طبقاتی شعور کیا ہوتا ہے اور کس طرح پیدا ہوتا ہے ؟

ارشدنذیر

0,,18929563_303,00

تمام مادیت پرستانہ فلسفے علم الوجود کے حوالے سے ’’شے‘‘، ’’وجود‘‘ اور اسکی ’’حقیقت ‘‘ کا مطالعہ جوہر اور عرض کو الگ الگ کرکے نہیں بلکہ اعراض کو جوہر ہی کا ماخذ اور مبداء تصور کرکے کرتے ہیں۔ حقیقت ، زندگی اور وجود کا ادراک شے کی تفہیم کے دوران تشکیل پاتے ہیں۔ جوہر و عرض کی حرکی خصوصیت اور معروض میں تبدیلی تغیر و تبدل کا سبب بنتے ہیں۔
عمومی حالات میں یہ تغیر و تبدل ارتقائی عمل کے تابع رہتا ہے ۔جدلیاتی مادیت کی تاریخ سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے ۔ قدیم انسان کی کشمکش قدرت ، قدرتی آفات ، موسموں کی ناموافقت اور اس ماحول میں اپنی بقاء کی لڑائی پر مشتمل تھی۔ یہ سفر کٹھن بھی تھا اور طویل بھی۔ معلوم انسانی تاریخ میں اجتماعی زندگی کی ابتدا اور اس کے سفر کا آغاز قبائل اور ان کے نظاموں کے حوالے سے شروع ہوتا ہے۔

ابتدائی انسانی سماجوں میں اجتماعیت اور اشتراکت کا عنصر غالب تھا اور یہی انسان کی بقاء کا ضامن بھی تھا۔ سماج اپنے ارتقائی سفر میں غلام داری ، جاگیرداری اور سرمایہ داری جیسے سماجی اور سیاسی نظاموں کے ادوار سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ قبائل کے ادوار میں انسانی شعور نے اجتماعیت اور اشترا کیت ہی کو اپنی بقاء کا ذریعہ گردانا۔ بعد کے غلام داری ، جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام میں سماج اور فرد کے درمیان معاشی بنیادوں پر تعلقات بدلنا شروع ہو گئے اور پیداوار اور ذرائع پیداوار پر قبضے کی بنیاد پر فیصلہ سازی کا عمل شروع ہوا ، یہاں سے انسانوں کا استحصال انسانو ں ہی کے ذریعے سے شروع ہو گیا۔
ملکیت اور قبضے کے اس شعوری فیصلے کے ساتھ ہی اس کو مضبوط و مستحکم رکھنے کی خواہش نے بھی جنم لیا ۔اس خواہش کو عملی شکل دینے کی تمام تر شعوری کوششیں کو ہی سیاسی کشمکش کہا جاتا ہے۔ یہی سیاسی کشمکش جدلیاتی مادیت میں طبقات کی کشمکش کے طور پر جانی جاتی ہے۔ مادی فلسفے میں تمام انسانی تاریخ دراصل طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے اور معاشروں کی تمام تر ترقی اسی کشمکش کی وجہ سے ہے۔
اب ہم اس سیاسی شعور سے منسلک چند ایک اہم سوالات کی طرف بڑھتے ہیں۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ آیا کہ طبقات کو خود بھی سماج میں اپنے مقام اور حیثیت کا شعور ہوتا ہے یا نہیں؟ اس سے جڑا ہوا دوسرا سوال کہ اگر استحصال زدہ طبقے کو اپنے مقام اور حیثیت کے بارے میں شعوری آگاہی ہے تو پھر بغاوت اور انقلاب کیوں نہیں آجاتا ؟ تیسرا سوال یہ کہ بغاوت اور انقلاب محض طبقاتی مقام اور حیثیت کا شعور حاصل کرلینے سے ہی آجاتا ہے یا اس کے لئے معروضی حالات کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے ؟

ان سوالات کے جوابات کے لئے ضروری ہے کہ سماجوں کے تاریخی پسِ منظر ، ان کی معاشی، سماجی ، ثقافتی اور اخلاقی بنیادوں کا جائزہ لیا جائے ۔ یہ بات طے ہے کہ مختلف سماج معاشی، سماجی، ثقافتی ، اخلاقی اور سیاسی حوالوں سے مختلف سطحوں پر ہیں ۔ اگرچہ یہ سوال بھی کہ وہ ان مختلف سطحوں پر پہنچے کیسے برابر اہمیت کا حامل ہے لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے۔ لہٰذا ابھی ہم اس مفروضے پر یقین کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مختلف سماجوں کی مختلف سطحوں کے طبقاتی شعور کا درجہ بھی مختلف ہوتا ہے۔

بات کو زیادہ قابلِ فہم بنانے اور اپنی سہولت کے لئے ہم سماجوں کو دو مختلف گروپوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک مغربی سماج ہے جس نے تعقلیت پسندی اور سائنسی علوم کو اپنالیا ہے ۔ اسی منطق اور تعقلیت کی بنیاد پر ان کے سماجی رویے بھی ترتیب پائے ہیں۔ یہی منطقی اور تعقلیت پسندی کا سماج رحجان اس کے افراد کے سیاسی شعور کا سبب بنا۔

اس کے برعکس دوسراوہ سماج ہے جو تعقلیت پسندی اور سائنسی علوم کو اپنانے میں پیچھے رہ گیا ہے۔ ایسے سماج کے اپنے سماجی ، معاشی، سیاسی، ثقافتی ، اخلاقی اور مذہبی رویے ہوتے ہیں جن کی بنیاد تعلقیت پسندی اور منطق کے بجائے زیادہ جذباتیت اور قدیم روایات پر مبنی ہوتے ہیں ۔ انسانی شعور انہیں میں ترتیب پاتا ہے ۔ ان دونوں سماجوں کی ترقی میں بھی فرق ہوتا ہے اور ان کے افراد میں طبقاتی کشمکش کی آگاہی بھی مختلف ہوتی ہے۔

یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ پسماندہ سماجوں میں طبقاتی شعور ہوتا ہی نہیں ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ استحصال سے منسلک اذیت کو انسان محسوس ہی نہ کر سکے۔ پسماندہ سماج میں بھی استحصال زدہ طبقہ معاشی استحصال کو محسوس کرتا ہے ۔ ثقافتی طور پر وہ اس کوظلم و زیادتی کا نام دے دیتا ہے۔ایسے سماجوں میں مختلف شعبوں میں استحصال جاری رہتا ہے ۔ یہ انفرادی اور کبھی کبھار چھوٹے چھوٹے گروہوں کی بغاوتوں کی صورت میں اپنا اظہار کرتا ہے ۔ لیکن ایسے سماجوں میں کوئی منظم احتجاج جو کہ اس سارے نظام کو اکھاڑ کر پھینک دے فوری طورپر سامنے نہیں آتا۔

ترقی یافتہ سماج میں صنعتی ترقی کی وجہ سے پرولتاریہ طبقہ پیدا ہوتی ہے ۔ جس کا استحصال منظم اداروں کی شکل میں اجتماعی طورپر ہوتا ہے ۔ اس لئے کسی حد تک استحصال زدہ طبقے کو استحصال کی مختلف اور جدید شکلوں کا پسماندہ سماجوں کی نسبت زیادہ شعور اور تجربہ ہوتا ہے ۔ زندگی کے ساتھ ان کا منطقی اور تعقلیت پسندانہ رویہ جو کسی حد تک سماجی رحجان بن چکا ہوتا ہے کی بدولت بھی ان کو استحصال کا شعور حاصل ہو جاتا ہے۔ البتہ استحصال کی دیگر پیچیدہ شکلوں کے بارے میں انہیں زیادہ معلومات نہیں ہوتیں۔

یہ ایک جدلیاتی حقیقت ہے کہ ایسے ترقی یافتہ معاشروں میں استحصال کرنے والے طبقوں کو بھی اپنی استحصالی کیفیت برقرار رکھنے کے لئے پسماندہ سماجوں کے استحصالی طبقے کی نسبت زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ جس کی وجہ سے استحصال کو استحکام اور بقاء دینے کے لئے وہ نئے نئے طریقوں پر غور کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس عمل میں پوری کی پوری ریاست کا سامراجی کردار ابھرنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ریاستیں اس کشمکش کو بالکل ختم تو نہیں کر سکتیں اس لئے وہ مختلف حربوں سے ان کے احتجاج اور غم و غصے کو زائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اس سارے عمل میں بورژوا اور پیٹی بورژوا طبقہ جسے مڈل کلاس بھی کہا جاتا ہے کی ثقافت اور دیگر روایات اور اقدار کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ جب ریاستیں اور منظم سرمایہ دار استحصالی طبقہ ایک ہی صفحہ پر آجاتے ہیں تو ترقی یافتہ سماج کے باشعور استحصال زدہ طبقوں کے لئے بھی استحصال کی پیدا شدہ پیچیدہ شکلوں سے لڑنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ یہ سامراجی ریاستیں پسماندہ ریاستوں کی طرف بڑھتی ہیں۔ اُن سے سستی لیبراور ان کے قدرتی وسائل حاصل کرتی ہیں۔ استحصال وسیع ہوتاشروع ہو جاتا ہے ۔ پیداواری صلاحیت ، ٹیکنالوجی کا استعمال ، کم لاگت اور سستی لیبر ، بے روزگاری اور قوتِ خرید کے کمزور ہو جانے جیسے سیاسی معاشیات کے سوالات کا کوئی تسلی بخش حل وہ تلاش نہیں کر سکتے۔

استحصال کرنے والا طبقہ بھی اپنے پیداکردہ مسائل کو جب حل نہیں کر سکتا تو وہ سٹہ بازی اور دیگر بلبلہ معیشتوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس سرمایہ کاری سے منافع کمانا شروع کر دیتا ہے ۔ کچھ عرصے بعد یہ معیشت بھی بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔

ایسی پیچیدہ صورتحال میں استحصال زدہ طبقہ تعداد میں زیادہ کے باوجود بھی اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اب بین الاقوامی سرمایہ دار اور استحصالی ریاستیں اُس کے دشمن کے طور پر اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اُسے دونوں سے بیک وقت لڑنا ہوتا ہے ۔ امریکہ ، یورپ اور مغربی ممالک کے عوام اور استحصال زدہ طبقوں کا مشرقِ وسطہ ، شام ، ایران، عراق، سعودی عرب ، لبنان اور افغانستان جیسے ممالک کی خارجہ پالیسیوں پر ان کا احتجاج اولاً ان کی اپنی معاشی زندگیوں کو برباد کرنے کے حوالے سے ہوتا ہے ۔
اگر استحصال زدہ طبقے میں اپنے استحصال کا شعور موجود ہے تو پھر وہ بغاوت کیوں نہیں کر دیتا۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ استحصال زدہ طبقہ اکثریت میں تو ہوتا ہے لیکن وہ منظم نہیں ہوتا۔اتنے بڑے پیمانے پر تنظیم سازی اُس کے لئے ممکن نہیں ہوتی کیونکہ وہ روٹی روزی ہی کے چکر سے باہر نہیں آسکتا اور وہ سیاست کو بطور کھیل نہیں لے سکتا۔ لیکن سماج میں اس کی بے چینی کا اظہار مختلف چھوٹے چھوٹے احتجاجات میں سامنے آتا رہتا ہے ۔

سرمایہ داری کے ہاتھوں میں کھیلنے والا میڈیا اُن کے ایسے احتجاجات کی کوریج ہی نہیں کرتااور اگر کوئی ایسے حالات پیدا ہو ہی جائیں تو پھیلتے احتجاج کو زائل کرنے کے لئے وہ مختلف طریقے جو ان کے بیان کردہ نام نہاد بنیادی انسانی حقوق ہیں سے بھی زیادہ گرے ہوئے ہوتے ہیں استعمال کرکے انہیں منتشر کردیتے ہیں۔

دوسرا یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی انقلاب اُس وقت کا حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بنا جب تک کہ پرولتاریہ کلاس اس انقلاب کا حصہ نہیں بنی۔ جب کبھی بھی محنت کش کسی احتجاج میں اترے ہیں تو انہوں نے پوری کی پوری ریاست کو اکھیڑ کر رکھ دیا ہے ۔ ایسا کئی بار اور کئی ملک میں ہو چکا ہے کہ عوام نے پوری کی پوری ریاستی مشینری کو اٹھا کے باہر پھینک دیا ہے ۔ وہ ایسا اُس وقت کرتے ہیں جب حالات اُن کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئے ہوں۔ یعنی یہی سیاست اُن کے لئے زندگی اور موت بن گئی ہو۔

پسماندہ سماج میں بھی احتجاج ہو جاتے ہیں ۔لیکن استحصال کرنے والے طبقے کے لئے ان کے ان احتجاجات کو زائل کرنا نسبتاً آسان ہو جا تا ہے ۔ ثقافتی پسماندگی کی وجہ سے وہ ان منتشر احتجاجات کو زائل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہ انہیں مذہبی، لسانی، جغرافیائی اور سیاسی طور پر بانٹے دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اُن کے جذبات کے ساتھ کھیلنا آسان ہو جاتا ہے ۔

ایسے حالات میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کو کسی منظم تنظیمی ڈھانچے کے تحت لایا جائے اور وہی موضوعی عنصر انہیں سیاسی لڑائی لڑنے کے طریقے بھی بتائے اور انہیں اپنی قوت کا احساس بھی دلائے۔ پسماندہ سماجوں میں ابھرنے والی ایسی تنظیمیں جن کا کام مختلف شعبوں اور اداروں میں موجود محنت کشوں کی سیاسی تربیت کرنا اور انہیں نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ ایک نئے نظام کی تربیت بھی فراہم کرنا ہو موجود تو ہوتی ہیں۔ پسماندہ سماج میں بیشتر بائیں بازو کی تنظیمیں تو موجود ہیں لیکن ان کے اپنے سماجی اور ثقافتی مسائل ہوتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ داری اور ریاستی استحصال جو وحشت ناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، وہاں بھی معروض تقاضا کر رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر منظم سیاسی جدوجہد کی جائے اور وہ طبقاتی کشمکش کے شعور کو اجاگر کرتے ہوئے ہی کی جائے بصورت دیگر پوری دنیا میں سرمایہ داری اپنی وحشت اور بربریات پھیلاتی رہے گی۔

Comments are closed.