تاریخ کیسے لکھی جاتی ہے

انٹرویو: ڈاکٹر مبارک علی

640158-DrMubarakAli-1386018121-806-640x480


سوال: تاریخ پر تحقیق کے لیے کون سی بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی: ایک تو لکھنے والے کی تربیت جدید خطوط پر ہونی چاہیے۔ کیوں کہ تحقیق کے پرانے طریقے بدل چکے ہیں۔ اب واقعے کی تحقیق اور تنقید پر زور دیا جاتا ہے۔

مثلاً تاریخی مواد کی ایڈیٹنگ کی جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے تاریخی نوعیت کے مسودوں کی نقل کر کے اصل مسودے کو تبدیل کر دیا ہے۔ علمِ لسانیات کے باعث یہ چوریاں پکڑی گئیں۔ اس علم کی مدد سے تاریخی مسودوں کو دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کس عہد کی زبان اختیار کی گئی ہے۔ اگر کسی نے تاریخی حقائق میں اضافہ کیا ہے تو یہ زبان اْس دور سے مختلف ہوگی۔ ایڈیٹنگ کے وقت دیکھا جاتا ہے کہ مسودے کی زبان اْس زمانے کی ہے، جس زمانے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس طریقے سے لوگوں کو صرف اْس عہد کے ہی واقعات ملتے ہیں اور اس میں دوسری چیزیں شامل نہیں ہوپاتیں۔ اس کی مثال ’’چچ نامہ‘‘ سے دی جا سکتی ہے۔

آٹھویں صدی عیسوی میں لکھے جانے والے چچ نامہ کا جب تیرہویں صدی میں عربی سے فارسی میں ترجمہ ہوا تو مترجم نے اپنے زمانے کی بہت سی اصطلاحات اور دوسری باتیں اس میں شامل کر دیں۔ مثلاً اس میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کو سزا کے طور پر گائے کی کھال میں سلوا کر بھجوایا گیا تھا۔یہ بالکل غلط ہے۔ کیوں کہ کھال میں سلوانے کی سزا منگولوں کے یہاں رائج تھی۔ منگول تیرہویں صدی میں ہندوستان آچکے تھے اور ان کا واسطہ مقامی لوگوں سے پڑتا رہتا تھا۔آٹھویں صدی میں عربوں کے یہاں اس قسم کی سزا نہیں دی جاتی تھی۔ 

اس طرح ایڈٹ کرتے وقت اس قسم کی غلطیوں کو سامنے لایا جاتا ہے۔ سکّے، کتبے، ادب، لوک گیت اور آثار قدیمہ کی شہادتیں بھی تاریخی ماخذ ہیں۔ آج کل اخبارات، رسائل اور انٹر نیٹ بھی تاریخ کے ماخذ میں شامل ہیں۔ تاریخ کا ایک اور ماخذ ’’زبانی تاریخ‘‘ ہے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے خلاف چلنے والے تحریکیں اور بغاوتیں تاریخ کا حصّہ نہیں بنتی تھیں۔ ان واقعات کا ذکر لوک گیتوں اور کہانیوں میں ملتا ہے، جو سینہ بہ سینہ چلی آتی ہیں۔ تقسیم ہند کی تاریخ لکھنے کے لیے تحریری مواد کے علاوہ اْن لوگوں کے انٹرویوز بھی کیے جاتے ہیں، جنہوں نے ہجرت کے مراحل طے کیے ہیں۔

اسی طرح عام لوگوں کی تاریخ لکھنے کے لیے مقدمات کا ریکارڈ معاون ثابت ہوتا ہے۔کسانوں کی تاریخ کے لیے ریونیو ریکارڈ دیکھا جاتا ہے۔ تاریخ کا ایک اور ماخذ علما کے فتوے ہیں ۔ان فتووں کی مدد سے اْس وقت کے معاشرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے معاشرہ کس طرح تبدیل ہو رہا تھا۔ اس کا اندازہ شاہ عبدالعزیز کے فتووں سے لگایا جا سکتا ہے، جو شاہ ولی اللہ کے شاگرد تھے۔ ان فتووں میں لوگ اْن سے انگریزی تعلیم اور انگریزوں کی ملازمت سے متعلق فتوے لے رہے ہیں۔ اسی طرح مولانا رشید گنگوہی کی ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ میں اس قسم کے سوالات پوچھے گئے ہیں کہ کیک اور بسکٹ کھانا اور ایلوپیتھک ادویہ کا استعمال کیسا ہے، کیا ریل میں سفر کیا جا سکتا ہے، کیمرے سے تصویر کھنچوانا کیا جائز ہے۔ یہ تمام چیزیں اْس وقت کے علما نے غیر اسلامی قرار دی تھیں۔

سوال: تاریخ کی تشکیل میں فرد کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی:کارل مارکس نے بڑی اچھی بات کہی کہ پہلے سیاسی، سماجی اور معاشی قوتیں افراد کو پیدا کرتی ہیں، پھر یہ افراد آگے چل کر تاریخ بناتے ہیں۔تاہم تاریخ میں فرد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ بنانے میں ان کا بھی ایک حصّہ ہوتا ہے۔ مثلاً جنگ جیتنے کا سارا کریڈٹ جنرل لے جاتے ہیں۔ حالاں کہ میدانِ جنگ میں زیادہ تر فوجی مرتے ہیں۔ تاج محل، بغیر معمار اور مزدوروں کے نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن عام طور پر تاریخ میں ان لوگوں کا ذکرنہیں ملتا۔ ان کی جگہ بڑی شخصیات کے ساتھ سارے کارنامے منسوب کر دیے جاتے ہیں۔ تاریخ میں فرد کا کردار یقیناًہوگا، لیکن اس کے پیچھے جو قوتیں ہوتی ہیں، اْس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔

سوال: آج کل ’’محکوموں کی تاریخ‘‘ لکھی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان میں کیا صورت حال ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی: پاکستان میں تاریخ پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہو رہا۔جامعات میں تاریخ کے شعبوں میں نہ مورخ ہے اور نہ وہاں تحقیق ہو رہی ہے۔ انڈیا میں ’’سوبالٹرین اسٹیڈیز گروپ‘‘ کا کہنا ہے کہ برطانوی دور کی تاریخ میں عام لوگوں کا ذکر نہیں ملتا۔ ہم اس فراموش شدہ تاریخ کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ تا کہ لوگوں کو پتا چلے کہ عام لوگ یا محکوم لوگوں کا تاریخ میں کیا کردار تھا۔پاکستان چونکہ ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس لیے یہاں صحیح تاریخ لکھنے کی گنجایش نہیں ہے۔ ہم تاریخ سے گھبراتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں۔ ہمارے جنرل، بیوروکریٹ اور سیاست داں اپنی یادداشتوں میں اپنے جرائم چھپا کر اپنے کارنامے بیان کر رہے ہیں۔ ہر ایک ان یادداشتوں کے ذریعے تاریخ میں مقام حاصل کر نے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔

سوال: مشہور شخصیات کی لکھی یادداشتیں کیا تاریخ کی مستند کتابیں کہی جا سکتی ہیں؟
ڈاکٹر مبارک علی: ان کتابوں کوبالکل مستند نہیں مانا جا سکتا۔ یہ لوگ ایک خاص نقطہ نظر سے لکھ رہے ہیں۔ جنرل نیازی نے اپنی یادداشتوں میں اپنی ذات کو سارے جرائم سے نکال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اْن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں ایوب خان کے زمانے میں جو خدمات سرانجام دیں۔اْس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے بہت بڑے علم بردار ہیں۔ روئیداد خان آمروں کے ماتحت رہے اور اْن کی پالیسیوں کو اپنایا۔ جب وہ اپنی یادداشتیں لکھتے ہیں تو وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بہت بڑے جمہوریت پسند ہیں۔ ایسی تمام یادداشتوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کام نہیں ہواتو ان یادداشتوں کو آگے چل کر لوگ تاریخ کا ماخذ مان لیں گے اور ان لوگوں کے جرائم ان کے کارنامے بن جائیں گے۔

سوال:ہٹلر کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کے قتل عام کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی: اتنی بڑی تعداد میں یہودی شاید قتل نہ ہوئے ہوں، لیکن گیس چیمبرزاور مرنے والے یہودیوں کا ریکارڈ تو بہر حال موجود ہے۔ ہٹلر نے اپنی کتاب میں یہودیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے ۔ روسی انقلاب کے بارے میں ہٹلر کا کہنا تھا کہ یہ یہودیوں کا لایا ہْوا ہے۔ یہودیوں کے ساتھ زیادہ اچھا برتاؤ مسلمان معاشرے میں ہْوا ہے۔ یہودیوں کا سنہری زمانہ وہ تھا،جب اندلس میں مسلمان اور یہودیوں نے حکومت کی تھی۔ یہودی عربوں کے ساتھ ہی اسپین آئے تھے۔ جب عیسائیوں نے 1492 میں اسپین فتح کیا تو انھوں نے مسلمان اور یہودی دونوں کو نکال دیا تھا۔ ترکی نے یہودیوں کو پناہ دی تھی۔ اس کے مقابلے میں یہودیوں کا قتل عام یورپ میں ہوا۔ تاہم آج بھی بہت سے مؤرّخ ہولوکاسٹ کو نہیں مانتے۔اس بات پر ایک انگریز مورخ ڈیوڈ ارونگ کو آسٹریا میں سزا بھی ہوئی ہے، جس نے اس نظریے کے خلاف تین جلدوں پر کتاب لکھ کر ثابت کیا کہ ہولوکاسٹ فراڈ ہے اور گیس چیمبرز کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

سوال: کیا آپ کو اپنی تاریخ فہمی کے حوالے سے مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا؟
ڈاکٹر مبارک علی:میں چوں کہ غیر روایتی تاریخ لکھتا ہوں اس لیے روایتی تاریخ کے حامی میری باتوں کو پسند نہیں کرتے۔ لوگوں کو ستانے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ کسی پر روزگار کے دروازے بند کر کے معاشی طو پر اسے اتنا تنگ کر دیا جائے کہ وہ لکھنے پڑھنے کے قابل نہ رہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسے جھگڑوں اور مقدمات میں اْلجھا دیا جائے۔ مجھ پرالزام لگایا گیا تھا کہ میں نے کچھ مسودات چوری کیے ہیں۔ (ہنستے ہوئے) کچھ وکیل تھے، جنہوں نے مجھ پر مقدمات قائم کیے اور بغیر ثبوت میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا کر گھر پر پولیس بھیج دی ۔ اس معاملے میں کچھ دوستوں نے میری بہت مدد کی ۔ ان واقعات پرجب میں نے ایک کتاب ’’میں اور میرا مقدمہ‘‘ کے نام سے لکھی تو میرے مخالفین نے اس کتاب کی 80کاپیاں خرید لیں۔ یہ دیکھ کر کتاب کا پبلشر بڑا خوش ہوا۔کچھ عرصے بعد لیبر پارٹی کے ایک کارکن کا فون آیا کہ ہم آپ کو سپورٹ کرتے ہیں، لیکن آپ نے ہمارے خلاف کیا لکھ دیا ہے۔ میں بڑا حیران ہوا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں لکھا۔

انھوں نے کہا کہ کتاب کے صفحہ 72 پر لکھا ہوا ہے۔ میں نے جب یہ صفحہ دیکھا تو اس میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ اسی طرح جسٹس شریف خواجہ کے خلاف بھی میری کتاب میں نہ جانے کیا کچھ لکھ دیا گیا تھا۔کچھ دن بعد روزنامہ خبریں کے وکیل کا فون آیا کہ آپ نے اپنی کتاب میں اخبار کو بلیک میلر لکھا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ میرے مخالفین نے میری کتاب کی جو 80کاپیاں خرید ی تھیں، اْس کے چار اصل صفحات نکال کر اْس کی جگہ دوسرے پرنٹ کیے صفحات لگا کر بڑی صفائی سے بائنڈنگ کر دی تھی۔ہم نے ان لوگوں کے خلاف جعل سازی کا مقدمہ کر دیا۔ پولیس نے انھیں پکڑ کر حوالات میں بند کیا تو اْن کے حمایتی وکیل میرے خلاف اکھٹے ہوگئے۔ پھر لوگوں نے کہا کہ سمجھوتا کر لیں۔اس معاملے میں نجم سیٹھی نے میرے حق میں اخبار کے ایڈیٹوریل میں لکھا، جس پر ایک مہم چلائی گئی اور اس کا کافی مثبت اثر ہوا۔

سوال:آپ کی شیخ ایاز سے بھی کچھ ان بن ہوگئی تھی؟
ڈاکٹر مبارک علی: میں پی ایچ ڈی کے بعد جرمنی سے کچھ دیرمیں پاکستان پہنچا تھا، جس کہ وجہ یہ تھی کہ میں پی ایچ ڈی کے بغیر واپس آنا نہیں چاہتا تھا۔ اْس وقت شیخ ایاز یونی ورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ انھوں نے یہ عذر ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ کی پی ایچ ڈی سے کوئی مطلب نہیں، آپ کو ہر حالت میں وقت پر واپس آنا چاہیے تھا۔میں نے کہا کہ اگر آپ میری بات نہیں سمجھتے تو آپ کے ساتھ مزید گفت گو کرنا بے کار ہے۔ میری اس بات پر انھوں نے مجھ پر بدتمیزی کا الزام لگا کر مجھے ایک سال کے لیے معطل کر دیا۔ تاہم ایک سال بعد ہمارے مشترکہ دوست کی سفارش پر انھوں نے مجھے بحال کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ ایاز بڑے شاعر تھے۔ان کی شاعری میں لبرل اور سیکولر نظریات ملتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ایک بڑی ٹریجڈی ہوئی۔ ایک دانش ور کو کبھی بھی ریاست کا حصّہ نہیں بننا چاہیے۔ آپ اگر ریاست کا حصّہ بن جاتے ہیں تو آپ اپنی شخصیت اور تخلیقی صلاحیت کو بہت نقصان پہنچاتے تھے۔ بھٹو صاحب نے شیخ ایاز کی تخلیقی صلاحیت کو ختم کرنے کے لیے انھیں سندھ یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا۔ وائس چانسلر بننے کے بعد شیخ ایاز کی شاعری ختم ہوگئی۔ شاعروں کی ذاتی کم زوریاں لوگ بھول جاتے ہیں اور اْن کی شاعری باقی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح شیخ ایاز کی شاعری کا پہلا حصّہ باقی رہ جائے گا۔

سوال: انقلاب فرانس کے تناظر میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ فرانسیسی ملکہ نے کہا،کہ اگر لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ اس واقعے میں کتنی صداقت ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی: بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہے، جو جلد ہی عوام میں مقبول ہو جایا کرتی ہیں کیوں کہ یہ انھیں اپیل کرتی ہیں۔ لیکن تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہ جھوٹی بات تھی۔ تاریخ میں پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ ایک تاریخ دستاویزات پر مبنی ہوتی ہیں اور ایک تاریخ لوگ افواہوں کی مدد سے خود اپنے ذہن سے بنا لیا کرتے ہیں۔ ایسی تاریخ، اصل تاریخ کے متوازی چلتی رہتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے ہمارے دوست ہربنس مکھیا،جو انڈیا کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں پروفیسر ہیں اور مغل تاریخ کے حوالے سے بڑا نام ہے۔انھوں نے اپنے طالب علموں سے تحقیق کروائی کہ دہلی کے قریب مختلف دیہات میں جا کر لوگوں سے محمد غوری کے بارے میں تاثرات معلوم کریں۔ گاؤں کے ایک شخص نے اس بارے میں کہا، ’’ہاں، ہاں، محمد غوری ہمارا ہی تو بچہ تھا، جسے تْرک اْٹھا کر لے گئے تھے۔‘‘ اس طرح لوگوں نے پرتھوی راج چوہان کی اْس شکست کے مفہوم کو ہی بدل دیا، جو بیرونی حملہ آور محمد غوری کے ہاتھوں اْسے ہوئی تھی۔ شاہ جہاں کے دَور میں ایک اطالوی سیاح منورچی ہندوستان آیا تو اْس نے عام لوگوں کی باتیں نوٹ کیں، جو وہ اپنے بادشاہ کے بارے میں کیا کرتے تھے۔ بعدازاں اْس نے چار جلدوں پر مشتمل کتاب شایع کی، جس کا ’’مغل انڈیا‘‘ کے نام سے انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ اس کتاب سے پتا چلتا ہے کہ عام لوگ مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو عیاش سمجھتے تھے۔

سوال: محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کا جو جواز پیش کیا جاتا ہے، کیا وہ صحیح ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی: کوئی بھی حملہ آور اپنے حملے کا کوئی نہ کوئی جواز ضرور ڈھونڈتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو لوگ سوال اْٹھاتے ہیں کہ پھر بیٹھے بٹھائے حملہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسپین میں حملے کا جواز یہ دیا گیا کہ وہاں کا بادشاہ راڈرک اپنے عوام پر ظلم کر رہا تھا، اس لیے طارق بن زیاد نے وہاں کے عوام کو بادشاہ کے ظلم سے نجات دلائی۔ سندھ پر محمد بن قاسم کا پہلا حملہ نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور سے ہی سندھ کو فتح کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔ اْس وقت کسی لڑکی کی فریاد کا معاملہ نہیں تھا۔ سندھ پر حملے کی دو وجوہ تھیں۔ ملک کی زمین اور ذرایع پر قبضہ کرنااور دوسرا تجارتی مقاصد تھے۔ عرب تاجر بحرِ ہند سے ہو کر سری لنکاجاتے تھے۔ اْس زمانے میں سمندری قزاق جہازوں کو لوٹتے تھے۔ ان قزاقوں کا راجا داہر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ آزادانہ طور پر کارروائی کرتے تھے۔ عرب تاجروں نے اپنے حکم رانوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان قزاقوں کے خلاف کارروائی کرے، تاکہ اْن کے جہاز حفاظت سے سری لنکا جا سکے۔ محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ وہ سندھ پر قبضہ کر کے بحرِ ہند کے ان قزاقوں کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا اور اس میں وہ کام یاب رہا۔ لڑکی کی فریاد کا واقعہ گھڑی ہوئی کہانی ہے۔ اْس زمانے میں ٹیلی فون نہیں تھے، لڑکی کی فریاد ہزاروں میل دور عرب کی سرزمین پر کیسے سْنی گئی، جس پر حجاج بن یوسف نے لبیک کہا۔

سوال: ہندوستان پر محمود غزنوی کے سترہ حملوں کا کیا قصّہ ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی: اس موضوع پر علی گڑھ یونی ورسٹی کے پروفیسر محمد حبیب نے بڑی اچھی کتاب لکھی ہے۔ اس میں انھوں نے محمود غزنوی کو توسیع پسند ثابت کیا ہے، جو وسط ایشیا میں اپنی ایک بڑی سلطنت قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس کام کے لیے اْسے ہندوستان کے خزانوں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اْس نے ہندوستان آنے کے بعد سوائے پنجاب کے کسی اور علاقے پر قبضہ نہیں کیا۔ محمود نے پنجاب کو ہیڈ کوارٹر کے طور پر اپنے پاس رکھا تھا، جہاں سے وہ دیگر علاقوں میں لْوٹ مار کرواتا تھا۔ لْوٹ کا مال اور خراج لے کر وہ وسط ایشیا واپس چلا جاتا تھا۔اس کے تمام حملوں کا واحد مقصد ہندوستان کی دولت لْوٹنا تھا۔یہاں ہندوؤں سے لڑتا اور وہاں مسلمانوں سے لڑتا تھا۔

سوال: ہماری نصابی کتابوں میں محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری، محمود غزنوی وغیرہ کو پڑھایا جاتا ہے، جن کا تعلق اس خطہ سرزمین سے نہیں تھا۔ ان کے مقابلے میں بھگت سنگھ، ٹیگور، سوبھو گیان چندانی اور سامی وغیرہ کو نصاب میں شامل نہیں کیا جاتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر مبارک علی: ہمارے ہیرو اْس وقت پیدا ہوئے جب 1924 میں خلافت تحریک ناکام ہوئی اور اس کے ردعمل میں فرقہ وارانہ جذبات پیدا ہوئے۔ اْس سے پہلے محمد بن قاسم، محمود غزنوی یا محمد غوری کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر ضرور تھا، لیکن عام مسلمان انھیں ہیرو کے طور پر نہیں جانتا تھا۔جب فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو مسلمان تاریخ دانوں نے اْن مسلم شخصیات کو کھوج کر نکالا، جنہوں نے ہندوؤں کو شکست دی تھی تا کہ اپنی برتری کو ثابت کیا جا سکے۔ دوسری طرف ہندو مورخوں نے بھی ہندو ہیرو کو کھوجا،جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف لڑائیاں لڑی تھیں۔ مثلاً رانا پرتاپ، شیوا جی یا سکھوں کے گرو گوبند سنگھ وغیرہ ۔ یہ سب فرقہ وارانہ سوچ کی پیدا وار تھے۔ چنانچہ دونوں قوموں کے ہیرو الگ الگ ہیں۔ 1857 کی جنگ میں ہندو اور مسلمان مل کر انگریزوں کے خلاف لڑے تھے۔ اس واقعے پر پہلی کتاب انڈین وار آف انڈیپنڈنس، وینایک داموتھر ساوارکر نے 1890 میں لکھی تھی، جس میں ساوارکر نے بہادر شاہ ظفر، جھانسی کی رانی، نانا صاحب، حضرت بیگم اورحضرت محل وغیرہ کو ہیروثابت کیا۔ کتاب چھپتے ہی انگریزوں نے اس پر پابندی لگا کر ساوارکر کو قید کر دیا۔

ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پھر یہی ساوارکر بعد میں ہندو توا کا بانی بنا،جو ہندوؤں کی انتہائی فرقہ پرست تنظیم تھی۔ اس طرح ہم نے تاریخ کو مذہبی کر کے اس کا خاص کردار ختم کر دیا۔ تاریخ کو مذہبی نقطہ نظر سے پڑھنے اور لکھنے سے اْس کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔ یہ کام ہندوستان میں بھی ہْوا۔لیکن آج ہندوستان کے مورخ ان بنیادوں سے بہت آگے چلے گئے ہیں۔ ہندو شخصیات کو تو چھوڑیں ہم تو مولانا ابولکلام آزاد کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ حسرت موہانی کا البتہ کچھ ذکرضرور کر دیتے ہیں۔ سامی جیسے بڑے شاعر کو ہم نے بالکل بھلا دیا ہے۔خود اْردو کے ہندو شعرا کو ہم نے اپنے نصاب سے نکال دیا۔ رتن ناتھ شرسار، دیال شنکر کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔کرشن چندر کو نہ جانے کیسے برداشت کر رہے ہیں،کچھ عرصے بعد شاید انھیں بھی ’’نصاب نکالا‘‘ مل جائے۔

سوال: پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے کون سی مستند کتاب ہے؟
ڈاکٹرمبارک علی: ایک کتاب کا حوالہ دینا بہت مشکل ہے۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں مختلف نقطہ ہائے نظر سے لکھی گئی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں کوئی اچھی کتاب، نظر نہیں آتی، لیکن بہر حال کچھ بنیادی کتابیں ہیں، جو طالب علموں کے لیے لکھی گئیں،جیسے خالد بن سعید کی کتاب فارمیٹو فیز آف پاکستان، اگرچہ مختصر ہے، لیکن اچھی ہے۔ آئی ایچ قریشی نے بہت ہی یک طرفہ تاریخ لکھی ہے،جس میں کوئی نیا مواد نہیں ملتا۔یہی معاملہ عائشہ جلال کا ہے۔ جناح پر لکھی گئی ان کی کتاب اچھی ہے، لیکن اس کے بعد اْن کے یہاں کوئی نئی تحقیق نہیں ملتی۔ نئے لکھنے والوں کے لیے سندھ آرکائیوز میں کافی مواد ہے یہاں انگریزوں کے زمانے کی پولیس، سی آئی ڈی اور جیل کا ریکارڈ بھی رکھا ہوا ہے، جس کی مدد سے اْن رہنماؤں کا دوسرا رخ سامنے لایا جاسکتا ہے جو انگریزوں کے لیے کام کیا کرتے تھے۔

سوال: کیا جنرل ایوب نے ڈاکٹر احمد حسن دانی سے پاکستان کی تاریخ لکھنے کی فرمائش کی تھی؟
ڈاکٹر مبارک علی: ایوب خان کے زمانے میں پاکستان کی تاریخ لکھنے کی کوشش ہوئی تھی۔ایوب نے اس سلسلے میں کچھ مورخین کو بلایا تھا، جن میں ڈاکٹر حسن دانی بھی تھے۔ وہاں یہ بحث ہوئی کہ تاریخ کس طرح لکھی جائے۔ دانی صاحب نے کہا کہ ہمیں تاریخ صرف پاکستانی خطے سے متعلق لکھنی چاہیے اور ہندوستان کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ لوگوں نے کہا کہ اس طرح تو سارا مغل دور اور دوسرے اہم ادوار پر ہم کچھ نہیں لکھ سکیں گے۔ حسن دانی نے جنرل ایوب سے کہا کہ اچھا پھر جیسا آپ کہیں گے، ویسی تاریخ لکھ دیں گے۔ (ہنستے ہوئے) پھر وہ کتاب ’’ہسٹری آف پاکستان ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ، جس میں احمد حسن دانی، آئی ایچ قریشی اور شیخ عبدالرشید وغیرہ کے علاوہ دوسرے بڑے نام تھے۔لیکن تاریخ کے حوالے سے یہ کتاب بالکل بے کار ہے۔

ایک دل چسپ بات بتاؤں کہ پروفیسر شیخ عبدالرشید نے مغل دَور پر ایک مضمون لکھا تھا، جو ’’ہسٹری آف پاکستان‘‘ میں شامل تھا۔ اس جرنل کے ڈائریکٹر آئی ایچ قریشی تھے۔ شیخ صاحب کا مضمون میں پڑھ چکا تھا۔ جب میں نے آئی ایچ قریشی کی کتاب ’’مسلم کمیونٹی ان انڈو پاک سب کانٹیننٹ‘‘ نکالی تو اس میں بالکل ایسا ہی ایک پیراگراف تھا، جو شیخ صاحب کے مضمون میں تھا۔ آئی ایچ قریشی اکبر بادشاہ کے خلاف تھے اوراس پیراگراف میں اکبر کی بْرائیاں کی گئی تھیں۔ میں بڑا حیران ہوا کہ دونوں بڑے اسکالرز ہیں، کس نے کس کا پیراگراف چْرایا ہے۔

بہر حال میں جب 1992 میں ’’کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ‘‘ کی دعوت پر شہنشاہ اکبر پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے انڈیا گیا تو وہاں میں نے اس کا ذکر شیخ عبدالرشید کے شاگرد پروفیسر عرفان حبیب سے کیا۔ جب شیخ صاحب علی گڑھ تشریف لائے تو عرفان حبیب نے اْس پیراگراف کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے اْن سے کہا،’’ آپ ہمیںیہاں اکبر کی خوبیاں گنواتے تھے لیکن پاکستان جا کر اْس کے خلاف لکھنے لگے‘‘۔ شیخ صاحب کہنے لگے، ’’ یہ پیراگراف میں نے نہیں لکھا، بلکہ آئی ایچ قریشی نے میرے آرٹیکل میں شامل کر دیا تھا۔‘‘یہ آئی ایچ قریشی کی بے ایمانی تھی، جس پر شیخ صاحب نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ جب آپ ریاست کے لیے لکھتے ہیں تو ایک طرح آپ خود کو بیچ دیتے ہیں۔اس طرح قریشی صاحب نے بھی اپنے آپ کو بیچ دیا اور احمد حسن دانی نے تو تاریخ کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں ہندوستان سے تعلق توڑ کر سینٹرل ایشیا سے جوڑنا چاہیے اورپاکستان میں فارسی کو سرکاری زبان قرار دینا چاہیے۔

سوال: آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ایک مخصوص نظریے کے تحت تاریخ کو دیکھتے اور لکھتے ہیں؟
ڈاکٹر مبارک علی: کوئی بھی تحریر لکھنے کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ میرا تاریخ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ روایتی تاریخ کے اْصولوں کو توڑا جائے اور عام لوگوں میں تاریخ کا وہ شعور پیدا کیا جائے جو روایتی تاریخ پیدا نہیں کر سکتی۔ کسی نظریے یا خیال کے بغیر آدمی تاریخ نہیں لکھ سکتا۔ میں دوسروں کی طرح واقعات کو مسخ نہیں کرتا نہ نظر انداز کرتا ہوں۔آئی ایچ قریشی کی کتاب ’’علما ان پولیٹکس‘‘ یا ’’مسلم کمیونٹی ان انڈو پاکستان سب کانٹیننٹ‘میں انھوں نے تاریخی واقعات کو بہت زیادہ مسخ کیا ہے۔

سوال:آئی ایچ قریشی نے کون سے تاریخی حقائق مسخ کیے ہیں؟
ڈاکٹر مبارک علی: انھوں نے اپنی کتاب ’’مسلم کمیونٹی ان انڈوپاکستان سب کانٹیننٹ‘‘ میں یہ بات ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں مسلم قومیت اور اتحاد کا جذبہ شروع سے موجود تھا۔ ایران، عرب، سینٹرل ایشیا اورافغانستان کے مسلمان ہندوستان آنے کے بعد مسلمان برادری میں ضم ہو جاتے تھے اور اْن کی علاقائی شناخت باقی نہیں رہتی تھی۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ انگریزوں سے پہلے ہندوستان میں ’’مسلم‘‘ لفظ برادری کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا۔ ’’مسلم کمیونٹی‘‘ کا لفظ برطانوی دور میں استعمال ہوا۔ اس سے پہلے ہر ایک کی اپنی الگ شناخت ہوتی تھی۔ تاریخ میں یہ افغانی، تورانی، ایرانی اور عرب کہلاتے تھے۔ اْس زمانے میں جو ہندو، مسلمان ہو جاتا تھا، وہ بھی اپنی پرانی شناخت برقرار رکھتا تھا،جیسے میو، راجپوت، قائم خانی یا خان زادہ وغیرہ۔

برطانوی دور میں ہندوستانیوں کو کمیونٹی کی بنیاد پر الگ الگ نام دیے گئے۔ مثلاً مسلم کمیونٹی، ہندو کمیونٹی یا سکھ کمیونٹی۔ یہ اْس زمانے کی پیدا وار ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ دو قومی نظریہ شروع سے تھا اور سارے مسلمان ایک طرف اور ہندو دوسری طرف تھے۔روایت پسندوں نے مجدد الف ثانی کو ہیرو بنایا، حالاں کہ وہ انتہائی متعصب تھے، جو کہتے تھے کہ ہندوستان میں گائے کی قربانی عین شریعت ہے، ہندوؤں سے نہ صرف جزیہ لینا چاہیے، بلکہ اْن کے منہ کھلوا کر تھوک دینا چاہیے۔ وہ ریاضی، فلسفہ اور اس طرح کے دیگر علوم کے سخت خلاف تھے اور کہتے تھے کہ صرف وہ علوم پڑھنے چاہیے، جن سے شریعت کو فائدہ ہو۔الف ثانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اکبر کی سیکولر یا رواداری کی پالیسی کے خلاف جہاد کیا تھا۔ حالاں کہ انھیں اْس زمانے میں کوئی جانتا تک نہیں تھا۔

سوال:پاکستان میں انقلاب آنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا آپ یہاں انقلاب کے آثار دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر مبارک علی: پاکستان میں انقلاب کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کے خلاف انقلاب آنا چاہیے تھا۔ حبیب جالب کی شاعری وہ لوگ پڑھ رہے ہیں، جن کے خلاف انھوں نے شاعری کی تھی۔ جب تک مفکر اور فلسفی ٹھوس بنیادوں پر نئے افکار و خیالات پیدا نہیں کریں گے، اْس وقت تک معاشرے میں وہ ذہنی تبدیلی نہیں آئی گی، جو انقلاب کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

سوال: آپ نظریاتی طور پر ترقی پسندہیں،کمیونسٹ ہیں یا کچھ اور ہیں؟
ڈاکٹر مبارک علی: میں اپنے اوپر ریڈیکل کا لیبل نہیں لگاتا۔ البتہ میں ترقی پسند ہوں۔ یہاں کے سکہ بند کمیونسٹ یا ترقی پسند مجھے پسند نہیں کرتے۔مجھے نہیں معلوم کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ مثلاً لاہور میں ایک تقریب میں عابد حسن منٹوبھی تشریف فرما تھے۔ جب میرا تعارف کروایا گیا کہ انھوں نے پچاس ساٹھ کتابیں لکھی ہیں تو منٹو صاحب بولے ، ’’یہ کون سی بڑی بات ہے‘‘ جب میری باری آئی تو میں نے کہا، ’’میں بہت شرمندہ ہوں کہ اتنی کتابیں کیوں لکھ دیں، آئندہ نہیں لکھوں گا۔‘‘میری کتابیں سندھ اور بلوچستان کے ترقی پسند نوجوان شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن سکہ بند کمیونسٹ، روایت پسند اور مذہبی گروپ مجھے پسند نہیں کرتے ۔ مجھے اس بات کا کوئی غم نہیں ہے۔ کیوں کہ میں جن لوگوں کے لیے لکھتا ہوں وہ شوق سے میری کتابیں پڑھتے ہیں۔

6 Comments