طالبان کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں

Taliban-militants-surrend-010

روس نے طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ کابل حکومت سے براہ راست امن مذاکرات کریں۔

روس نے افغان طالبان سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی مرکزی حکومت کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات کا آغاز کریں۔ روس کی طرف سے اس امید کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ایسا جلد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

روسی صدر کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوب زمیر کابولوو نے نیوز ایجنسی انٹرفیکس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ہم طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ایسا لڑائی کا آئندہ سیزن شروع ہونے سے پہلے پہلے کرلیں‘‘۔

روس کی طرف سے یہ تبصرہ افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان قیادت میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور ایک دھڑا مسلح کوششیں ترک کرنے پر تیار ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان نے کہا ہے کہ وہ انہیں کابل حکومت کی طرف سے مذاکرات کی کوئی باقاعدہ دعوت نہیں دی گئی ہے۔ طالبان کی طرف سے یہ بیان کابل میں ہونے والے اس مذاکراتی دور کے ایک روز بعد دیا گیا ہے، جس میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا شامل تھے۔ اس چہار فریقی رابطہ گروپ نے بھی طالبان سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی اپیل کی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ مذاکرات کا یہ دور مارچ کے پہلے ہفتے پاکستان میں ہوسکتا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا، ’’ہم اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں کوئی بھی باقاعدہ دعوت نامہ نہیں ملا۔ ہم یہ تمام باتیں صرف میڈیا کے ذریعے ہی سن رہے ہیں‘‘۔

طالبان کے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا پہلا دور پاکستانی سیاحتی مقام مری میں ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ خبریں منظر عام پر آئیں کہ طالبان کے لیڈر ملا عمر انتقال کر چکے ہیں، جس کے بعد مذاکرات کا یہ عمل منقطع ہو گیا تھا۔

بعدازاں ملا منصور کو طالبان کا نیا لیڈر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جو طالبان عسکریت پسندوں کے مابین تقسیم کا سبب بنا۔ ملا رسول کی قیادت میں ایک نیا گروپ تشکیل پایا اور اس نے ملا منصور کی قیادت چیلینج کر دیا۔

رواں برس جنوری میں پگواش امن تحریک نے قطر میں ایک سیمینار کا انعقاد کروایا تھا، جس میں طالبان رہنماؤں نے شرکت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے لیڈروں کے نام بلیک لسٹ سے نکالا جائے تاکہ ان کی آزادانہ نقل و حرکت ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ نیٹو کے باقی تیرہ ہزار فوجیوں کو بھی افغانستان سے نکالا جائے تاکہ مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا اب بھی کہنا تھا کہ وہ اس کانفرنس میں اپنا موقف واضح طور پر بیان کر چکے ہیں۔

DW

Comments are closed.