بنیاد پرستی اور عالمی امن

اظہر سلیم

1

آج جب پوری دنیا بنیاد پرستی کی لپیٹ میں ہے اورانسانیت کو خون پی رہی ہے تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ بنیاد پرستی ہے کیا ؟اس کے محرکا ت کیا ہیں اور اس کو ختم کیسے کیا جا سکتا ہے ۔بنیاد پرستی کی کچھ تاریخی ،سماجی وجوہات ہیں جن کو زیر بحث لائے بغیر ہم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پائیں گئے ۔

دنیا میں دو طرح کی سوچیں ہیں ایک جو کہتی ہے کہ دنیا کا نظام پہلے سے طے شدہ ہے اور وہ اسی کے مطابق چلتی ہے اور دوسری وہ ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ دنیا میں مسلسل تبدیلی آرہی ہے ۔پہلی جو فکر ہے اس کی بنیاد پر بالادسست طبقات اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کیا اور عوام سے سوچنے اور سوال کرنے کا حق چھینا۔اور عوام میں یہ تاثر برقرار رکھا کہ سوال اٹھانا کفر ہے ۔اور وہ جو کہہ رہے ہیں وہی حقیقت ہے ۔

جب اس بالا دست طبقے نے عوام کو اس عقیدت مندی کی آڑ میں استحصال کا نشانہ بنا شروع کیا تو وہیں دوسری جو فکر تھی اس کی تحقیق نے اس کو چیلنج کرنا شروع کردیا ۔اور کہا کہ یہ آپ یعنی بالادستوں کے مفادات ہیں ۔حقیقت یہ نہیں ہے تو بالادستوں نے اسے قانون قدرت میں مداخلت کرنے کے مترادف قرار دے کر تحقیق کا راستہ روکنے کی کوشش کی ۔جب سائنس و تحقیق نے ان کے لیے سوال پیدا کردیئے تو انہوں انہی بنیاد پرستانہ جذبات کو ابھارتے ہوئے تشدد کے ذریعے تحقیق و سائنس کا راستہ بند کرنے کی کوشش کی ۔

اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔کہ جب دنیا سائنس کی ترقی کی وجہ سے بہت آگے نکل گئی ہے تو عقیدت مندی کیونکہ ماضی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور وہ ماضی پرست بھی ہوتی ہے ۔اس لیے وہ آج کے عہد کا جواب نہیں دے سکتی ۔آج کے معاشرے اس کے معیارات اور قوانین کے تحت نہیں چل پاتے تو وہ جبر اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کر کے عوام کو خوفزدہ کرکے ان کو اپنے قوانین اور ان کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کررہے ہیں ۔

یہ سلسلہ ایک وقت میں چند افراد سے شروع ہواپھر ریاستوں کے حکمرانوں کا ہتھیار بھی رہا ہے جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔جنوبی ایشیاء سے ہوتا ہوا عرب اور اب یورپ کو بھی تہہ و تیغ کررہا ہے ۔جس کی واضح جھلک آپ کو افغانستان میں نظر آئے گی ۔ افغانستان کو تار تار کرنے کرنے کے لیے پاکستان کے حکمران طبقہ نے اپنے گلی محلوں میں مدارس کی شکل میں د ہشت گردی کی فیکٹریاں لگا لیں ۔اور ان فیکٹریوں کے مالکان مُلا تیار کیے جو آج ریاستوں کے کنٹرول سے نکل کر ایک واضح کارپوریٹ سیکٹر بن چکے ہیں ۔

یہ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ نہ صرف ریاستی آئین و اختیارات پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ معاشرے میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کا راستہ روکتے ہیں۔ان کی جڑیں جہاں اس ملک کی ملٹری اسٹبلیشمنٹ سے جڑی ہوئیں ہیں وہیں یہ اب بین الاقوامی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔آج ریاستی اقتدار میں حصہ دار ہیں ۔اس مقصد کے لیے اس ملک کی ملٹری اسٹبلیشمنٹ نے نصاب تعلیم کو بھی بنیاد پرستانہ بنایا ۔

آج جب دنیا کے لیے یہ بنیاد پرستی ایک خطرہ بن چکی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ سماج قوانین میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں ۔لیکن جب کبھی ان اصلاحات کے لیے یہاں کا روشن خیال طبقہ کسی مکالمے کا آغاز کرتا ہے تو یہ ملائیت اسے دہشت کا نشانہ بنا لیتی ہے ۔جس کی واضح مثال پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے ریاست کے رجعت پسندانہ قوانین میں اصلاحات کی بات کی تو ان سرکاری محافظ نے ہی ان کو گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کیا ۔

اور جب یہ ریاست اسی قاتل کو سزا دیتی ہے تو لاکھوں لوگ بشمول وکلا،قانون کے محافظ ،ذارئع ابلاغ اس کو بھی قتل قرار دیتے ہیں ۔نہ کہ ریاستی قوانین پر عملدرآمد کی حوصلہ افزائی کریں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بنیاد پرستی کے خلاف آواز اٹھانا کتنا مشکل کام ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا متحد ہو کر اس بنیاد پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکے اور گلی محلوں میں لگائی گئی فیکٹریوں کو روشن خیال انسان دوست علم کے اداروں میں تبدیل کرے جہاں سے پیدا والا دماغ بلاتخصیص انسانیت کی فلاح کی فکر سے آراستہ ہو ۔ 

Comments are closed.