داعش، شیعوں اور مسیحیوں کی نسل کشی میں مصروف

2065368_orig

امریکی کانگریس کی ایک قرارداد کے مطابق شام اور عراق کے وسیع حصوں پر قابض عسکریت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش ان ملکوں میں اپنے زیر اثر علاقوں میں شیعہ مسلمانوں، مسیحیوں اور ایزدیوں کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات سترہ مارچ کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ اعلان امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کیا۔

جان کیری نے کہا، ’’عسکریت پسند گروپ داعش اپنے بارے میں جو دعوے کرتا ہے، جو اس کے نظریات ہیں، جو اس کی کارروائیاں ہیں، جو کچھ یہ گروہ کہتا ہے، جس پر اس کو یقین ہے اور جو کچھ یہ کرتا ہے، یہ گروہ ہر حوالے سے نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے‘‘۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا، ’’داعش شام اور عراق میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں، مسیحیوں اور ایزدی عقیدے کے پیروکاروں کے حوالے سے انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب بھی ہو رہا ہے‘‘۔

اے ایف پی کے مطابق وزیر خارجہ جان کیری نے یہ بات آج امریکی کانگریس کے اس فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد کہی، جب ارکان کانگریس نے رائے شماری کے ذریعے ایک قرارداد کی منظوری دے دی۔ یہ قرارداد اس بارے میں تھی کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادیوں کے ہاتھوں مختلف مذہبی اقلیتوں کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جانا چاہیے۔

اب جب کہ امریکی کانگریس نے اس شدت پسند گروہ کے ہاتھوں شام اور عراق میں بے دریغ قتل و غارت کو نسل کشی قرار دے دیا ہے، اس امریکی اقدام کے داعش کے لیے بین الاقوامی سطح پر سخت قانونی نتائج کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔

امریکا پہلے ہی اپنے حلیف مغربی ملکوں اور عرب ریاستوں کے ایک ایسے عسکری اتحاد کی سربراہی بھی کر رہا ہے، جس کی طرف سے شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں کو مسلسل فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

عراق میں ایسے حملوں کا مقصد ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا آئی ایس کے خلاف جنگ میں بغداد حکومت کی حمایت کرنا بھی ہے جبکہ شام میں ایسی کارروائیوں کا مقصد داعش کی مخالف ان شامی ملیشیا قوتوں کی مدد کرنا ہے، جو اس گروہ کے خلاف زمینی مزاحمت میں مصروف ہیں۔

، ادھر پاکستان میں بھی داعش اور طالبان کی حامی مذہبی جماعتیں جن میں لشکر جھنگوی اور جیش محمد نمایاں ہیں شیعوں کے قتل عام میں مصروف ہیں ۔ کراچی، کوئٹہ ، گلگت میں شیعوں کو چن چن کر قتل کیا گیا ہے لیکن پاکستانی ریاست ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر سکی۔

DW

Comments are closed.