غربت اور بے وقوفی 

qazi-310x387فرحت قاضی

ہمارے پختون پس ماندہ دیہات میں غربت کو عموماً نعمت خداوندی سمجھا جاتا ہے۔
ایک دیہہ میں شہر کی نسبت زیادہ غربت ہوتی ہے اس میں پائی پائی کے محتاج بھی ہوتے ہیں ان کے ہاتھ ہمہ وقت خان خوانین کے آگے پھیلے رہتے ہیں ان کو ہر لمحہ یہ احساس رہتا ہے کہ انہیں کسی بھی وقت ان صاحب جائیداد افراد کے مالی و معاشی مدد و تعاون کی ضرورت پیش آسکتی ہے شاید اسی لئے ان کے سر جھکے رہتے ہیں اور وہ خود کو ان خان خوانین کے وفادار ظاہر کرتے رہتے ہیں۔
غریب غرباء سے غربت اور محتاجی کے اسباب ہمیشہ چھپے رہتے ہیں اور اگر وہ جانتے تو یقیناً ان کو دور کرنے کی تگ و دو ضرور کرتے۔
ایک دیہہ میں شہر کی نسبت روایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدروں کی بھی زیادہ پاس داری کی جاتی ہے ان کو نبھانے کی خاطر دیہی باشندے اکثر و بیشتر زندگی بھر کی پونجی ایک یا دو مواقع پر لٹا دیتے ہیں اور اگر کوئی کسر رہ جاتی ہے تو صاحب حیثیت افراد سے قر ض لے کر ان کو پورا کرتے ہیں۔
صاحب جائیداد بننے کے لئے دولت کی خواہش رکھنا ضروری ہوتا ہے جبکہ یہاں اس نوعیت کی آرزو اور تگ ودو کو دنیاوی محبت اور لالچ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور نہایت برا خیال کیا جاتا ہے ہمارا قدیم ادب اس سچائی کا آئینہ دار ہے۔
ہمارے ان دیہات میں روایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدروں کے علاوہ ایسے الفاظ بھی ہیں جو ناخواندہ دیہی باشندوں کو دست بگریباں رکھتے ہیں کبھی کبھار صورت حال چھری چاقو اور فائرنگ کے تبادلوں تک پہنچ جاتی ہے تنازعات تھانے اور کچہری پہنچ جاتے ہیں یہ سلسلہ جتنا دراز ہوتا ہے فریقین کی معاشی حیثیت کمزور ہوتی جاتی ہے اور وہ خان خوانین کے مزید دست نگر بن جاتے ہیں۔
پس ماندہ دیہہ میں یہ تنازعات ایک خاندان کے افراد،خاندانوں اور قبیلوں کی باہمی آویزش کی صورت میں اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
دیہہ باشندوں کی اکثریت کا زیادہ تروقت غیر معاشی سرگرمیوں میں گزرتا ہے غیرت اور ناک کو اونچی رکھنے کی فکر ایک فرد اور کنبہ کو دوسرے کے سامنے لاکھڑا کردیتی ہے اور پھر یہ بالکل دھیان نہیں رہتا ہے کہ ان کا کتنا وقت برباد ہوچکا ہے اور معاشی حوالے سے ان کو کتنا اور کیا کیا نقصان ہوا ہے بات چیت،جرگہ اور مذاکرات کا احساس اس لمحہ آتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
دیہات میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی ریت روایت اور ماحول نہیں ہوتا ہے جہاں پولیس اور محکمہ انصاف،جج اور وکلاء تنازعات کو بڑھاوا دیتے ہیں وہاں بات چیت اور مذاکرات کے واسطے مسائل کے حل ڈھونڈنے کا فقدان بھی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ہے بات چیت میں اہم رکاوٹ اونچ نیچ پر استوار نظام اور ہر شخص میں برتری کے احساسات ہیں یہ احساسات جاگیردار اور دیہہ کے باسیوں کے مابین ہی نہیں بلکہ عمر اور پیشوں کے تفاوت کے باعث بھی پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ ایک دیہہ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پیشے سے وابستہ کنبہ دوسرے پیشے سے وابستہ خاندان سے رشتے داریاں جوڑنے سے کتراتا ہے کیونکہ یہاں پر پیشوں کے لئے ذات اور قوم کے الفاظ بھی مستعمل ہوتے ہیں اورایک قوم اورذات کے لوگ دوسرے کوبنظرحقارت دیکھتے ہیں دھوبی،چمار،نائی بڑھئی،لوہار،درزی، خاکروب،بھکاری اور بھٹہ خشت اپنے ہی خاندان، ذات اور قوم میں شادیاں کرتے ہیں۔
ان میں پیشوں کے حوالے سے نفرت بھی پائی جاتی ہے ایک علاقے کے باسی قریبی علاقے کے باشندوں کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے خلاف لطیفے بناکران سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ان اقدامات کے برے اور منفی اثرات سے دیہات کے سادہ لوح باشندے صدیوں تک بے خبر رہے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نہ ڈھونڈنا، ایک پیشے کے افراد کا دوسرے پیشے سے وابستہ خاندان سے شادیاں جوڑنا، پیشوں کے لئے ذات اور قوم کے الفاظ کے استعمال، ایک دوسرے علاقوں کے باسیوں کی باہمی نفرت کے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔
جب ایک شخص دوسرے سے نفرت کرتا ہے تو وہ اس سے دور دور رہتا ہے اس کی شکل و صورت دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ہے اس لئے وہ اس سے لین دین اور کاروبار بھی نہیں کرتا ہے تو اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اس شخص،اس خاندان کے پیشے ، علم اور ترقی سے بھی مستفید نہیں ہوسکتا ہے۔
نائی، دھوبی،درزی، کھیت مزدور، لوہار، چمار، بڑھئی،درزی اورخاکروب یہ سب محنت کش ہیں اور ان سب کے مسائل ، مشکلات اورحالات بلکہ زندگی یکساں ہے یہ جب ایک دوسرے سے نفرت کریں گے تو ان میں اتحاد واتفاق پیدا نہیں ہوگا۔
اسی طرح ایک علاقے اور دیہہ کے باشندے ایک دوسرے کے خلاف لطیفے بناکر ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں گے تو یہی صورت حال رہے گی ان کے ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل مفقود ہوگا یا انتہائی کم رہے گا چنانچہ ان کا علم اور معلومات بھی محدود رہیں گی ۔
القصہ اس کا نتیجہ بے وقوفی اور غربت میں نکلے گا۔
جہاں اور جس دیہہ میں غربت اور بے وقوفی کا راج ہوتا ہے تو وہاں ناک اور نام کو اونچا رکھنے کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اور اس سے تنازعات بھی جنم لیتے ہیں جن سے مالی و معاشی نقصانات ہی نہیں پہنچتے ہیں بلکہ ایک خاندان کے ایک یا دو افراد جیل پہنچا دئیے جاتے ہیں تو باقی ان کی رہائی کے لئے دوڑ دھوپ میں شب و روز ایک کردیتے ہیں چنانچہ پیسہ اور وقت کا ضیاع بھی ہوتا ہے اور جب فیصلہ بھی انصاف پر مبنی نہ ہو تو تنازعات کی طوالت خاندانوں کو کنگال کرکے رکھ دیتی ہے۔
دیہات میں تنازعات کے اسباب میں کھیتوں کو پانی ،وراثت اوراس کی غیر مساوی تقسیم،طاقت اور تعلقات شامل ہیں تو ادب آداب کا حد درجہ لحاظ اور خیال اور بے جا پابندیوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے پیشوں اور پیشہ وروں کو بنظر حقارت دیکھنا اور ان میں تفاوت اور ذات پات کی تفریق کو ان وجوہات سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے عقائد،نسل، رنگ،رہن سہن اور دیگر امتیازات بھی کبھی کبھار یہی نتائج پیدا کرتے ہیں اور ان امتیازات کے باعث ذات پات پر مبنی ایک نظام جنم لیتا ہے۔
دیہات میں ایک ایسا ماحول بنا ہوتا ہے کہ جس میں ایک انسان اپنے اور اپنے بال بچوں یا کنبہ کے بارے میں ہی فکر مند رہتا ہے دیہہ کی بھلائی کے بارے میں سوچنا حماقت کہلاتا ہے اور جو ایسا سوچتا ہے اس کو نادان اور دیوانہ مشہور کردیا جاتا ہے چونکہ ہر بندہ اسی انداز میں سوچتا ہے چنانچہ اس حوالے سے پشتون سماج میں یہ قصہ بھی عام ہے۔
ایک گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی اس کا ایک بیٹا تھا جو صبح اٹھتے ہی کسی ہمسایہ کے لئے پانی بھرتا ہے کسی کے لئے بازار سے سودا سلف لاتا ہے کھیتی باڑی میں بابے کا ہاتھ بٹاتا ہے بیل گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی تو اس کی مدد کے لئے دوڑ پڑ تا ہے اور یہ کام کرتے کرتے شام ہوجاتی ہے تو ماں لاٹھی ٹیکتے ہوئے گھر کی دہلیز پر آکر باآواز بلند پکارتی ہے:۔
’’
وہ پردی غمونو وھلیہ اوس خو کور تہ راشہ‘‘
پرائے غموں سے دوچار بیٹے اب تو گھر آجاؤ
بلاشبہ،غربت کی کوکھ سے کئی عظیم شخصیات نے جنم لیا مگر مجموعی طور پر غربت اور افلاس کا زیادہ تر نقصان دیہہ کے کھیت مزدور اور باسیوں کوہوتا ہے اور فائدہ دیہات کے خان خوانین کو ہی پہنچتا ہے کیونکہ ایک آدمی تہی دست ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ صاحب جائیداد افراد کے سامنے پھیلے رہتے ہیں وہ پریشان رہتا ہے اور اس حالت میں اہل خانہ اور ہمسایہ سے لڑتا بھڑتا ہے اس کا وقت ان کو نمٹانے اور پیٹ بھرنے میں گزرتا ہے اسی افلاس کے باعث وہ قدم قدم پر محتاج رہتا ہے اور یہ محتاجی اس کا سر جھکا کر رکھتی ہے۔
وہ کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ اور دیر تک محنت مشقت کرنے پر مجبور ہوتا ہے ترقی اور خوشحالی اس سے دور دور بھاگتی ہے چنانچہ یہ غربت اور وسائل کا فقدان اسے دیوانہ ہی نہیں بے وقوف بھی بنادیتی ہے غربت اور بے وقوفی قریبی رشتے دار ہیں ایک غریب اپنی غربت کے سبب اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلاسکتا ہے وہ اخبار اور کتاب نہیں لے سکتا ہے علاوہ ازیں ایک مفلس قابل، ذہین اور سقراط بھی ہو تو اس کا وجود تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔

خوشحال خان خٹک
پختونخوا میں نہیں کہیں اور پیدا ہوتا اور کسی اور زبان میں لکھتا تو وہ پشتونوں کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا بابا کہلاتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چرواہا جس طرح بھیڑ بکریوں کو ہانکتا ہے،
دیہہ کا ایک جاگیردار یا مٹھی بھر صاحب جائیداد طبقہ کا ان دیہی باشندوں کے ہاتھوں، پیروں،زبان،سروں اور دماغوں پر بھی قبضہ ہوتا ہے،
ایک دیہہ میں اس کے باسیوں کے باہمی جھگڑے اور تنازعات،معمولی معاملات پر سر پٹھول
نائی
دھوبی
درزی
کمہار
بڑھئی
لوہار
مزدور
اور تانگے بانوں کے حوالے سے لطائف اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔

Comments are closed.