ہندو بیواؤں کی زندگیوں میں ہولی کے رنگ

0,456

بھارتی شہر ورندون کو بیواؤں کا شہر کہا جاتا ہے۔ ریاست اتر پردیش کے اس شہر نے بہت زیادہ بیوہ خواتین کو پناہ دی ہوئی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ان بیوہ خواتین کی زندگی میں بھی رنگ بکھیرے جا رہے ہیں۔

ارونا سمدر نے مختلف رنگوں کا پاؤڈر کو اپنی مٹھی میں بند کرتے ہوئے ہوا میں اچھال دیا۔ نیلے، سرخ اور سبز رنگ فضا سے زمین کی جانب آتے ہوئے اس کی اور اس کے ساتھ کھڑی ہوئی دیگر خواتین کی سفید رنگ کی ساڑھیوں پر بکھر گئے۔

بھارت کے اکثر علاقوں میں سمدر اور اس جیسی دیگر بیوہ خواتین کو ہولی کا مذہبی تہوار نہیں منانے دیا جاتا۔ تاہم ایک امدادی تنظیم سولب انٹرنیشنل 2013ء سے ورندون میں باقاعدگی سے سمدر اور اس جیسی دیگر خواتین کے لیے ہولی کا تہوار مناتی ہے۔

سمدر نے پیر کے روز ہولی کی تقریبات شروع کرتے ہوئے خبر رساں اداروں کو بتایا،’’ میں بہت خوش ہوں، میں نے بارہ سالوں کے بعد ہولی منائی ہے۔ میں خوش نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ خوش ہوں‘‘۔ اس دوران اس کی جانب سے اچھالے جانے والے رنگ نے ارد گرد کی تمام خواتین کو رنگ برنگا کر دیا تھا۔

ہولی کو رنگوں کا جشن کہا جاتا ہے۔ یہ تہوار موسم بہار کی آمد کے علاوہ اچھی فصل ہونے کی خوشی میں بھی منایا جاتا ہے۔ ہولی کے دوران منائی جانے والی خوشیاں دراصل برائی پر اچھائی کی فتح کی علامت ہوتی ہیں۔

اس تہوار کے دوران لاکھوں بیوائیں خاموشی سے عبادت میں مصروف رہتی ہیں اور صرف سفید کپڑے پہنتی ہیں۔ ان خواتین کو تقریباً تمام ہی مذہبی تہواروں سے دور رکھا جاتا ہے کیونکہ عام طور پر ان کی موجودگی کو بدشگونی مانا جاتا ہے۔ سولب انٹرنیشنل کے بندھیشور پاٹھک کہتے ہیں کہ ان خواتین کی ہولی میں شرکت کرنا ان روایات کی خلاف ورزی ہے، جن میں بیواؤں کو رنگ برنگی ساڑھی پہننے نہیں دی جاتی اور اسی طرح کے دیگر کام نہیں کرنے دیے جاتے۔

بھارت کے کئی علاقوں میں بیواؤں کو معاشرے سے الگ تھگ کر دیا جاتا ہے اور انہیں مندروں میں رہنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم بیواؤں کا یہ شہر گزشتہ کچھ برسوں سے ان خواتین کی زند گیوں کو نیا رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران یہ خواتین ایک قدیم مندر کے احاطے میں جمع ہو جاتی ہیں اور ہولی کی خوشیاں مناتی ہیں۔ اس سال ہولی جمعرات 24 مارچ کو منائی جا رہی ہے تاہم ورندون اور دیگر کئی شہروں میں ہولی کی خوشیاں ایک ہفتے پہلے سے ہی منانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔

DW

Comments are closed.