مصطفٰی کمال، کٹھ پتلی کا کھیل اور کچھ سوال

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیرسامی

پاکستان میں بدنصیب کراچی والوں سے کھیلے جانے والے مسلسل کھیل میں اکثر نئی پرانی کٹھ پتلیاں بھی اچھلتی کودتی، اٹھلاتی، ناچ ناچتی اور دھمال ڈالتی نظر آتی ہیں۔ یہ کھیل کم از کم پچاس سال سے جاری ہے، جس کے ڈانڈے بہر صورت ایک سابق فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان ہی سے سلسلہ وار ملتے جاتے ہیں۔

ایوب خان کے بعد ہر فوجی آمر نے براہِ راست یا بالواسطہ کراچی کے معاملات میں اپنی دخل اندازی جاری رکھی ہے، چاہے یہ اُن کے اپنے فوجی گورنروں اور کور کمانڈروں کے احکامات کے تحت ہو، چاہے فوج کے بوٹوں کے نیچے دبے اُن سیاست دانوں کے ذریعہ سے ہو جن کی حکومتوں کا ہر دن بندوق برداروں کی حمایت یا ان کے دبائو کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔

جو بھی سیاستدان عوامی حمایت یا جمہوریت کے دھوکے میں کبھی متعینہ حدوں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے ، اُس کاحشر ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو، اکبر بگٹی، اور ان دیگر سیاسی کارکنوں کی طرح سے ہوتا ہے جن کے لیے شاعر نے لکھا تھا کہ، ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘۔ جو فوج یا اس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں مارے جانے سے بچ جاتے ہیں، انہیں ایم کیو ایم کے قائد الطافؔ حسین کی طرح ہمیشہ کے لیے ملک بدر ہونا پڑتا ہے۔ یا انہیں نواز شریف کی طرح پہلے قلعوں کے تہہ خانوں میں بچھوئوں کا کھیل دکھا کر کسی ہمدرد ملک کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ وہ پھر جب ہی واپس آسکتے ہیں جب انہیں افسرانِ بالا اپنی کسی خدمت کے لیے آنے کی اجازت دے دیں۔

پاکستان کے آئین ، جمہوری نظام، اور سول حکومت کو زچ رکھنے کے لیے، سیاستدانوں کے قتل،اور جلا وطنی کے ساتھ ساتھ جو اہم حربے استعمال کیے جاتے ہیں اس میں انہیں ملک دشمن، غدار، اور غیر ملکیوں کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، اور مسلسل الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بھارت یا ایسے کسی اور دشمن ملک کے آلہ کار ہیں۔

پاکستان کی سیاست کے آنگن میں ایک بار پھر دیوار پھاند کر بیرونِ ملک سے ایم کیو ایم کے سابق کارکن مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے کراچی میں نمو دار ہونے پر ہمیں ایک شاعر کا یہ شعر بے ساختہ یاد آگیا، ’’ دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا۔۔جب دھم سے آکہوں گاصاحب سلام میرا ‘‘۔ ان دو حضرات کے کراچی پر ایک نئے شب خون اور نقب زنی کی داستان اتنی واضح ہے کہ پاکستان کے چند اہم کلام نگاروں نے نہ صرف اس پر کھل کرتبصرہ کیا ہے بلکہ بین السطور بھی نظر ڈالی ہے۔

معروف صحافی حامدؔمیر نے اپنے جنگ اخبار کے کالم ’’متحدہ قومی مصلحت‘‘میں سیاستدانوں پر غداری کے الزامات کے بارے میں کھل کر لکھا ہے کہ ایوب خان نے تو قائدِ اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر بھارت کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کراچی میں مصطفیٰ کمال کے تازہ شب خون اور دیوار پھاند کر سلام کرنے والی پریس کانفرنس میں ان کی لن ترانیوں میں ان کی آنکھوں میں نمناکی اور بھرائی ہوئی آوا ز میں ’پاکستان میں صدارتی نظام ‘ کی بات بھی سنی گئی۔ جسے عام طور پر دیگر میڈیا ادارے گول کر گئے۔ حامد میر نے لکھا ہے کہ، ’’مصطفٰی کمال کی انٹری اور ان کی پریس کانفرنس نے اس خدشہ کو تقویت دی ہے کہ کہیں نہ کہیں ، کوئی نہ کوئی، متحدہ قومی مصلحت کے نام پر ۱۹۷۳ ِ کےمتفقہ آیئن کو توڑ کر ایک نیا آیئن بنانے کے منصوبہ کو آگے بڑھا رہا ہے‘‘۔

حامد میر نے تو اپنی معروضات بین السطور پیش کی ہیں، لیکن پاکستان کے ایک اور مقبول کالم نگار، ایاز امیرؔ نے ، جوا یک سابق فوجی ہیں ، اپنے تازہ ترین کالم ’Cleansing Pakistan, The long haul‘ میں واضح طور پر لکھتے ہیں ، اور میں اس کا ترجمہ پیش کرتا ہوں ، جو اس طرح ہے کہ:۔

جو لوگ مصطفٰی کمال کی قابلیت ، نیک نیتی، یا ان کے سچے ہونے پر سوال اٹھا رہے ہیں ، وہ میرے خیال میں ٹھیک سے نہیں سوچ رہے۔ مصطفی کمال کی واپسی کسی منصوبہ بندی کے تحت ہو یا نہ ہو، یہ بھی ہماری افواج کی قوتِ ارادی اور ثابت قدمی ہی کا حصہ ہے۔۔۔اور فوج ہی اس سلسلہ کو چلا رہی ہے۔ جو کراچی کو یہاں کیے جانے والے آپریشن سے پہلے کے دور میں نہیں جانے دے گی۔ وہ باب اب ختم ہو گیا۔‘‘

ایاز امیر کا سارا کا سار ا کالم افواجِ پاکستان کا طولانی قصید ہ ہے ، جو ہمارے ملک کے ایک خاص طبقہ کی آمریت پسند ذہنیت کی غماضی کرتاہے۔ موقع ہو تو ڈھونڈھ کر پڑھ لیں۔ اب سے پہلے ہم ایاز امیر کو ایک معتبر معروضی کالم نگار تصور کرتے تھے۔ لیکن اب یہ باب بھی بند ہوا۔

جو لوگ احمقوں کی طرح اب مصطفٰی کمال کے گُن گارہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی شخصیت کا ہیولیٰ اس جھوٹ کی بنیاد پر آگے بڑھایا گیا تھا کہ وہ کبھی کسی مغربی رسالہ کے کسی مضمون کی بنیاد پر خود کو دنیا کا دوسر ا بہترین میئر قرار دیتے تھے، اور جشن مناتے تھے۔ لیکن پھر اس ہی جریدے نے یہ بھانڈا پھوڑاکہ وہ ان کی غلط بیانی تھی، اور ایسا کچھ نہیں تھا۔ مصطفٰی کمال اور بالخصوص ان کے موجود دستِ راست انیس قائم خانی ، عوامی سوالوں سے جان نہ چھڑا پایئں گے۔

کچھ لوگ تو ان کی تعلیمی قابلیت پر بھی سوال کریں گے۔ ’بول ‘ اور ’ایگزیکٹ ‘ کی جھوٹی ڈگریوں کے اسکینڈل کے بعد اب تو ہر اس قابلیت پر شبہ ہوتا ہے جس میں کسی مغربی نما ادار ے کی چھاپ دکھائی دی جائے۔اسی طرح حامد میرؔ نے یہ سوال بھی کیا ہے، ’’انیس قائم خانی بھی کئی مقدمات میں مطلوب ہیں۔کیا الطاف حسین کو غدار کہنے سے ان پر جے آئی ٹی رپورٹوںمیں موجود تمام الزامات صاف ہو گئے ؟

چاہے مصطفٰی کمال ، اور انیس قائم خانی وغیرہ فوج کے کندھوں پر سوار ان کی بندوقوں کی حمایت میں ہی کیوں نہ آئے ہوں جیسا کہ ایاز امیر نے قیاس کیا ہے، ان سے سوال تو کیے جایئں گے۔ گو یہ ضرور ہے کہ مصطفٰی کمال اپنی بر افروختگی کی عادت کی وجہ سے بہت مغلظات ہی کیوں نہ کہنے لگیں۔ اُن سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ بھائی جان آپ دوبئی میں بدنامِ زمانہ، یا مشہور زمانہ ’ملک ریاض ‘ کی روٹیا ں کیوں توڑ رہے تھے؟

انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ کراچی والوں نے سالہا سال کی زیادتیوں کی بنیاد پر ہی ایم کیو ایم کا ساتھ دیا تھا اور دیتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایم کیوا یم کے ایک نہایت مخلص ساتھی نے چند سوال اٹھائے ہیں، ہم انہیں قاریئن اور مصطفی کمال صاحب کو پیش کر دیتے ہیں۔ مانونہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے:۔

١۔ کیا الطاف حسین صاحب نے آپ کو رکن صوبائی اسمبلی، پھر وزیر، پھر ناظم، ممبر رابطہ کمیٹی، اور سینیٹر نہیں بنایا تھا؟ بقول آپ کے ایم کیو ایم کی سیاست الطاف حسین کا انفرادی شو ہے، تو یقینا آپ کی اس حد تک پزیرائی کے پیچھے الطاف حسین ہی کا ہاتھ ہوگا۔ تو کیا آپ کا ان تمام حیثیتوںمیں انتخاب بھی انہوں نے نشہ کی حالت میں کیا تھا۔

٢۔ آپ کہتے ہیں کہ بحیثیت ناظم کراچی آپ نے ۳۰۰ ِ ارب روپے کراچی کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کیے ۔ کیا اس رقم میں سے الطاف حسین نے آپ سے اپنے لیے یا ایم کیوایم کے لیے رقم طلب کی، اور اگر ایسا ہے تو آپ نے ایم کیو ایم کو کتنا بھتا دیا۔ یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ ایک ایسی پارٹی نے جس کا ایجنڈا ہی کراچی کی تباہی ہے، اس نے کراچی کی تعمیر و ترقی پر اس حد تک دلچسپی لی کہ اس کے قائد نے آپ جیسے با صلاحیت شخص کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ آپ پر کسی قسم کی کرپشن کا دباو نہیں ڈالا۔

٣۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ دبئی میں جس عہدے پر پچھلے تین برسوں فائز رہے ہیں ، وہ آپ کی تعلیمی قابلیت اور استعداد سے بہت زیادہ ہے۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ جس کمپنی کے آپ ملازم ہیں ، اس نے آپ پر یہ مہربانی کیوں فرمائی ہوئی ہے۔ اس کمپنی کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے کیا تعلق ہے۔ چلیں کمپنی کا نام ہی بتادیں، لوگ خود اندازہ لگالیں گے۔ اپنی ان حیثیتوں کا فائدہ اٹھا کر جو ایم کیو ایم کے مرہونِ منت تھیں، معاشی فائدے حاصل کرنا کیا کرپشن نہیں کہلائے گا؟

٤۔ کیا آپ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ کی ایم کیو ایم کے لیے کیا قربانیاں ہیں۔ جس لیڈر کی برابری کرنے کا آپ دعویٰ کر رہے ہیں ، اس نے پارٹی کی بنیاد رکھی، ایک پوری کمیونٹی کو اس کی شناخت دی، متوسط طبقے کی سیاست کا فلسفہ دیا، غریبوں اور متوسط طبقے کے افراد کو ایوانوں میں پہنچایا، اس شخص نے نہ کبھی خود کو اور نہ اپنے خاندان کے افراد کو ایوانوں میں بھیجا، اپنے بھتیجے اور بھائی کی جانوں کی قربانی دی، جلا وطنی جھیلی، ملک کو طالبان کا غلام بننے کے خلاف بات کی۔‘‘

ایم کیو ایم کے ایک مخلص کارکن کے ان سوالوں کے جواب اہم ہیں۔ امید ہے کہ مصطفٰی کمال کبھی ان پر دھیان دیں گے۔ لیکن ان پر فوج کی حمایت کا جو صریح الزام ’ایازؔ امیر ‘ نے اپنے طویل کالم میں لگایا ہے ، اس کا جواب وہ شاید کبھی نہ دے پائیں۔

Comments are closed.