جو ہم پہ گزری

sibte hasanسبط حسن گیلانی۔ لندن 

یہ ایک ایسے سیاسی رہنما کی داستان حیات ہے۔جس کا سفر سنگلاخ وادیوں میں گزرا۔ایسے دشوار گزار سفر سرُعت سے طے نہیں ہوتے۔یہ سفر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر منزلیں طے کرنے جیسا بھی نہیں ہوتا۔اور نہ ہی جدید ذرائع جیسا۔یہ تو سنگلاخ اور خار دار وادیوں کا وہ سفر ہے جو قدم بہ قدم طے ہوتا ہے۔اور بعض اوقات ایک قدم سے دوسرے قدم تک عمریں بیت جاتی ہیں۔سچ کی راہ کا سفر ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔غالب نے کہا تھا۔

کا نٹوں کی زباں خشک ہوئی پیاس سے یا رب 
اس وادی پُرخار میں کوئی آبلہ پا آوے

یہ ایسے ہی ایک آبلہ پا کی کہانی ہے۔ جس کانام کامریڈ چوہدری فتح محمد ہے۔جو اپنی دھرتی اور مٹی سے جڑا ہوا ایک کسان ہے۔ اور اپنی برادری کا ایک پرخلوص رہنما۔وہ اب اپنی عمر کے آخری پڑاو پر بیٹھے ہمیں گزرے دنوں کی کہانی سُنا رہے ہیں۔یہ کہانی ایک ایسی جدو جہد کی کہانی ہے۔جس کا ایک ایک پل شکر دوپہروں اور دھول مٹی سے اٹے ہوے راستوں پر بسر ہوا ہے۔اس لیے کہ بنی نوع انسان کے جس اکثریتی قبیلے کو بیدار کرنے کی خاطر یہ جدو جہد کی گئی اس کا سائبان آج بھی آسمان ہی ہے ۔

اس کے راستے اور کچے گھروندے آج بھی دھول مٹی سے اٹے ہوے ہیں۔یہ طبقہ آج بھی اس حال میں ہے کہ جسم ڈھانپے تو پاوٗں ننگے ہی رہتے ہیں۔جس کا کام ہی اس کی پہچان ہے۔ مزدور اور کسان۔چوہدری فتح محمد اپنے لڑکپن میں ہی بٹوارے کے ہاتھوں بے گھر ہو کر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پناہ گزین ہوئے۔وہاں ہی سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جو اُن کی نوے سال سے متجاوز زندگی میں آج بھی جاری ہے۔انہوں نے جو خواب اپنے لڑکپن میں دیکھا تھا۔جس کی تعبیر صرف اتنی سی ہے کہ صدیوں سے آبلہ پا مزدور وں اور کسانوں کے اس تھکے ہارے طبقے کو سُکھ کی چند گھڑیاں نصیب ہو سکیں۔ یہ تعبیراور منزل ہنوز دور ہے۔لیکن خواب ابھی مرا نہیں ہے۔وہ اپنی کہانی سُنا چکتے ہیں تو اُمید بھرے دل سے یہ کہتے ہیں۔

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صورت ہزار کا موسم

اس سفر میں انہوں نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔شاہی قلعے لاہور کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں بند کیے گئے ۔ جہاں جواں سال خوب رو حسن ناصر کی زندگی چھین لی گئی ۔ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈے ان پر آزمائے گئے۔ مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔چوہدری صاحب بنیادی طور پر ایک سچے اور کھرے کسان ہیں، جو اپنے پھٹ کھول کر نہیں دکھاتا۔اپنی ہڈ بیتی لکھتے ہوئے انہوں نے ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ اپنے زخموں کی طرف اشارہ تو کیا لیکن انہیں کھول کر نہیں دکھایا۔ 

قیام پاکستان کے بعد بائیں بازو کی سیاست کا بھر پور آغاز 1957میں ڈھاکہ کے اندر عوامی نیشنل پارٹی کا قیام تھا۔یہ وہ پہلی جمہوری پارٹی تھی جس کی جڑیں مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود تھیں۔بعد میں چین اور روس کے دھڑوں میں بٹ کر اور ریاستی دباؤ کا شکار ہو کر یہ اپنی طاقت کھو بیٹھی۔اس کے بعد پی پی پی کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس پارٹی کا تعارف سنٹر لیفٹ کا تھا۔ اس نے نعرہ ہمیشہ بائیں بازو کا لگایا لیکن عملی سیاست ہمیشہ دائیں بازو کی کی۔پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست و نظریات کو جتنا نقصان اس جماعت نے پہنچایا اس کا حساب بہت بھاری ہے۔

چو ہدری صاحب ڈھاکہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے قیام کے وقت موجود تھے۔اس کے بعد چوہدری صاحب کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ مارچ 1970میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس کا انعقاد تھا۔ جس میں ریاست کے طول وعرض سے تقریباً ایک لاکھ کسانوں نے شرکت کی۔مولانا بھاشانی نے اس میں خصوصی شرکت کی تھی ۔جس کی بازگشت آج بھی سیاسی حلقوں میں سنائی دیتی ہے۔ اس کانفرنس نے آئندہ ملکی سیاست میں دور رس اثرات مرتب کیے۔اس حد تک کہ زرعی اصلاحات کے دومرتبہ کے ادھورے اور بے فیض اقدامات کے بعد آج بھی مزدوروں اور کسانوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس نے ملک کے طول و عرض میں سیاسی شعور کی ایک نئی لہر سی دوڑا دی تھی۔انہی دنوں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے بانی اور سربراہ اپنے سیاسی جلسوں میں فرمایا کرتے۔ تمہیں اللہ کی کتاب چاہیے یا روٹی۔ تو لوگ ہاتھ بلند کر کے کہتے حضور کتاب ہمارے گھر میں موجود ہے لیکن روٹی نہیں ہے۔بائیں بازو کی متفرق قوتیں اب عوامی ورکر پارٹی کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے تعلق رکھنے والے فاروق طارق کی سربراہی میں یہ جماعت بڑی دیر بعد عام آدمی سے تعلق جوڑ رہی ہے۔ 

چوہدری صاحب اپنے طویل سیاسی تجربے کے بل بوتے پر بتاتے ہیں کہ حالات ساز گار رہے تو بائیں بازو کی سیاست اگلے دس سالوں تک ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر اُبھرے گی۔وہ 2000کے بعد دو بار برطانیہ تشریف لا چکے ہیں۔وہ برطانیہ میں مقیم اپنے ہم خیال دوستوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں۔جن میں مشتاق لاشاری ،منیب انور،محمود خوشی ،احمد نواز وٹو اور عباس ملک جیسے معروف برطانوی سیاسی و سماجی رہنما شامل ہیں۔

چوہدری فتح محمد کی داستان حیات۔ جو ہم پہ گزری۔ایک ایسے سیاسی رہنما کی طویل جدو جہد کی داستان ہے۔جس نے اس کتاب کی صورت میں اپنے خوابوں سمیت ایک اہم تاریخی و سیاسی دستاویز بھی اگلی نسلوں کو سونپ دی ہے۔شکریہ چوہدری صاحب۔ اگلی نسلیں جب اس طویل سفر کی منزل پر پہنچیں گی تو آپ کا نام اور کام احترام سے یاد رکھیں گی۔

Comments are closed.