پارسائی کا مبالغہ

پروفیسر مبارک حیدر

0,123
یہ شاید ہماری نرگسیت یا مریضانہ خود پسندی کی ایک علامت ہے کہ ہم کریڈٹ انپے لئے رکھ کر ملامت دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ مسلم معاشروں اور، خصوصی طور پر پاکستان کی الجھنوں کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ ان کے بلند آواز عناصر کی خود اعتمادی انہیں اپنی آواز کے سوا کچھ سننے ہی نہیں دیتی۔ کہنے کو تو ہمارے ہاں روحانیت کے چرچے ہیں لیکن فضیلت کی بنیاد مال اور اقتدار کے سوا کچھ نہیں۔ نہ علم و دانش کی کوئی وقعت ہے نہ خدمت وخلوص کی، نہ محنت واستقامت کسی کھاتے میں ہے، نہ ہنر اور لگن، نہ ہی سادگی اور انکسار قابل احترام بن سکے ہیں۔

زیادہ غور سے دیکھنا ہمارے ہاں ناپسندیدہ عمل ہے، ہم گزرتی ہوئی عورتوں کے علاوہ کسی بھی حقیقت کو زیادہ توجہ سے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ تاہم اگر کچھ وقت کیلئے اس قانون کو بدل دیا جائے اور غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری نظر میں مال اور اقتدار بھی اُسی صورت میں باعث فضیلت ہے اگر وہ ہمارا اپنا ہے یا ہمارے پسندیدہ لوگوں کا ہے۔ حتیٰ کہ عبادت بھی وہی ٹھیک ہے جو ہمارے پسندیدہ مسلک کے مطابق کی جائے۔

سنتِ رسولؐ کے کچھ ظاہری پہلوؤں کو دنیاوی جاہ وجلال کا ایسا ذریعہ بنا لیاگیا ہے کہ نبیؐ کے سارے باطنی کمالات آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے آپؐ کی ذات میں شفقت وانکسار، محبت، درگزر، شیریں کلامی، فراخدلی، تنگدستی میں وقار اور حسِ جمال ایسی کوبیاں تھیں جو صرف نعتوں اور خطبوں کا مضمون ہیں۔ اقبال نے اپنے پہلے لیکچر میں رسول اللہؐ کی ایک دعا کا ذکر کیا تھا ’’اے اللہ مجھے واقعات وکائنات کی اصل صداقتوں کا علم عطا کر‘‘۔ 

یوں لگتا ہے کہ جیسے علم کہ یہ آرزواب ہمارے لئے قابل تقلید نہیں رہی قابل تقلید ہے تو بس ایک مخصوص حلیہ، جسے دیکھ کر دل نہیں مانتا کہ عربوں کے نفیس ترین صاحب جمالؐ کی مشابہت ان لوگوں سے ہوسکتی ہے جن کے کاروبار حرص کے جہنم اور گھر خوشحالی کے نمائش کدے ہیں، جن کے وعظ کڑکتی بجلیوں جیسے اور چہرے کرختگی کے صحراہیں، جہاں اپنائیت سے بھری ایک مسکراہٹ ڈھونڈتے آپ کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام نے دولت اور خوشحالی سے منع نہیں کیا بلکہ اس دنیا میں جو اچھا ہے سب حلال ہے۔ تو کیا کرخت حلیے، اپنائیت سے کالی چہرے اور جستجو سے محروم آنکھیں یہی ’’حسنہ‘‘ کی تعریف میں آتی ہیں؟

اس نرگسی تمدن کی تہہ میں بہت سی خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں ہیں، مبالغے اور مغالطے ہیں، جن کے نتیجے میں یہ تمدن ایک ایسی اذیت میں پھنس گیا ہے جو ہر دن بڑھتی ہے لیکن دردمندی اور احساس کی بجائے التا کرختگی کو جنم دیتی ہے۔ بے حسی اور خود پسندی کی وہ شکلیں جو ہمیں اپنے اس معاشرے کے طاقتور اور خوشحال طبقوں میں ملتی ہیں غالباً دنیا کے بدترین سرمایہ پرست معاشروں کے مافیا کے ہاں بھی نہیں۔ یورپ اور امریکہ، روس اور چین جنہیں ہم مادیت پرستی کے طعنے دیتے نہیں تھکتے، وہاں کے بدترین سرمایہ پرست اگر ہمارے تاجر، عالم دین اور مجاہد کی سنگ دلی دیکھ لیں تو شدّتِ رشک سے پتھر ہوجائیں۔

حقیقی اذیت کا شکار معاشرہ کے وہ کم نصیب طبقے ہیں جو اکثریت میں ہیں، لیکن احتجاج کی شدت ایسے خوش نصیبوں کے ہاں ملتی ہے جنہیں بظاہر کوئی تکلیف نہیں۔ دل ہلا دینے والی چیخیں ایسے حلقوں سے سنائی دے رہی ہیں جو دین کی نگرانی کے دعویدار ہیں، یاجن کا تعلق نفاذ دین کی تحریکوں سے ہے جنہیں ایک تو خود مسائل کا سامنا نہیں د وسرے عوام کے مسائل کبھی ان کا مسئلہ نہیں رہے۔ پاکستان کی صنعت وحرفت پر مسلسل زوال ہے، جبکہ غیر پیداواری تجارت، کرپشن اور غیر ملکی امداد کچھ لوگوں کی خوشحالی کے واحد ذرائع رہ گئے ہیں، ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کی مجبوری بن گئے ہیں لہٰذا وہ اور دے گا۔

فوجی آمریتوں کے ساتھ دینی قوتوں اور مسلمانوں کا روباری طبقوں کا کچھ ایسا فطری اتحاد ہے کہ آمریتوں کے دس دس برس ایک مست سناٹا چھایا رہتا ہے، جبکہ سول حکمرانی آتے ہی چیخ وپکار آسمانی تک جاتی ہے، میڈیا ایک ایک ن کا حساب مانگتا ہے، دین کی حفاظت پر مامور جماعتیں اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہے اور خوشحال کاروباری عناصر کو زندگی جہنم دکھائی دیتی ہے۔ اس نفرت کا نتیجہ ہے کہ محترم نواز شریف جو خوشحال کاروباری طبقوں کے محبوب قائد مشہو رتھے، ان طبقوں میں صرف اس لئے ناقابل برداشت ہوگئے کہ انہوں نے فوج کو دعوت دینے کی بجائے سول حکومت سے تعاون کرلیا۔

سول حکمرانی اور جمہوریت کا یہ دعویٰ نہیں کہ یہ مکمل ضابط حیات ہے۔ یہ نظام اس لئے بہتر ہے کیونکہ یہ رضامندی اور شمولیت کا نظام ہے۔ انسانی عقل اور علم کو جائز مانتا ہے۔ اجتماعی عقل اور شراکت اقتدار کو برحق قرار دیتا ہے۔ کسی یونیورسٹی یا کسی مدرسہ کی سند کو عوام پر حکمرانی کا پروانہ نہیں مانتا۔ یہ نظام کسی جرنیل یا جج کا یہ حق نہیں مانتا کہ وہ عوام کی تنخواہ وصول کرتے کرتے ان پر حکمران چننے کاباربار موقع فراہم کرنے کا نظام ہے جو ایسے لوگوں کو زہر لگتا ہے جنہیں لوگ زہر لگتے ہیں اور لوگوں کی شمولیت عذاب۔

وہ عناصر جن کے دانت اس ملک کی شہ رگ میں پیوست ہیں، جن کی پیاس مٹاتے مٹاتے یہ ملک سوکھی ریت کا صحرا بن گیا ہے، جنہوں نے پاکستان کی63سالہ تاریخ میں50 سال سے زیادہ حکومت کی ہے، جب یہ جمہوریت پر خون کے پیاسے ہوکر جھپٹتے ہیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ اس صورتحال کے پیچھے کیا ہے؟ اگر جمہوریت سے شدید نفرت کرنے والوں نے اس ملک کو سنوارا ہوتا اور جمہوری ادوار میں تباہی وبربادی کے واضح ثبوت سامنے ہوتے تو پھر بات کافی واضح ہوجاتی۔ پھر بھی یہ سوال باقی رہ جاتا کہ آکر وہ کیا قوت ہے جو اتنے کرپٹ سیاسی لوگوں کو ملک پر پھر مسلط ہونے میں مدد دیتی ہے۔

مثلاً 1977ء میں ضیاء الحق اور اس کے ٹیم نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کردنیا کو خوشخبری دی کہ بھٹو کی آمریت ختم کردی گئی ہے، بدی کے اس مرکز کو تباہ کردیا گیاہے، اب دھاندلی سے جیتنے والے بھٹو کی جماعت کو کھلے انتخابات میں شکست ہوگی۔ لیکن انتخابات کبھی منعقد نہ ہوسکے کیونکہ ایجنسیوں اور ضیاء پرستوں کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کو شکست دینا ممکن نہ تھا۔ پھر فوجی آمریت نے بھٹو صاحب جو جسمانی طور پر ختم کرکے دس برس کی مسلسل مہم کے بعد جب انتخابات کروائے تو لٹی اور ماری ہوئی پیپلز پارٹی نے آمریت کے دودھ پر پلے ہوئے پہلوانوں کو شکست دے دی۔ بدنامی کے طوفان سے نڈھال ہونے کے باوجود اور طویل جلاوطنی کاٹنے کے بعد سیاسی رہنماہی عوام کے رہنما رہے۔

چنانچہ شریف برادران اور محترمہ بے نظیر کو لوگوں نے پھر حکومت کرنے کیلئے منتخب کیا۔ لہٰذا اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ جمہوریت نے اس ملک کو لوٹ کھایا ہے اور فوجی آمریتوں اور ان کے لے پالک ادا کاروں نے ملک کو چار چاند لگادئیے ہیں، تب بھی لوگوں کا باربار جمہوری پارٹیوں کو عزت دینا ایک سوال رہ جاتا ہے۔ اسی طرح دس سالہ جبری جلاوطنی کے بعد میاں نواز شریف کو عوام کی طرف سے پذیرائی اس کی عمدہ مثال تھی۔

جبکہ سچ یہ ہے کہ اس ملک کا جو حال ہوا ہے اس کی ذمہ داری مکمل طور پر ان عناصر کی گردن پر ہے جو ہر بار سول حکمرانی اور جمہوری عمل پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو بھی اچھی بری ترقی ہوئی ہے اس کا سہرا جمہوری عمل اور جمہوری قوتوں کے سر ہے، جن میں اُس دور کی نواز لیگ شامل ہے جب وہ آمریت کے سائے سے نکل کر خود آمریت کا نشانہ بنی اور اے این پی شامل ہے جو بھٹو صاحب کی طرف سے زیادتی کے باوجود بالآخر جمہوری عمل میں پیپلز پارٹی کی رفیق ہے اور ایم کیوایم شامل ہے جو الزامات سے قطع نظر کراچی کے لاکھوں پڑھے لکھے مڈل کلاس عوام کی آواز ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے صنعتوں کو تباہ کردیا اور پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بننے سے روک دیا۔ اگر یہ سچ ہے کہ بھٹو صاحب کے صرف تین برس(یعنی1974تا1977) کے اقدام نے صنعتوں کو ڈھیر کردیا، یعنی چند صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے اور محنت کش ملازمین کو’’گستاخ‘‘ بنانے کے عمل نے ایسا کیا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھٹو کے بدترین دشمنوں اور مخالفوں کی حکومتیں جو1977ء سے2008ء تک 30 برس قوم کی پیٹھ پر سوار رہی ہیں، صنعتوں کو بحال اور توانا نہیں کرسکیں۔ سوویت یونین میں1917ء سے1987ء تک ستر برس قومی ملکیت اور مزدور کی گستاخی کا دور دورہ رہا۔

قومی ملکیت اور مزدور کی آزادی سے اگر تباہی آتی ہے تو ستر برس یہ تباہی ہوتی رہی ۔ حالانکہ یہ ملک سوئی سے لے کر سپٹنک تک بنانے لگ گیا، تاہم مانا کہ مزدور کی آمریت نے جمود پیدا کیا۔ پھر کیا سبب ہے کہ1987ء سے2007ء کے بیس برس میں روس دنیا کے مضبوط ترین صنعتی ملکوں میں پلٹ آیا۔ اور اب زرمبادلہ کے ذخائر اور صنعتی خوشحالی میں دنیا کے پہلے چار پانچ ملکوں میں سے ہے۔ اسی طرح چین کی مثال ہے جو 1949ء سے قومی ملکیت اور مزدوروں کی گستاخی کا علمبردار ہے۔ پھر کیونکر ایسا ہوا کہ یہ دنیا کہ مضبوط ترین صنعتی معیشت کے طور پر ابھرا ہے۔

سچ یہ ہے کہ ہماری صنعتوں کے زوال کا تعلق بھٹو کے تین برس کے ساتھ نہیں کڑواسچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں گملوں میں اُگی ہوئی ایک ایسی کرپٹ سرمایہ داری مسلط ہے جسے خون کا پیدائشی سرطان ہے۔ اسے ہر سال عالمی امداد اور سرکاری سرپرستی کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ اس لئے دستیاب نہیں ہوپاتی کیونکہ یہ ملک فکری اور اصولی طور پر جدید صنعتی اور جمہوری ترقی کیلئے بناہی نہیں۔ اس کی صنعت اور سیاست کی جڑوں میں کوئی فلسفہ ایک وسیع وعریض چٹان کی طرح پڑا ہے جو جڑوں کو پھیلنے ہی نہیں دیتا۔

جمہوریت اور صنعت دونوں جدید علوم کی پیداوار ہیں۔ ممکن نہیں کہ یہ قبائلی افکار سے بندھے ہوئے معاشروں میں پروان چڑھیں۔ جمہوریت کو اختلاف ، شمولیت اور فراخدلی کی ضرورت ہوتی ہے جو کھلے فکر کے ماحول میں میسر آتی ہے اور صنعت کا اصول ہے کہ یہ ریسرچ یعنی جستجو اور ایجاد پر پلتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں یہ کیسے پنپ سکتی ہیں جہاں صنعتکار سمیت ہر کسی کا نصب العین صرف بے حد منافع اور بے حد ثواب ہو، جہاں مملکت شب وروز مسلح افواج کی خوشامد اور اندر باہر کے دشمنوں سے اپنا دفاع کرنے میں لگی ہو۔ یعنی وسائل کا عظیم ترین حصہ افواج اور عسکری مقاصد پر خرچ ہوتا ہو، فوجی قوت صنعت کے نتیجے میں پیدا ہونے کی بجائے صنعت فوجی قوت کی محتاج ہو، لوگ ریسرچ کے نام سے الرجک ہوں، کتاب صرف امتحان پاس کرنے کیلئے پڑھی جاتی ہو، قوم کی درسگاہیں اور مدرسے قاری، حافظ اور مفتی پیدا کریں اور قوم کے خوشحال طبقوں کے ہاں استدلال اور علم کا داخلہ بند ہو۔

حفاظ پیدا کرنے والے اس معاشرے میں بورڈ اور یونیورسٹی کے نتائج میں حاصل کردہ نمبر بڑھتے بڑھتے اب سو فیصد کو آپہنچے ہیں۔ جیسے کہ بچوں کا حافظہ کمپیوٹر سے بھی بڑھ گیا ہے لیکن سو فیصد مارکس لینے والی یہ نسلیں علم کا انڈہ کہاں دیتی ہیں، کسی کو نہ خبر ہے نہ پرواہ۔ حافظ، قاری اور امام مسجد پیدا کرنے کا مشن قوم کو یوں تو پاکستان بننے کے ساتھ ہی عطا ہوگیا تھا لیکن ایوب خان کے دور میں کچھ رکاوٹ رہی۔ قوم دوسرے علوم کے عالم بھی پیدا کرتی تھی۔ چنانچہ بھٹو صاحب کی تحریک کو ان گنت دانشور، فنکار، شاعر اورا نجینئر ملے، جو روشن خیال ہونے کوگالی نہیں مانتے تھے۔ 

پھر ضیاء الحق اور افغان جنگ نے قوم کے مقاصد ومعیار بدل دئیے۔ مال اور مذہب فضیلت کا میعاربن گئے۔ حتیٰ کہ محترمہ بینظیر کے آتے آتے پارٹی کے پرانے ساتھ بھٹو صاحب کی شہادت کے باعث بددل ہوکر یا عافیت کی بکل مار کر غائب ہوچکے تھے جبکہ نئے دانشوروں کی دانشگاہیں سعودی عرب منتقل ہوچکی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس جو بچا تھا وہ چابت قدم مگر بے علم کارکنوں کا ایسا ہجوم تھا جو جمہوریت او ربھٹو خاندان کیلئے جان تو دے سکتے تھے لیکن اپنے قائدین اور عوام کو راستہ دکھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔

فکری وفاداریوں کا سعودی عرب منتقل ہونا اچھا تھا یابرا اس کا فیصلہ دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک ایمان اور عقیدہ کے تناظر میں اور دوسرے، نتائج کے اعتبار سے۔ یہ الگ بات کہ عقائد کا تناظر ایسا ہے کہ اس میں نتائج خواہ کتنے بھیانک ہوں نور میں دھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ اگر کسی پہلو کی بدصورتی ٹالے نہ ٹلے تو اسے شیطان کے کھاتے میں ڈالنا یا روشن خیالی کے سرمنڈھ دینا مشکل نہیں ہوتا۔ چنانچہ میڈیا اور رائے زنی کے کئی سورما اس وقت اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم نتائج خودکشی کابار دوبن کر سب کے سامنے پھٹ رہے ہیں۔

کیا پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اسلام اور جرنیل اور جج اور میڈیا مظلوم ہیں، اسلام کے محافظ کمزور ہیں اور مذہبی سیاست کرنے والوں کی کوئی آواز نہیں؟ یا کیا اس کا المیہ اس کے عین برعکس ہے کہ یہ ملک اکیسویں صدی میں قبائلی نظام کے محافظوں کا یرغمال بنا ہواہے؟ کیا پاکستانی معاشرہ کی بدترین الجھنوں کا علاج یہ ہے کہ اسے اسلام اور اس کو استعمال کرنے والوں سے بھر دیا جائے یا جمہوریت اور مذہبی فراخدلی پر مبنی جدید طرز حکومت اس کے معاملات کا حل ہے؟

جمہوریت اور انسانی وسائل کی نشوونما کیوں ضروری ہے، یہ پہلا سوال ہے۔ اگرچہ یہ سوال مسلم ممالک کے سوا دنیا کے کسی ملک میں اب زیر بحث نہیں۔ جمہوریت اور جدید علمی بنیادوں پر انسانی وسائل کی نشوونما ایسی بنیادی ضرورتیں ہیں جس پر کسی کو اختلاف نہیں۔ اگرچہ امریکہ کی حکومت چین پر اعتراض کرتی ہے کہ وہاں عوام کو جمہوری حقوق حاصل نہیں لیکن چین کا نقطہ نظریہ ہے کہ اُس کے ہاں جمہوریت اپنی حقیقی وسیع ترین شکل میں موجود ہے جس کا نتیجہ اس کے عوام کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور خوشحالی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں جمہوریت کا سوال ابھی تک بحث کا موضوع ہے۔

پچھلی ایک صدی میں آبادیوں کا پھیلاؤ اور انسانی امنگوں کا ابھار ایک نئے انداز سے ہوا ہے۔ بہترعلاج اور زندگی کی بڑھتی ہوئی سہولتوں کے ساتھ شعور پھیلا ہے۔ رسل و رسائل او رمعلومات کا سیلاب آگیا ہے، جس نے عام لوگوں کو آرزو کرنے اور حاصل کرنے کی سوچ دی ہے۔ ہمارے ہاں بجلی اور توانائی کے جدید نظام میں آنے والی کوتاہیوں پر عوام کا شدید ردعمل یہ چابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ انسان پچھلی صدیوں کے طرز زندگی کو قبول نہیں کرتا، اسے جدید ترین سہولتیں مانگنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ ایک بجلی اور توانائی ہی کی بات نہیں، علاج معالجہ، رہائش، لباس، تعلیم، تفریح اور نقل و حمل کے ذرائع سبھی جدید بنیادوں پر فراہم کرنا آج کی مملکتوں پر لازم ہوگیا ہے۔ 

یہ درست ہے کہ مسلم معاشرے جمہوری نظام اور مذہبی برابری کیلئے اصرار نہیں کرتے، کیونکہ مذہبی نظریات اور جاگیر دارانہ قبائلی نظام کے علاوہ جرنیلوں کا عمل دخل ایسا ہے کہ فکری سطح پر بہت الجھنیں موجود ہیں۔ مسائل پر بات کرنے کی مکمل آزادی نہیں۔ مذہبی قوتیں جارحانہ اثرورسوخ کا استعمال کرکے مسائل کی بحث کوبے نتیجہ بناتی رہی ہیں، حتیٰ کہ اُن کی قوت بالآخر مملکت سے بغاوت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔

لیکن عالمی معاشرہ مسلم معاشروں کیلئے رک نہیں سکتا۔ صنعت اور پیداوار کے جدید نظام تیزی سے اور بھی جدید ہوتے جارہے ہیں۔ آگے کی طرف تبدیلی بقا کی لازمی شرط ہے۔ بہت سے ملک علم کی معیشت کے دور میں داخل ہوگئے ہیں یعنی صنعت وحرفت اور زراعت ہی نہیں بلکہ تقریباً ہر شعبۂ زندگی میں جدید ترین سائنسی علوم او رکمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت کے آلات کی مدد لی جانے لگی ہے۔ ایسے حالات میں پسماندہ معاشی نظام زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے۔

پیداوار کے بوسیدہ نظام کے ساتھ پاکستان اپنی ادئیگیوں کا توازن مزید تباہ ہونے سے روک نہیں سکتا۔ نہ ہی انتظامی اور دفاعی لحاظ سے اپنی سلامتی کو یقینی بناسکتا ہے۔ جسے بیرونی جارحیت سے زیادہ اندرونی خطروں یعنی جرائم پیشہ گروہوں اور باقی عناصر کا سامنا ہے۔ جب ہمارے دینی رہنما خود مختاری اور غیرت کا نام لیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے ممالک کے آگے کشکول پھیلانا بند کردے تو وہ اس بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے کہ یہ ملک صنعت اور جدید علوم کے بغیر خود کفالت کا خواب کیسے دیکھ سکتا ہے اور صنعت ریسرچ کے بغیر کیسے پنپ سکتی ہے۔ یایہ کہ ریسرچ انسانی وسائل کی نشوونما کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ اور انسانی وسائل کی نشوونما افکار کی آزاد کے بغیر کیسے ممکن ہے؟

انسانی وسائل کی پسماندگی کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے کسی شعبہ میں کوئی منصوبہ بندی ایسی نہیں جو ملکی آبادی کے معاملات حل کرسکے، معدنی وسائل کی تنظیم، رسل ورسائل، نقل وحمل، صحت، تعلیم، زراعت اور صنعت میں سے کون سا شعبہ ہے جہان ہماری کارکردگی ہمارے مسائل کے مطابق ہے؟ عالمی معیار کی تو بحث ہی کیا ہم پچھلے کئی عشروں سے اپنے پرانے معیار بھی برقرار نہیں رکھ سکے۔

Comments are closed.