کرد تنازعہ، مغربی سامراجی اتحاد میں نیا شگاف

 میراث زِروانی

YPG-women


مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ایشیاء میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات ان خد شات کو یقین میں بدل رہے ہیں کہ یہاں لگی ہوئی جنگ کی آگ کے شعلے بجھنے کی بجائے نہ صرف مزید بھڑکیں گے بلکہ یہ آگ پھیل کر اردگرد کے خطوں سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں بھی لے سکتی ہے ۔یہ خدشات ان تضادات کے نتیجے میں سامنے آ رہے ہیں جو اس خطے میں جاری تصادم میں شریک صرف متضاد مفادات کی حامل حریف علاقائی و عالمی سامراجی طاقتوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ ایک صف میں شامل سامراجی اتحادیوں کے مابین بھی پائے جاتے ہیں ۔اس پر انتشار کیفیت کی جغرافیائی ، سیاسی اور اقتصادی و سعت اگرچہ پورے خطے پر محیط ہے مگر شام اس کا سب سے متحرک اور کلیدی مرکز قرار دیا جاسکتا ہے ، یہ شام ہی ہے جس نے خطے میں نئی حریفانہ صف بندیوں کو جنم دیا اور اب یہ بظاہر مشترکہ مفادات کے حامل اتحادیوں میں دراڑیں ڈالتا ہوا نظر آتا ہے۔

باہم گہرے عہدو پیمان کے حامل مثالی سامراجی اتحاد میں انتشار کا ایک اہم سبب کردقومی سوال کے حالیہ ابھار کو قرار دیا جا رہا ہے ، جو ترک حکومت کی طرف سے نہ صرف اپنے زیر کنٹرول علاقے بلکہ شام کے کردوں کے علاقے میں جاری فوجی کارروائیوں میں آنے والی تیزی کے باعث انتہائی شدت سے ابھر کر سامنے آیا ہے ، اگرچہ کرد تنازعہ کا ابھار ایران ،عراق اور شام کیلئے بھی تشویشناک ہے تاہم ترکی کا رد عمل سب سے شدید تر اور جارحانہ ہے، جس کا سبب کرد ستان کے سب سے زیادہ اور وسیع علاقے پر ترکی کا قابض ہو نا اور یہاں کئی دہائیوں سے جاری آزادی پسند کرد تحریک بھی ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق کردوں کی مجموعی تعداد چار کروڑ ہے ، جغرافیائی طور پر کرد سر زمین پانچ ممالک ترکی، عراق، ایران، شام اور آرمینیا میں تقسیم ہے، کردوِں کی دنیا میں مجموعی آبادی کا تقریباً دو تہائی سے زائد حصہ ان ممالک میں آباد ہے ، جبکہ تنازعہ کے نتیجے میں کردوں کی ایک بڑی تعداد امریکہ و یورپ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں مہاجرین کی زندگی گزار رہی ہے۔کرد اپنی قومی شناخت کو ترک،عرب اور فارس سے الگ اور جداگانہ قرار دیتے ہوئے ایک آزاد و خود مختار کردستان کا قیام چاہتے ہیں ۔ یہ مطالبہ تب سے ہے جب کرد قوم اور اس کی سر زمین کی سامراجی طاقتوں نے چیر پھاڑ کرتے ہوئے انہیں کئی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا ۔

تاہم ترکی میں کردوں نے 1984ء میں قومی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کی صورت میں تحریک کو مزید تیز کر دیا ، جو بائیں بازو کے نظریات کی حامل ’’کردستان ورکرز پارٹی ‘‘(پی کے کے)کی قیادت میں ابھری جس کی سر براہی عبداللہ اوجلان کے پاس تھی، تاہم عبداللہ اوجلان کی گرفتاری اور بعض دیگر عوامل کے باعث تحریک میں نہ صرف دھیما پن آیا بلکہ پی کے کے اور ترک حکومت میں جنگ بندی کا معاہدہ بھی طے پایا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے پر آمادگی کی وجہ پی کے کے کی اپنے گرفتار سر براہ عبداللہ اوجلان کو سزائے موت سے بچانے کی مجبوری تھی ، جس میں بعض عالمی طاقتوں کا کردار بھی بیان کیاجاتا ہے ۔ اس تحریک کے دوران تقریباً 40ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔

معاہدے کے بعد کردش ورکرز پارٹی نے پر امن اور جمہوری انداز سے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا، جس میں ترکی کے زیر کنٹرول علاقے میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے حصول کے علاوہ تقسیم شدہ کرد قوم اور سر زمین کو ایک آزاد قومی ریاست کی شکل میں یکجا اور متحد کرنا اولین مقاصد تھے، جس کا منطقی نتیجہ کردستان وکرزپارٹی اور ترک حکومت کے درمیان ٹکراؤ بڑھنے اور جنگ بندی کے ٹوٹنے کی صورت میں لازمی برآمد ہونا تھا، کیونکہ جنگ بندی کے بعد ترک حکومت نے ایسی آئینی و سیاسی اصلاحات عمل میں نہیں لائیں جو کردوں کو مطمئن کر سکتیں ، بلکہ اس کے بر عکس سیز فائر کو ترک حکمرانوں نے کرد قومی سوال کو مزید دبانے اور نو آبادیاتی تسلط کو مضبوط بنانے کا بہترین موقع جانا ، لیکن خطے اور دنیا میں جنم لینے والی تیز ترین تبدیلی اور کرد سر زمین پر قابض ریاستوں کے شدید ترین داخلی بحرانوں کے علاوہ کردوں میں نو آبادیاتی جبرو استحصال کیخلاف بڑھتی ہوئی بے چینی اور مزاحمتی جذبات کے ابھار نے ترک حکمرانوں کی تمام تدبیروں کو نا کام بنا دیا ہے ۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کردوں کی حالیہ تحریکی شدت میں صدام حکومت کرد خاتمے کے بعد جنم لینے والے عراق میں کردوں کی داخلی خود مختاری کے اقدام کا کلیدی نظری کردار بھی شامل ہے، اور صرف نظری ہی نہیں بعض صورتوں میں عملی کردار بھی ہے ، کیونکہ عراق میں محدود قومی خود مختاری کی بنیاد پر کرد ریاست کے قیام سے کردوں کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ ترکی، شام اور ایران میں بھی ایسی ابتدائی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں جو آگے چل کر ایک متحدہ وسیع تر آزاد خود مختار کرد ستان ریاست کے قیام کی منزل کو قریب اور آسان بنا سکتا ہے ۔

دوسری طرف عراق میں خود مختار کرد علاقہ ترکی سمیت متاثرہ ریاستوں میں جاری کرد تحریک کیلئے لانچنگ پیڈاور محفوظ مرکز کے طور پر بھی سامنے آیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ترکی نے صرف اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ہی جارحانہ ریاستی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ عراق کے کرد علاقوں میں بھی فوجی کارروائیاں عمل میں لائیں اور وہاں فوج کو تعینات کیا۔یہ تعیناتی عراقی کرد علاقوں میں داعش کے ہاتھوں وہاں کام کرنے والے ترک شہریوں کو یرغمال بنانے کی صورت میں انہیں بازیاب کرانے اور داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر عمل میں لائی گئی لیکن داعش کی طرف سے ترک یر غمالیوں کو رہا کرنے اور داعش کو پیچھے دھکیلنے کے باوجود ترکی نے یہاں سے اپنی فوج کو واپس نہیں بلایا اور آخر کار کرد حکومت کے علاوہ عراقی حکومت کو افواج کی واپسی کیلئے ترکی پر دباؤ بڑھانا پڑا ، اور جب ان مطالبات کو ترکی نے کسی خاطر میں نہ لایا تو عراق کو اقوام متحدہ سے رجوع کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔

مبصرین کے مطابق ترکی کو یقین ہے کہ عراقی خود مختار کرد علاقہ ترکی میں برسر پیکار آزادی پسند کرد جنگجو ؤں کی محفوط پناہ گاہ ہے جہاں کرد جنگجوؤں کے تربیتی کیمپ بھی قائم ہیں ، مگر عراقی کرد حکومت ان دعوؤں کو بے بنیاد الزامات قرار دے کر مسترد کرتی آئی ہے ۔ ان تردیدوں کو ترکی کسی خاطر میں نہیں لا رہا ہے ، عراق میں مداخلت کے علاوہ ترک حکومت شام کے کرد علاقوں میں فوجی کارروائی سمیت ہر قسم کی مداخلت کر رہی ہے ۔ طیب اردگان حکومت کا کہنا ہے کہ شامی کرد جماعت ڈیمو کریٹک یونین پارٹی اور ترکی میں سرگرم کرد ستان ورکرز پارٹی کے درمیان گہرے مراسم ہیں اور وہ پی کے کے کی مدد کر رہی ہے ۔ شام میں داعش کیخلاف لڑنے والی کرد فورس وائی پی جی کو ڈیمو کریٹک یونین پارٹی پی وائی ڈی کا مسلح ونگ قرار دیا جاتا ہے ، اسی لئے ترکی اس تنظیم یا فورس کیخلاف شام میں بھر پور فوجی کارروائی کا آغاز کر چکا ہے ۔

واضح رہے کہ شامی کرد فورس نے داعش کو کو بانی سمیت کرد علاقوں سے بابر نکالنے میں کردار ادا کیا تھا، جس کی فضائی اور زمینی مدد امریکہ و یورپ کی طرف سے کی جا رہی ہے ، ترکی کے بھر پور اختلاف کے باوجود امریکہ و یورپ شامی مسلح کردوں کو داعش کیخلاف تشکیل دیئے گئے عالمی جنگی اتحاد کا حصہ تصور کرتے ہیں اور انہیں ترکی کے مطالبے کے مطابق دھشت گرد تسلیم کرنے سے مسلسل انکاری ہیں ،جس کا ایک سبب داعش کیخلاف اس کرد فورس کی کامیابیاں ہیں اور دوسری بڑی وجہ کردوں کو روس کے قریب جانے سے روکنا قرار دیا جا رہا ہے ، کیونکہ روس اور ترکی کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے بعد روسی میڈیا اور حکومتی عہدیدار کردوں کیخلاف فوجی کارروائیوں پر ترکی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور روسی میڈیا ترکی کے جنوب مشرقی کرد علاقوں میں اردگان حکومت کے انسانیت سوز کریک ڈاؤن کے دوران سامنے آنے والی انسانی حقوق کی پا مالیوں کو بھر پور پروپیگنڈہ کے طور پر دنیا کے سامنے لا رہا ہے ۔

روس کے اس کردار کے باعث طیب اردگان ترکی میں کرد تحریک کے ابھار کو روسی مداخلت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔ ترکی کی جانب سے یہ مسلسل الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ روس کرد جنگجوؤں کی پشت پناہی کر رہا ہے ، اگرچہ روس ان الزامات کی تردید کر چکا ہے لیکن کرد مسئلے پر ترکی کو درپیش داخلی سلامتی کے چیلنج کو روس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے سود مند تصور کرتا ہے ، کیونکہ کرد ستان جغرافیائی طور پر خطے میں انتہائی اہمیت کا علاقہ ہے، جو خطے کی سیاسی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ،اس کے علاوہ کرد ایشو پر نیٹو اتحاد میں دراڑیں پیدا ہو چکی ہیں ۔ کردستان ورکرز پارٹی کو امریکہ و یورپ کی طرف سے دہشت گرد قرار دینے کے باوجود ترکی کے کردوں پر حملوں پر وہ خوش دکھائی نہیں دیتے ، اور مغرب کردوں کیخلاف کارروائی کو روکنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ 

مغرب کو یقین ہے کہ ترکی کے حملوں سے شامی مہاجرین کے بعد کرد مہاجرین کی یورپ آمد کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ اس کے آثار ترک حکومت کے کرد علاقوں میں کریک ڈاؤن کے دوران وہاں کے باشندوں کے انخلاء اور ان کی بڑی تعداد کے یورپ کا رخ کرنے کے واقعات کی شکل میں سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں ۔ خطے کے جنگی حالات کے باعث نقل مکانی کرنے والے کردوں کیلئے یورپ سے بڑھ کر کوئی دوسراخطہ محفوظ نہیں ہے ،ایسی صورت میں یورپ قطعی یہ نہیں چاہتا کہ کرد تنازعہ ایسی شدت اختیار کر جائے کہ جسکے منفی اثرات اُسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں، خاص طور پر مہاجرین کا نیا سیلاب جس کے نام سے ہی یورپ پر خوف اور تشویش کی کپکپی طاری ہو جاتی ہے، جس کے پیش نظر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یورپ پر آج مہاجرین کا بھوت منڈلا رہا ہے جو یورپ کا سکھ چین اور راتوں کی نیند اڑا چکا ہے، لہٰذا یورپ کرد تنازعے پر ترک پالیسی کی تبدیلی کا خواہشمند ہے، اور اس حوالے سے یورپ ترکی پر سفارتی دباؤ بھی بڑھا رہا ہے ، لیکن امریکی و یورپی دباؤ کے باوجود ترکی کردوں کیخلاف فوجی کارروائیوں میں شدت لا رہا ہے، جس سے ترکی کے جنوب مشرقی کرد علاقے میدان جنگ میں بدل گئے ہیں۔ کردوں کے احتجاج اور تحریک کوکچلنے کیلئے ٹینکوں و بکتر بند گاڑیوں سمیت ترکی بھر پور زمینی و فضائی فوجی طاقت استعمال کر رہا ہے ، خاص طور پر دیار باقر انسانی المیوں اور تباہی و بربادی کے وہی مناظر پیش کر رہا ہے جو جنگ زدہ شام اور یمن کے نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف کرد مزاحمت میں بھی شدت آرہی ہے۔گذشتہ ماہ فروری 2016ء میں استنبول اور ایک کرد علاقے میں فوجی قافلوں کو خوفناک بم دھماکوں سے نشانہ بنایا گیا ، پہلے دن استنبول میں ہونے والے بم دھماکے جس کو خود کش حملہ قرار دیا گیا میں 26فو جیوں سمیت 28،افراد جبکہ دوسرے دن کرد علاقے میں کئے جانے والے بم حملے میں6ترک فوجی ہلاک ہوئے۔اس کے علاوہ کرد ستان ورکرز پارٹی کے مسلح چھاپہ ماروں کے حملوں میں بھی تیزی آگئی ہے جن میں درجنوں فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور ہلاکتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے، اس کے علاوہ کرفیو سمیت بد ترین ریاستی پابندیوں اور طاقت کے استعمال کے باوجود کرد عوامی مظاہروں اور احتجاج میں بھی وسعت و شدت آرہی ہے ۔

کردوں کے عزائم ظاہر کرتے ہیں کہ اپنے قومی ، سیاسی اور جمہوری حقوق کی بازیابی تک تنازعہ پر قابو پانا اب آسان نہیں ہے ، کیونکہ ترکی کے زیر کنٹرول علاقوں کے علاوہ شامی کرد فورس کی پیش قدمی میں تیزی آئی ہے، آمدہ اطلاعات کے مطابق کرد فورس ترکی سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں تقریباً ایک سو کلو میٹر تک اپنے قبضے کو مضبوط بنانا چاہتی ہے ، جو ترکی کیلئے ناقابل برداشت ہے، اب تک ترکی کردوں کی پیش قدمی روکنے میں نا کام رہا ہے ، کہا جاتا ہے کہ شام میں جاری لڑائی کا سب سے زیادہ فائدہ کردوں کا ہوا ہے ، جنہیں اس جنگ کے نتیجے میں اپنے علاقے پر عملداری قائم کرنے کا موقع میسر آیا ہے، جو عراق کے بعد آزاد خود مختار کردستان کے قیام کے حوالے سے شام میں ملنے والی دوسری بڑی کامیابی ہے، اور وہ اس کامیابی کا دائرہ ترکی کے زیر کنٹرول سب سے بڑے کرد علاقے تک پھیلانا چاہتے ہیں۔

لازمی بات ہے کہ ترک سرحد سے متصل عراق وشام میں کردوں کی خود مختار انتظامیہ یا حکومت ترکی میں جاری کرد تحریک سے لا تعلق نہیں رہ سکے گی اور ظاہری یا خفیہ طور پر تحریک کی حمایت ومدد بھی کی جاتی رہے گی۔بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں کردستان کے قیام کیلئے خطے اور دنیا میں عالمی طاقتوں میں جاری ٹکراؤ ایک ایسا سنہری موقع ہے جو اس سے پہلے کردوں کا حاصل نہیں ہو سکا ، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ و یورپ اپنے قریبی نیٹو اتحادی ترکی کو کرد مسئلے پر ناراض کر چکے ہیں۔ ترک حکمرانوں کو اپنے مغربی نیٹو اتحادیوں کی بے رخی دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ امریکہ و یورپ کو ترکی اور کردوں میں کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ ترکی اس امر پر بھی نالاں ہے کہ شامی کرد فورس پی وائی جی امریکی اسلحہ استعمال کر رہی ہے ۔

ترک حکومت کے بقول یہ وہ اسلحہ ہے جو امریکہ نے شامی باغیوں کیلئے فراہم کیا تھا جس کا ایک بڑاحصہ دولت اسلامیہ کے ہاتھ لگا اور باقی کرد فورس لے گئی ۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ و یورپ کی طرف سے پی وائی جی کو فوجی امداد فراہم کی جا رہی ہے ، ترکی کو اس بات پر بھی ملال ہے کہ شام کے تنازعہ کے حل کیلئے مذاکرات میں جن گروہوں کو شریک کیا جا رہا ہے ان میں کرد بھی شامل ہیں ۔کردوں کی شمولیت میں مغربی سامراجی طاقتوں کابھی کردار ہے ، جس سے کردوں کی سیاسی طاقت اور علاقائی سیاست میں کردار مزید بڑھے گا جو ترکی کیلئے اسد حکومت سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ ترکی نیٹو یا امریکہ و یورپ کے مفادات پر مبنی ایسی کسی بھی پالیسی واقدام کی راہ میں مزاحم ثابت ہو جو کرد مسئلے سمیت خطے میں ترک مفادات کیلئے نقصان دہ نتائج مرتب کرنے کے حامل ہوں ۔

یہ ترک طرز عمل اتحاد کے اندر ایک نئے و متوازی اتحاد کو جنم دے سکتا ہے ، جو ترک عرب اتحاد کا روپ بھی دھار سکتا ہے ، کیونکہ شام سمیت خطے کے ایشور پر امریکی و یورپی پالیسی سے صرف ترکی ہی نالاں نہیں ہے بلکہ سعودی عرب بھی نا خوش اور شاکی ہے، یہی وجہ ہے کہ مغربی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود ترکی اور سعودی عرب شام میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے باہم براہ راست فوجی اشتراک عمل قائم کر رہے ہیں جس کا اظہار سعودی عرب کی فضائی جنگی قوت کے ترکی میں تعیناتی اور اس کے بڑھتے ہوئے اجتماع میں نظر آتا ہے ، اگرچہ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ شام میں زمینی و فضا ئی فوجی کارروائی کا نشانہ داعش کو بنانا چاہتا ہے، مگر تجزیہ کار اس سعودی خواہش کے پس پردہ مقاصد زیادہ وسیع قیاس کر رہے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق داعش تو محض بہانہ ہے جس کی آڑ میں نہ صرف وہ شام میں داخل ہونا چاہتا ہے بلکہ اپنی موجودگی کے ذریعے وہ اپنے حمایت یافتہ مسلح پراکسی گروپوں کو مضبوط بھی بنانا چاہتا ہے، تاکہ اسد حکومت کو مسلسل عدم استحکام کا شکار رکھا جا سکے ۔اس کے علاوہ شام کے تنازعہ کے کسی بھی حل میں اپنی مفاداتی پوزیشن کو مضبوط بنا سکے ۔

سعودی عرب کی زمینی افواج کی شام میں تعیناتی کے امریکہ و یورپ ایک خاص حد تک حامی ہیں کیونکہ روس کی مدد سے داعش کیخلاف ملنے والی کامیابیاں اسد حکومت کا شام پر کنٹرول مضبوط بنا رہی ہیں اور داعش کی طرف سے خالی کئے جانے والے زیر قبضہ علاقے شامی حکومت کے کنٹرول میں آرہے ہیں ۔ صرف داعش ہی نہیں بلکہ عرب و مغرب نواز باغیوں کے زیر قبضہ بعض علاقوں کو بھی اسد کی حمایتی فورسز واپس چھین چکی ہیں ، اس کیفیت کے جاری رہنے سے عرب و مغرب نواز باغی پراکسی گروپ کمزور ہوں گے، جو اسد مخالف علاقائی و عالمی قوتوں کی لین دین کی پوزیشن کو مزید کمزور بنائے گا، اسی خوف سے امریکہ و یورپ اپنے اہم اتحادی سعودی عرب کی شام میں فوجی موجودگی کا حامی ہے تاکہ داعش کو زیر قبضہ علاقوں سے بے دخل کرنے کے بعد وہاں شامی حکومت کی بجائے اپنے تسلط میں لا سکے ۔

لیکن مغرب سعودی و دیگر عرب اتحادیوں کی تمام تر پیش قدمیوں اور سرگرمیوں کو اپنے مفادات و احکامات کے تابع رکھنا چاہتا ہے ، جبکہ مغربی طاقتوں میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ شام میں اسد مخالف باغی گروہوں جنہیں اب تک معتدل یا ماڈریٹ قرار دیا جا رہا تھاکی 60فیصد تعداد وہی انتہا پسند مذہبی فرقہ وارانہ نظریات کی حامل ہے جو دولت اسلامیہ اور القاعدہ کے ہیں ، جس کے باعث مغرب میں خدشہ بڑھ رہا ہے کہ کہیں سیکولر اسد حکومت کو ہٹا کر شام بھی عراق ولیبیا کا روپ نہ دھار لے، جہاں سیکولر قوم پرست صدام اور قذافی کی حکومتوں کے خاتمے کے بعد مذہبی شدت پسند گروپ اتنے طاقتور ہوگئے کہ انہوں نے ان ملکوں کے ایک وسیع وعریض رقبے پر قبضہ کر لیا اور دونوں ممالک ایک ایسی خانہ جنگی کا شکار ہوگئے ہیں جس سے چھٹکارے کا قریب قریب کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔

اگر بات ان دونوں ممالک یا مشرق وسطیٰ تک محدود رہتی تو پھر بھی مغرب کیلئے قابل برداشت تھی مگر شام سمیت ان ممالک میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جو مہاجرین کا سب سے بڑا بحران کھڑا ہوا اور جنگ متاثرین نے لاکھوں کی تعداد میں یورپ کا رخ کیا اس سے مغربی سامراجی طاقتوں خاص طور پر یورپ کو اپنی سابقہ پالیسی میں تبدیلی لانی پڑی ہے، جبکہ سعودی عرب کیلئے مذہبی شدت پسندی کا مسئلہ اولین حیثیت نہیں رکھتا ۔ مبصرین کے مطابق عرب اتحادی ماضی کی طرح ایک بار پھر دولت اسلامیہ اور القاعدہ سمیت ان مذہبی شدت پسند گروہوں سے روابط و باہمی تعاون قائم کر سکتے ہیں جو مغرب کی نظر میں دہشتگرد قرار پائے ہیں ، اس کا مظاہرہ یمن میں بڑا واضح نظر آتا ہے ، جہاں یمنی دارالحکومت صنعاپر حوثیوں کا قبضہ چھڑانے کیلئے عرب اتحادی اور القاعدہ مل کر لڑ رہے ہیں ، یہی مناظر شام میں بھی دہرائے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف ترکی بھی اسی نوعیت کے فکر و عمل کا حامل ہے، ترکی نے شام میں اپنے جن دشمنوں کی درجہ بندی کی ہے، ان میں پہلے نمبر پر کرد دوسرے پر اسد حکومت تیسرے پر یا آخری درجے پر داعش و القاعدہ قرار دئے گئے ہیں، اس کے بر عکس امریکہ و یورپ کی نظر میں نمبر ون دشمن داعش والقاعدہ اور اس کے بعد صدر اسد ہیں، جبکہ شامی کردوں کو مغرب دشمن کی بجائے لبرل وماڈریٹ اتحادی قرار دیتا ہے ، ترکی کے بارے میں اب یہ راز نہیں رہا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کی مختلف صورتوں میں پشت پناہی کرتا آرہا ہے، اور اگر مغرب کی طرف سے ترکی کو مایوس کیا گیا تو وہ اپنے دشمنوں کی فہرست سے داعش و القاعدہ کو خارج کر کے انہیں اپنے اتحادیوں میں شامل کر سکتا ہے اگرچہ ترکی کیلئے یہ آسان نہیں ہو گا مگر اپنی بقاء کے نام پر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور ترکی کی نظر میں اس کی بقاء کو خطرہ کردوں سے لا حق ہے داعش والقاعدہ سے نہیں ۔

ترک حکومت کا داعش والقاعدہ کیخلاف تشکیل پانے والے مغربی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ اس کے امریکہ و یورپ سے وابستہ مفادات کے تحفظ کیلئے ہے نہ کہ وہ داعش کو دشمن سمجھ کر اس اتحاد میں شامل ہوا ہے۔یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جس میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ اسد حکومت کیخلاف قائم مغرب ، عرب اور ترک اتحاد میں انتشار کا نہ صرف شگاف پڑ چکا ہے بلکہ اس میں آنے والے دنوں میں مزید گہرائی اور وسعت پیدا ہوگی ، جس کا سب سے زیادہ فائدہ کرد اور اسکے علاوہ روس اور صدر اسد کو ہو گا ، اور فائدہ اٹھانے والے یہ تینوں فریق بدلتے حالات کے ساتھ ایک صف میں بھی متحد ہو سکتے ہیں، اس سلسلے میں اب مغرب سے بھی ایسی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں ، جن میں کردوں کے روس کے علاوہ اسد حکومت سے بھی اندرونی روابط وباہمی تعاون کے استوار ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، 

یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ شام میں جاری جنگ تمام تر فائر بندی کے معاہدوں کے باوجود نہ صرف جاری رہے گی بلکہ اس میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی جس کا نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں بھی بر آمد ہو سکتا ہے ، جو کرد مسئلے سمیت قومی و علاقائی تنازعات کے مزید ابھار اور نئی جغرافیائی حد بندیوں کی تشکیل کا سبب بھی بن سکتا ہے ،جس کا فائدہ کردوں سمیت ان قومی تحریکات کو حاصل ہو گا جو اپنے جداگانہ قومی تہذیبی و ثقافتی شناخت کے تحفظ اور اپنی سر زمین کو نو آبادیاتی تسلط سے آزاد کرانے کیلئے سر گرم ہیں۔

اس ممکنہ پیش منظر کے اثرات محض مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ایشیاء تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ وسطیٰ وجنوبی ایشیاء سمیت پوری دینا پر مرتب ہوں گے ، کیونکہ سامراج میں پڑنے والی پھوٹ نے عالمی و علاقا ئی متضاد مفادات رکھنے والی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ اور تصادموں کو پورے کرہ ارض تک پھیلا دیا ہے،ایسی صورت میں پاکستان سمیت دیگر ریاستوں کا متا ثر ہو نا نا گزیر ہے،جہاں بلوچ مسئلہ سمیت قو می سوال شدت اختیار کر رہا ہے ۔

خاص طور پر بلوچ آزادی پسند تحریک پر قا بو پا نے میں نا کا می اور بلو چستان کی انتہائی اہم جغرافیائی و اسٹریٹجک اہمیت کے با عث اس کے علاقا ئی سیاست میں بڑھتے ہوئے اثرات امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ نئی جغرا فیائی تبدیلیوں کا اثر خطے کی کثیر القو می ریاستوں پر پڑ سکتا ہے ۔ اس تنا ظر میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مو جو دہ علاقا ئی و عالمی سامرا جی طاقتوں کے ما بین تصادم کا منظر نا مہ اگر چہ قو می و طبقا تی جبرو استحصال سے نجات کی تحریکات کی کامیا بیوں کے لئے سازگار نظر آتا ہے لیکن حقیقی نجات اور کامیا بی تب ہی ممکن ہے کہ جب اقوام و عوام الناس کو محکوم و غلام بنا نے والی سامراجیت اور زوال پذیر سر ما یہ دارا نہ نظام کے خاتمے کے انقلا بی فکروپروگرام کو تحریکوں کی نظر یاتی اساس بنا یا جائے اور اسی بنیاد پر محکوم اقوام و مظلوم طبقے کی سامراج دشمن حریت پسند تحریکات کا بین الاقوا می اتحاد تشکیل دیا جائے ۔

Comments are closed.