۔۔اور مشکور بھی ۔۔
ہماری گفتگو کا رخ ژاں پال سارتر کے ناولوں کی طرف مڑ گیا ۔۔میں نے ان سے سارتر کی سہ جلدی سلسلہ وار ناولوں کے بارے میں پوچھا ، کیا آپ نے ایج آف انو سینس پڑھی ہے میں نے سارتر کے دوسرے ناول کے انگریزی ترجمے کے بارے میں پوچھا ۔ فورا ہی مجھے یہ خیال بھی آیا کہ اس عنوان کا تو کوئی ناول شاید سارتر نے نہیں لکھا ہے ۔ وہ مسکراتے ہوے مجھ سے باتیں کرتے رہے ۔
میں ان سے دھیرے دھیرے گفتگو کرنے میں اتنی مشغول تھی کہ میری توجہ ہی اس طرف نہ گئی کہ کمرے میں ایک بستر بھی تھا۔وہ نہ سنگل بیڈ تھا اور نہ ڈبل بیڈ ۔۔بلکہ دونوں کے بیچ میں ہی کہیں اس کا سایز ہوگا کیونکہ جب میں اس پر ان کے ساتھ لیٹی تو مجھے ذرا بھی تنگی محسوس نہ ہوئی۔

باتوں ہی باتوں میں کتنا وقت گزر گیا تھا ۔پتہ ہی نہ چلا۔۔شام ڈھل چکی تھی ۔اب تو ان نیلے پھولدار پردوں کے پرے ایک خاموش پر سکون رات پھیلی تھی ۔
ہم ایک دوسرے کی طرف رخ کیے لیٹے تھے ۔ ایک نرم چادر ہمارے جسموں کو ڈھانپے ہوئے تھی۔۔میں نے دونوں ہاتھوں کے حلقے میں ان کے چہرے کو لیکر ان کی آنکھوں میں جھانکا اور کہا میں ستر برس کی ہوں ۔۔زندگی بھر صرف اسی لمحے کے لیئے ترسی ہوں ۔ ایسے کسی مرد کے لیے جو مجھے چاہتا ہو ، خوش ہو میری رفاقت سے اور جس کے لیے میرے دل میں غصے اور رنج بھرے یہ خیال نہ ہوں کہ اس نے میرے ساتھ کتنا برا سلوک کیا ہے ، میں جسے بنا گھٹن اور پچتاوے کے ، آزاد اور خوشی بھرے دل کے ساتھ پیار کر سکوں ۔
مولسری کے نارنجی ڈنھٹل والے ننھے پھولوں کے سے بوسوں کی بوچھاڑ میں ، میں جھلکیوں میں دیکھ سکتی تھی ان کے چہرے پر مسرت ۔ ہلکا سا تعجب اور لمحوں میں ہی بہت سہانا سمے آنے کی امید اور یقین ۔۔۔اور اس کے بعد ایک طویل بوسہ ۔۔۔۔جس کے بعد میں ایک گہری نیند میں ڈوب گئی ۔

آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی ۔ساتھ کے کچن میں ان کی بیٹی شاید برتن دھو رہی تھی ۔ سنک پر نل کا پانی گرنے کی آواز مجھے صاف سناِ ئی دے رہی تھی ۔۔ہم دونوں ایک دوسرے کے بازووں میں جاگ رہے تھے ۔مسرور، پر سکون اور مطمئن ۔۔۔برتن دھونے کے ساتھ ان کی بیٹی پکار کر ان کے ساتھ ایک آدھ بات بھی کر لیتی ۔تب ہی ان کی نواسی کمرے میں داخل ہوئی۔

سوتی پھولدار ، بغیر آستین کا فراک پہنے وہ کوئی سات آٹھ سال کی بچی تھی ۔بالکل میرے اپنے نواسے کی عمر کی ۔۔ لگتا تھا وہ بھاگتی ہوئی آئی ہے ۔ اس نے اپنے نانا کو بتانا شروع کیا کہ اس نے ان کے پانچوں کتے کے ننھے بچوں کو ڈھونڈ نکالا ہے لان میں دور دور پھولوں کی جھاڑیوں میں چھپ گئے تھے اور اب وہ ان کو واپس لے آئی ہے ۔۔اچھا ۔۔ تو یہ کتے بھی پالتے ہیں ۔ ۔ ۔ میں نے سوچا ۔اور یہ بھی کہ ، کہ اس گھر کے چاروں طرف ایک بہت وسیع و عریض گھاس کا ہرا بھرا میدان ہے جس کی حد بندی پھولوں سے بھری جھاڑیاں کر رہی ہیں۔

نہایت خوشگوار حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کی بیٹی اور نواسی ۔ دونوں ہی اس صبح مجھے ان کے بستر میں پاکر ذرا بھی حیران نہیں ہوئی تھیں اور نہ ہی اسے کوئ معیوب بات سمجھ رہی تھیں ۔ تب میں نے بھی زندگی کے اس تحفے کو کھلے دل سے سویکار کیا ۔۔۔کسی بھی طرح کی گھبراہٹ اور شرمندگی سے آزاد وہ لمحے ۔۔۔وہی تو تھے زندگی کا بیش بہا سرمایہ ۔۔۔
بستر سے اٹھ کر اور پیروں میں شب خوابی کے کمرے کے سلیپر ڈال کر وہ باہر جانے لگے ۔۔ان کی کھلنڈری نواسی بھی ان کے پیچھے ہولی ۔۔مجھے ساتھ کی رسوئی سے چائے کی خوشبو آرہی تھی ۔ جانے سے پہلے اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا تو میں نے انگلی اٹھا کر، مسکراتے ہوئے اس سے کہا ، اس وقت تو مجھے بھی چاہیئے ۔۔۔صرف ایک کپ چائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تب ہی میری آنکھ کھل گئ ۔۔گھر کی ملازمہ لچھمی مجھ سے پوچھ رہی تھی ۔۔چاے پیو گی باجی ؟

ہڑبڑا کر میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی اور اثبات کا ہنکارہ بھرا ۔کھڑکیوں پر پردے پڑے تھے اور کمرے میں بالکل اندھیرا تھا ۔ نکلتے ہوے لچھمی نے بجلی جلا دی ۔آنکھوں کو روشنی کی اچانک یلغار سے بچاتی ، میں چند سیکنڈ میں ہی مکمل بیدار ہو گئی۔۔۔افوہ ۔۔۔تو یہ میں نے خواب دیکھا تھا ؟اور وہ بھی سہ پہر میں ؟اتنا باتفصیل اور سہانا خواب ؟حیرت اور خوشی سے بستر پر اکیلی بیٹھی پلکیں جھپکاتی مسکراتی رہی ۔۔ایسا خواب تو پہلے میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا ۔۔کس طرح دیکھ لیا میں نے یہ خواب ؟ مجھے خوشی سے زیادہ حیرت تھی ۔۔خواب یا تو میں دیکھتی ہی نہیں اور اگر کبھی کبھار نظر آجائیں تو بالکل بے ربط ہوتے ہیں ۔
لچھمی میرے لیے چائے لے آئی۔چائے پیتے ہوئے میں یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس دن کیا واقعات ہوئے تھے جنہوں نے اس غیر معمولی طور پر خوشگوار ، مسرور اور مطمئن خواب کو راستہ دیا ۔وہ سنیچر کا دن تھا اور دفتر کی چھٹی تھی ۔دو تین دن سے جو میں سوچ رہی تھی کہ تمام دوائیں ختم ہو رہی ہیں اور اب مہینے بھر کی رسد لانی ضروری ہو گئی ہے تو میں یہ کر سکی تھی ۔

دواوں کے بل کے مطابق میرے پرس سے کافی پیسے بھی نکل آئے تھے ، حالانکہ میں نے خون میں شکر ناپنے والے گھریلو آلے کی سٹرپس کا پیکٹ بھی خریدا تھا جو بہت مہنگا ہوتا ہے اور دواوں کا بل چکاتے ہوے ہر بار مجھے جو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ میرے پرس سے جو رقم بر آمد ہوگی اس میں ایک دو سو روپے بل کی رقم سے کم نہ ہوں ۔ کیونکہ اپنی لاپروائ اور غایب دماغی کے باعث میں کبھی ٹھیک سے گن ہی نہیں پاتی ہوں کہ پرس میں کتنے پیسے ہیں ، وہ بھی غلط ثابت ہوا تھا ، بلکہ پیسے بچ گئے تھے اور چھٹی کے دو دنوں میں اچانک کیش کے بغیر ہو جانے کا بھی اندیشہ نہیں تھا، اس لیے یہ ضروری کام ختم کر کے میں نے بہت اطمینان محسوس کیا تھا اور گھر لوٹ کر آرام سے کھانا کھایا تھا ، پھر ایک کتاب پڑھتے ہوئے، چار یا ساڑھے چار بجے تک میری آنکھ لگ گئ تھی ۔

وہ کتاب مجھ کو بہت اچھی لگی تھی۔ایک عورت ادیب کی لکھی ہوئی کتاب تھی جس کی نثر اتنی خوبصورت زبان میں لکھی تھی کہ اس پر شاعری کا گمان ہوتا تھا ۔۔۔بہت عرصے سے اب اردو فکشن میں ایسی نثر کا قاعدہ نہیں رہا۔۔میں سوچ رہی تھی ۔۔اس میں پنجاب کے گھنے جنگلوں اور گھاس کے میدانوں کا ذکر تھا ۔
چاے کی پیالی میز پر رکھ کر میں پھر یہ سوچ کر مسکرائی کہ میرے خواب کے ّوہ ساوتھ انڈین کیوں تھے ؟ بس اس لیے کہ میں نے ایسا پڑھ اور سن رکھا ہے کہ ساوتھ انڈین ہم پاکستانیون یا نارتھ انڈیا کے باسیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ماڈرن ہوتے ہیں ۔۔تو وہ جگہ جہاں وہ مجھ سے ملے ، اسے مدراس ہونا چاہیئے ۔۔۔یا کیرالہ کا کوئی شہر ۔۔۔اور میں تو دونوں ہی جگہ نہیں گئی ہوں کبھی ۔۔۔

چند دن پہلے ،ایک لٹریچر فیسٹول کے لیے مجھے ایک دوسرے شہر سے بلاوا تو آیا تھا لیکن میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ اگر وہ مجھے کوئ عوضانہ نہیں دیتے تو میرا آنا نا ممکن ہوگا ۔۔اس روز صبح کے اخبار میں اس فیسٹیول کا پورے آدھے صفحے کا اشتہار چھپا تھا ۔۔جن مذاکروں میں مجھے شرکت کرنی تھی ، وہاں اب دو سرے نام لکھے تھے ۔ نہ چاہتے ہوے بھی مجھے افسوس ہوا تھا ۔۔دل چاہا تھا ۔۔۔اگر میں وہاں ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔۔۔لیکن پھر اپنے فیصلے پر دوسری نظر ڈال کر میں نے اسے درست ہی پایا تھا ۔۔۔ کم از کم اس فیصلے پر مجھے کوئ پچھتاوا نہ تھا ۔۔اور پھر ۔ یہ سوچ کر میں تھوڑا ہنسی کہ خواب نے اول حصے میں ہی ایک موت کی خبر کے ذریعے اس فیسٹول کو تو ناکام بنا ہی دیا تھا ۔۔۔۔
لچھمی خالی پیالی لینے واپس آئی۔میں نے اسے غور سے دیکھا تو خیال آیا ۔۔خوابوں کا تعلق آپ کے کھانے سے بھی تو ہوتا ہے ۔یاد آیا ۔۔کڑھی اور چاول کھائے تھے ۔۔بہت مزے دار ، رائی میتھی کے بگھار کی کڑھی پکاتی ہے لچھمی ۔۔۔اور چاول بالکل تھوڑے سے لیے تھے ۔۔اب توسب ڈاکٹر یہی کہنے لگے ہیں کہ اگر بالکل تھوڑا سا لیں تو کچھ بھی کھا سکتے ہیں ۔۔دل کی اور خون میں شکر کی بیماریوں کو نقصان نہ ہوگا ۔ میرا ڈاکٹر بھی یہی کہتا ہے اور پھر ۔۔۔ میں نے ساتھ ہی دوا بھی تو کھا لی تھی۔۔۔

دروازے سے باہر جاتی لچھمی کے پیروں کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی ۔۔کہتے ہیں کھانا اوردوا کھا کر فورا سونا نہیں چاہیئے اور میں نے آج بالکل ایسا ہی کیا تھا۔۔ پھر بھی اتنا اچھا ، پر تفصیل ، با ربط ، مکمل خواب دیکھا ۔۔۔آہ ۔۔یہ خواب جن کو رویا کہتے تھے کبھی ۔۔۔جن کی تعبیریں بیان ہوا کرتی تھیں ۔۔کیا تعبیر ہو گی میرے اس خواب کی ؟ پھر خیال آیا کہ وہ تو اول صبح ، یعنی صبح کاذب کے خواب ہوتے تھے جن کو سچا مانا جاتا تھا ۔۔الفاظ کا کھیل ۔۔۔میں سوچنے لگی ۔۔۔جھوٹی صبح کے سچے خواب ۔۔۔۔ اس سہ پہر کے خواب میں تو میں سوئ اور پھر جاگی بھی تھی ۔۔ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں ۔۔غالب کا مصرعہ یاد آیا ۔۔۔اوہ غالب ۔۔۔۔

اب مجھے یہ بھی یاد آگیا کہ سارتر کے ناول کا نام ایج آف انوسنس نہیں ، ایج آف ریزن تھا ۔۔خواب میں نام بھول گئی تھی ۔۔کیا خواب میں بھی ہم کچھ بھول جاتے ہیں ؟ حیرت سے سوچا ۔۔۔معصومیت کا نہیں ، ہوش و خرد کا دور ۔۔۔۔نہ جانے معصومیت کا دور کا نام اس ناول کو میں نے کیوں دے دیا تھا ، لیکن ، مجھے خیال آیا ، اور اس پر میں کچھ ہنسی ، کہ خواب میں بھی مجھے اس نام پر شک ضرور تھا ۔

Comments are closed.