لاہور دہشت گردی اور اسلام آباد پر قبضہ

azhar saleem pic اظہر سلیم

پاکستانی ریاست نے افغانستان اور کشمیر میں مذہب کے نام پر جس دہشت گردی کا آغاز کیا تھا، جو کہ دوسرے کے گھر کو جلاؤ اور اپنے گھر کو بچاؤ کی پالیسی کے تحت تھی ۔وہی آگ آج وحشت اور بربریت بن کر لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر ناچ رہی ہے ۔معصوم بچوں عورتوں اورغریب انسانوں کو اس جہالت کا نشانہ بنا کر تنکوں کی طرح اڑا یا جارہا ہے ۔

صرف لاہور ہی نہیں مذہبی بنیاد پرستی کا ننگا ناچ وفاقی دارلحکومت میں بھی جاری ہے۔ راولپنڈی اسلام آبا میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف ہونے والے احتجاج میں جہاں سرکاری املاک کو نشانہ بنایا گیا وہیں اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں سرانجام دینے والے عام شہریوں کو بھی تشدد ،خوف و ہراس اور جلاؤ گھیراؤ کاسامناکرنا پڑا ۔عقیدت کے نام پر وحشت طاری کیے اندھے لوگ جن کو نہیں معلوم کہ ان کا دشمن کون تھا اور دوست کون ہے۔ان کے سامنے جو آتا ہے انسان ،گاڑی،سیڑھی اسے خوف و ہراس کی فضا بناتے ہوئے یہ ہجوم اب وفاقی دارلحکومت پر قابض ہے ۔

اس سے ریاست اتنی محبت کیوں کررہی ہے ۔ کہ اس کی دہشت و بربریت کے باوجود اس کے خلاف اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ان وحشیوں کا راستہ کیوں نہیں روکا گیا۔اس کی واحد وجہ یہ کہ اس ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے مذہبی انتہا پسندی منافع بخش کاروبار ہے ۔جسے پہلے افغانستان اور کشمیر میں اپنے منافع کے لیے استعمال کیا گیا اور اب اسی بنیاد پرستی کو اندرون ملک جمہور ی حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے ۔

اس بنیاد پرستی کی جڑیں ملٹری سٹیبلیشمنٹ سے نکلتی ہیں اور پوری سوسائٹی میں زہر کی طرح سرایت کرچکی ہے ۔آج سے تین دن قبل جب ایرانی صدر پاکستان آئے،معاہدے کر کے گئے ،ہندوستان میں پٹھان کوٹ واقعہ کے لیے تفتیشی ٹیم کا بھارت پہنچنا اور ادھر را کے آفیسر کی گرفتاری،پھر ایک وزیراعظم پاکستان کا اجلاس بلانا اسی لمحے چیف آف آرمی سٹاف کا اجلاس بلانا اور ان کے شعبہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جمہوری حکومت کے متبادل کے طور پر پیغامات جاری کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ آرمی سول حکومت کو سبوتاژ کررہی ہے ۔

اس لیے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ ریاست کے ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔آخر کیا وجہ ہے کہ جب سول حکومت چین سے معاہدہ کرتی ہے تو لبرل مُلا طاہر القادری کو میدان میں لایا جاتا ہے اور سول حکومت کو دفاعی بجٹ کے آڈٹ ،سابق آمر پرویز مشرف کے کیس سے پیچھے ہٹنے پرمجبور کیا گیا ۔انڈیا اور افغان پالیسی پر فوج کی گرفت اور اب ایران کے ساتھ جب تعلقات کی بات آئی تو ایک طرف لاہور میں دھماکے اور دوسری طرف اسلام آباد میں دوسرے فرقے کا قبضہ۔

پھر کون نہیں جانتا کہ اس ریاست میں قائم مدارس چاہے وہ کسی بھی فرقہ کے ہوں اسٹبلیشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہ ہی کھلتے ہیں اور نہ چلتے ہیں ۔یہ نرسریاں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ نے ہی لگائی ہیں۔اور آج بھی وہی اس سارے کھیل کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس ملک میں جاگیر دار ،جرنیل اور ملاں گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا ہوگا ۔جو اس ملک انسانی آزادیوں کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

کبھی یہ خواتین کے حقوق کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔کبھی یہ خود بندوق سے انسانوں کی سزا کا تعین کرتے ہیں۔اس ملک کے قوانین کو یہ نہیں مانتے ،اختلاف راے جو ان کے مفادات کو ضرب لگا رہے ہوں نہیں مانتے ۔انہوں ملک میں گٹھن کی قضا قائم کرکے یہاں کے انسانوں کو قید خانے میں بند کررکھا ہے۔اس لیے پاکستان کی سول سوسائٹی ،دانشوروں اور روشن خیال قوتوں کو بار بار مرنے کی بجائے ایک ہی دفعہ اس کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی اور جنرل شاہی کی طرف سے قائم کردہ حب الوطنی اور کفر کے فتووں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا ۔ورنہ یہ قتل عام جاری رہے گا۔

Comments are closed.