تم امت کا اثاثہ بن سکتے ہو

0,,18188389_303,00

ایک پاکستانی صحافی حسن عبداللہ نے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ایک ذمے دار سے ملاقات کی، جو اِس تنظیم کے لیے بھرتی کا کام کرتا ہے۔ اِس شدت پسند نے حسن عبداللہ کو تنظیم میں شامل ہونے کی دعوت دے دی۔

حسن عبداللہ نے خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کو بتایا کہ اِس شدت پسند نے اُس سے کہا ’’میرے بھائی، تم امت کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بن سکتے ہو‘‘۔ عبداللہ کے بقول اُس نے جواب دیا کہ وہ اپنی موجودہ زندگی سے خوش ہے اور جہادی بننے کا اُس کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جس پر شدت پسند نے زور دیا ،’’ اِس زندگی کے یہ مزے عارضی ہیں اور تمہیں آخرت کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق آئی ایس حسن عبداللہ پر اس لیے نظریں جمائے ہوئے نہیں تھی کہ وہ کوئی شدت پسندانہ سوچ رکھتا ہے بلکہ آئی ایس کو بخوبی علم ہے کہ بطور صحافی حسن اُن کے پیغام کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ حسن عبداللہ کی کہانی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح یہ شدت پسند تنظیم با صلاحیت اور پڑھے لکھے افراد کو اپنی تنظیم میں شامل کرنے کی کوششوں میں ہے تاکہ پاکستان کی صورت میں ایک نئے ملک یعنی پاکستان میں مضبوطی سے قدم جمائے جا سکیں۔

یہ تنظیم ڈاکٹرز، طلبہ، وکلاء، صحافیوں اور خواتین کو اپنے لیے عطیات جمع کرنےکی غرض سے استعمال کر رہی ہے اور اس صورتحال میں اسے پاکستان میں فعال دیگر شدت پسند تنظیموں خصوصی طور پر طالبان اور القاعدہ کے ساتھ سخت مقابلے کا بھی سامنا ہے۔

کراچی شدت پسندوں کا پسندیدہ شہر ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ ملک کی اقتصادی شہ رگ ہونے کی وجہ سے یہاں بہتر انداز میں فنڈز جمع کیے جا سکتے ہیں جبکہ شہر میں ایسی بے شمار غریب بستیاں بھی ہیں، جہاں آسانی سے روپوش بھی ہوا جا سکتا ہے۔

کراچی پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کے راجہ عمر خطاب نے خبردار کیا کہ آئی ایس کے پاکستان میں پنپنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ان کے بقول اس کی ایک وجہ تو سنی شدت پسند ہیں جبکہ دوسری وجہ شیعہ مخالف جذبات ہیں، جو پاکستان میں بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں۔ عمر خطاب کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے نظریے میں اہم ترین عنصر شیعہ مخالفت بھی ہے۔

آئی ایس نے گزشتہ برس مئی میں اسماعیلی شیعہ برادری کی ایک بس پر حملہ کرتے ہوئے پاکستان میں اپنی موجودگی کا اعلان کیا تھا۔ اس واقعے میں 45 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ تنظیم کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

صحافی حسن عبداللہ نے بتایا کہ آئی ایس نے اُس سے سماجی ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔ عبداللہ کے بقول اُسے یہ بھی بتایا گیا کہ خود کش کارروائیوں کے لیے حملہ آوروں کو تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

DW

Comments are closed.