اسلام آباد میں بریلویوں اور لاہور میں دیوبندیوں کی دہشت گردی

0,,19145525_403,00

کل جب لاہور کے گلشن اقبال پارک میں مسیحی برادری کی ایک بڑی تعداد ایسٹر کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی کہ اچانک ایک خودکش حملہ ہو گیا جس میں تادم تحریر 69 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

اس سے پہلے کہ آئی ایس پی آر دہشت گردی کی اس کاروائی کو بھارتی ایجنسی راء کی کاروائی قرار دیتا ، طالبان نے اس حملے کی ذمہ دار ی قبول کر لی ہے۔ پاکستانی طالبان کے الگ ہونے والے دھڑے جماعت الاحرار گروپ نے روزنامہ ایکپریس ٹریبیون سے گفتگو میں کہا کہ ’ ہم عیسائیوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، جو ایسٹر منا رہے تھے۔

یہ حملہ ان طالبان نے کیا ہے جس کے خلاف پاکستان آرمی زور و شورسے آپریشن کرنے میں مصروف ہے۔ تقریباً پچھلے دوسال سے پاکستان آرمی کے سربراہ اور ترجمان پاکستانی عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا ہے اور اب کسی کو جرأت نہیں ہو گی کہ’’ وطن عزیز‘‘کو کوئی بھی ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔

اطلاعات کے مطابق حملے بعد پاکستان کے وزیراعظم اور آرمی چیف نے علیحدہ علیحدہ امن عامہ کی صورتحال پر غور کرنے کے لیے طویل دورانیے کے اجلاسوں کی صدارت بھی کی ہے۔
دوسری طرف اتوار 27 مارچ کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل سابق پولیس کانسٹیبل ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پر بڑی تعداد میں افراد راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جمع ہوئے۔چہلم کے بعدقریباً 25000 افراد راولپنڈی سے اسلام آباد کی جانب رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئے جہاں ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا، جب کہ قادری کے حامیوں نے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ میڈیا کی جانب سے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے ریڈ زون میں آگ بجھانے والی دو گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیں اور توڑ پھوڑ کی۔ حکومت نے فوج کی مدد طلب کر لی ہے۔اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق ا سلام آباد کے ریڈزون میں فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سزائے موت پانے والے کانسٹیبل ممتاز قادری کے حامیوں کا دھرنا جاری ہے۔یاد رہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ممتاز قادری کے چہلم تک حکومت کو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ اور توہین رسالت کے مقدمے میں ملزمہ آسیہ بی بی کو پھانسی دینے کا الٹی میٹم دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر کسی دل جلے نے لکھا ہے کہ اگر رینجرز کو بتایا جاتا کہ احتجاج کرنے والوں کا تعلق بلوچستان یا سندھ سے ہے تو رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین پر قابو پاچکے ہوتے۔

Comments are closed.