ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے انتہائی اہم دورے پر

0,,19142855_403,00

ایرانی صدر حسن روحانی اپنے ایک دو روزہ دورے کے لیے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ وہ یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں، جب سعودی عرب پاکستان پر سعودی قیادت میں قائم ہونے والے ایک نئے فوجی اتحاد میں شرکت کے لیے زور دے رہا ہے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق یہ فوجی اتحاد زیادہ تر سنی اقوام پر مشتمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکومت اسے ایک شیعہ مخالف اتحاد کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

حسن روحانی کا صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان کا، جو زیادہ تر سنی العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ملک ہے، یہ پہلا دورہ ہے۔ اٹھارہ کروڑ آبادی والے پاکستان میں شیعہ مسلمان آبادی کا پندرہ فیصد بنتے ہیں۔ روایتی طور پر پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات ہیں، جس کے شیعہ طاقت ایران کے ساتھ تعلقات معاندانہ ہیں۔ سعودی عرب کا الزام ہے کہ تہران حکومت یمن میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شُدہ صدر منصور ھادی کے خلاف شیعہ حوثی باغیوں کی مدد کر رہی ہے۔

سعودی عرب جس فوجی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے، اُس میں زیادہ تر خلیجی عرب ممالک شامل ہیں۔ یمن میں جاری تنازعے کو بین الاقوامی سطح پر سعودی ایرانی پراکسی وار یعنی حقیقت میں سعودی عرب اور ایران ہی کے درمیان جنگ کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔

گزشتہ سال پاکستانی پارلیمان کی جانب سے انکار کے بعد اسلام آباد حکومت نے یمن میں پاکستانی فوجی دستے بھیجنے سے متعلق سعودی درخواست رَد کر دی تھی۔ جنوری میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے سعودی عرب کے ایک دورے کے دوران فوجی اتحاد کی حمایت کا اظہار تو کیا تاہم اُنہوں نے فوجی دستے بھیجنے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی تھی۔ مقامی پاکستانی اخبارات کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب نے پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اس اتحاد کی قیادت کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔

روحانی کا یہ دورہٴ پاکستان ایران کے لیے اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ یہ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے اور ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں ختم کیے جانے کے فوراً بعد عمل میں آ رہا ہے۔

اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’اس دورے کی بہت زیادہ اہمیت ہے‘ کیونکہ پاکستان ابھی بھی سعودی قیادت میں قائم ہونے والے نئے فوجی اتحاد میں شرکت کے حوالے سے بظاہر کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔

پاکستان میں سنی عسکریت پسندوں کی طرف سے اکثر شیعہ اقلیت پر خونریز حملے دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ ایران کا الزام ہے کہ ایسے حملے کرنے والے لشکرِ جھنگوی جیسے گروپوں کو سعودی عرب مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ سنی عسکریت پسند یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ایران پاکستان میں سرگرم شیعہ انتہا پسندوں کومالی مدد دیتا رہتا ہے۔

پاکستان کے دورے کے موقع پر ایرانی صدر روحانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایران کی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ ممالک اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعمیری تعلقات کے قیام کو ترجیحی اہمیت حاصل ہے‘۔ اشاروں کنایوں میں سعودی عرب کا ذکر کرتے ہوئے روحانی نے اس بیان میں کہا ہے: ’’دوسروں کو عدم استحکام سے دوچار کرنا مستقل تنازعات کو جنم دیتا ہے، جن کا فائدہ کسی کو بھی نہیں ہوتا۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے: ’’ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات کی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر مجھے یقین ہے کہ ان دونوں ملکوں کے لیے ایک ایسے نئے دو طرفہ سمجھوتے کی بنیاد رکھنے کی بہت ضرورت ہے، جس میں دونوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہو۔‘‘

توقع کی جا رہی ہے کہ اپنے اس دورے کے دوران روحانی گیس پائپ لائن کے اُس متنازعہ منصوبے پر بھی بات کریں گے، جس میں پاکستان کے راستے ایرانی گیس بھارت بھی پہنچائی جائے گی۔ اس گیس پائپ لائن کا مقصد پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا تھا تاہم آج کل اس پر کام معطل ہے۔ ایران اس منصوبے پر دو ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے تاہم پاکستان ابھی اپنے حصے کی آدھی پائپ لائن پر کام مکمل نہیں کر سکا ہے۔ تہران حکومت کے جوہری پروگرام پر خدشات کے باعث واشنگٹن حکومت برسوں تک اس منصوبے کی مخالفت کرتی رہی ہے۔

Comments are closed.