محبت گناہ نہیں ۔۔۔توفیق ہے

12491863_939910766100245_4230327276596795234_oعظمیٰ اوشو

ویلنٹائین ڈے منانا جائز ہے یا نا جا ئز؟ میری ناقص عقل کے مطابق تو اس پر بحث ایک لا حاصل بحث ہے۔ویلنٹائن ڈے منانا یا نا منانا خالصتاً کسی انسان کا ذاتی معاملہ ہے ۔اس میں ریاست کی مداخلت انتہائی بے ہودہ فعل ہے ،مگر اب کیا کیا جائے حکومت ہی شریف ہے تو وہ اپنی شرافت کا مظاہرہ کرنے کے واسطے ایسی پابندیاں لگانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔

ہاں یہ اور بات ہے حکومت کو نہ تو چائلڈ لیبر پہ کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی دیگر ایسی چیزوں پر جو ریاست کو مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بنتے جا رہے ہیں ۔

ویلنٹائن ڈے کو محبت کرنے والوں کا دن کہا جاتا ہے اور اس دن عموماً محبت کرنے والے ایک دوسرے کو پھول یا دیگر تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار یا تجدید محبت کرتے ہیں ۔اب ہمارے خطے میں دیکھا جا ئے تو نہ محبت کوئی نیا جذبہ یا مغربی پراپیگنڈا ہے نہ ہی اس سے وابستہ تہوار ۔ہمارے ہاں تخلیق ہونے والا ساراادب عشق کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے ۔مختلف میلوں ٹھیلوں پر محبوب سے ملاقات کی روایات بھی صدیوں پرانی ہیں، بے شمار لوک داستانیں مو جود ہیں جو صدیوں پرانی ہیں پھر سب سے بڑی بات جذبات کا اظہار اور انسانی فطرت کا بنیادی جز وہے۔

خوشی ہو یا غم محبت ہو یا نفرت اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ تہوار فقط جذبات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ اس سے وابستہ کمرشل ازم اور بد تمیزی کو چھوڑکر پھول دے کر محبت جیسے انسانی جذبے کے ا ظہار میں ریاست کی مداخلت سمجھ سے بالا ترہے۔ کیا ریاستی پابندیاں ان پھولوں اور ان سے وابستہ جذبات کو روک پائیں گی یقیناًنہیں ۔

پچھلے چند برسوں سے ٹیکنالوجی نے بے انتہا ترقی کی ،اس ترقی کی وجہ سے اب نیشن اسٹیٹ کا تصور کمزور ہوا۔ گلوبلائزیشن کو عام کیا اور اب دنیا وہ نہیں رہی جو ہمارے بچپن کے تصورات اور کتابوں میں تھی ۔اس میں بہت سے ایسی ثقافتی تہواروں کو دنیا میں بے پناہ پذیرائی ملی جس میں ایک ویلنٹائن ڈے بھی ہے۔ جسے محبت کا دن بھی کہا جاتا ہے ۔ محبت کے اس دن کی تاریخ تو 497 مسیح سے ملتی ہے مگر اسے پذیرائی انیسویں صدی میں ملی ۔

ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت کی بڑی وجہ وہ جذبہ ہے جو کسی بھی ایک قوم یا ثقافت کا نہیں ہے خالصتاً انسانی جذبہ ہے۔ ہمارے ہاں اس دن کی مخالفت غیر مذہبی ،غیر تہذیبی اور غیر ملکی کر کے کی جاتی ہے اوراس مقابلے میں ایک خاص سوچ رکھنے والا طبقہ پورا سال بے حیا رہتاہے اور صرف 14 فروری کو انہیں حیا نصیب ہوتی ہے ۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ یوم حیا منانے والی قوم پورن موویز سرچ کرنے میں نمبرون آنے والی باحیا قوموں میں شمار ہوتی ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محبت کرنا ہمارے کلچر کے برعکس قرار دینا مناسب نہیں ۔کیا محبت کرنا ہمارا کلچر ہے تو یقیناًاس کا جواب ہاں میں ہے ۔محبت ہیر رانجھا کے دیس کا کلچر ہے روز دریاوں کے سینے کو چیر کر مہینوال سے ملنے والی سوھنی بھی اسی دھرتی سے تھی۔ سسی پر پنوں کا فدا ہو جانابھی اسی تہذیب کا حصہ ہے ۔عمر ماروی کو چھین کر لے گیا۔ یہ ساری رومانوی کہانیاں ہمارے خطے کی ہیں اورسب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ محبت کسی مغرب یا مشرق کی میراث نہیں یہ خالصتاً انسانی جذبہ ہے تو پھر اس کے اظہار پر پابندیاں کیسی؟۔

کیا ایسی پابندیاں سوائے اس کے ایک خاص سوچ کی حوصلہ افزائی ہو سکے سے زیادہ ہو سکتی ہیں زندہ معاشروں میں جذبات پر پابندیاں نہیں لگائی جا سکتیں اوراس کی ایک مثال وفاقی دارلحکومت میں دیکھنے کو ملی کہ پیار کرنے والوں نے جمعہ کے روز ہی پھولوں اور دیگر تحائف کا تباد لہ کر کے ریاستی پابندیوں سے بغاوت کا اظہار کیا ۔14 فروری کو منایا جانے والا تہوار ایک ایسا ثقافتی تہوار ہے جسے مذاہب اور عقیدوں سے بالا تر ہو کر منایا جاتا ہے ۔یہ تہوار کسی ایک مذہب یا قومی روایت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ فقط محبت اور خوشی کے اظہار کا ذریعہ ہے ۔

شاید اس لیے اس تہوار نے تمام ثقافتوں میں جگہ پا لی ہے ہمارا ایسا ہی ایک تہوار بسنت ہوا کرتا تھامگر اب تو پتنگ اڑانے پر بھی فوجدار ی کی دفعہ لگتی ہے۔ اگر یہی چلن رہا تو کچھ سالوں بعد محبت کے اس دن کے ساتھ بھی یہی سلوک ہی ہو گا ۔

♥ 

2 Comments