کشمیری عوام کے لیے آزادی کا مطلب بھارت اور پاکستان د ونوں سے آزادی ہے

کشمیر کے لوگ دہلی و اسلام آباد میں کچھ لوگوں کی سازشوں کا شکار چلے آ رہے ہیں جنکے ذہن توسیع پسندانہ ہیں

ممتازکشمیری لیڈر راجہ مظفر سے انٹرویو

ڈاکٹرقیصرعباس

b56e14a6-9f96-4511-85d2-524c3b70ca78

سوال: آپ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں کافی عرصے تک سرگرم رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں آپ کس طرح سے شریک ہوئے اور اس میں آپ کا کیا کردار رہا ؟

جواب: ریاست جموں کشمیر کی وحدت اور آزادی کی بحالی کی سیاسی جدوجہد کا میرا سفر لگ بھگ پچاس سال پر محیط ہے ۔ جنگ بندی لائن کی منحوس لکیر اس یقین دہانی کے ساتھ سر زمین کشمیر کے سینے پر کھینچی گئی کہ اس سے کشمیری عوام کی پر امن آمد و رفت پر کوی قد غن نہ ہو گی، لیکن یہ بات ایک بڑا دھوکہ ثابت ہوئی۔ فوجوں کا انخلا اور گھروں کو واپسی کشمیر میں ایک لا حاصل گورکھ دھندہ بن کر رہ گیا۔

اس خونی لکیر نے ہمارے گھر بار، خاندان، رشتوں ناطوں قبرستانوں تک کو تقسیم کر دیا۔ خاندان کو یکجا دیکھنے کی خواہش نے مجھے ایسے لوگوں کا ہم خیال بنا دیا جو منقسم ریاست جموں کشمیر کو یکجا کر کے اسے ایک آزاد و خودمختار درجہ دلانا چاہتے تھے۔ اور یہ خاندان کی سیاست سے پہلی بغاوت اور سفر آزادی کے آغاز کا سبب بنا۔

مظفرآبادہائی اسکو ل میں راجہ خالد صاحب میرے ایک استاد ہو اکرتے تھے جو میرپور کے راجہ محمد افضل خان کے صاحبزادے تھے ۔ان سے میں نے کشمیر شناسی کا درس لیا ، کشمیر سے پہچان انہوں نے ہی دلائی۔ پھر میرے تایا پیر مقبول گیلانی نے میری سیاسی تربیت کی اور میں جموں کشمیر محاذ راے شماری میں شامل ہوا۔ اس طرح خاندانی سیاست سے بغاوت کے ساتھ میرا سیا سی سفر شروع ہوا۔مقبول بٹ سرینگر جیل سے فرار ہو کر مظفرآباد پہنچے تو انہیں گرفتار کر کے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

طلبہ کے ساتھ کالج کی یونین سیاست میں متحرک تھا ،بٹ صاحب کی رہائی کیلیے مظاہروں کا اہتمام کالج طلبہ کو اپنا ہمنوا بنا کر کیا ۔کالج کے ایک طالبعلم رہنما پلندری کے خواجہ غلام نبی ، اور شیخ رشید نے بھی میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب پاکستان کے وزیر خارجہ بھٹو صاحب تاشقند معاہدہ پر اختلاف کو بنیاد بنا کر ایوب خان کے خلاف سول ایجی ٹیشن چلاتے ہوئے راولپنڈی پہنچے ۔

پشاور روڈ پر میرے ایک کلاس فیلو عبدالحمید پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے ، اس طرح بھٹو صاحب سے قریب پہنچنے کا موقع ملا اور ان تک بٹ صاحب کی بابت معلومات پہنچائیں ، انہیں پہلے ہی کسی نے بریف کر رکھا تھا اور پھر انہوں نے لیاقت باغ کے پہلے بڑے جلسہ عام میں مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کر کے حکومت پاکستان کو انہیں رہا کرنے پر مجبور کر دیا۔ محاذ رائےشماری سے وابستہ دیگر مرکزی کرداروں عبدالخالق انصاری، امان اللہ خان، جی ایم لون، میر قیوم، جی ایم میر اور دیگر لوگوں سے بھی ملاقاتوں کا موقع ملتا تھا، سفر آزادی کی کھٹن منزلیں طے کرتے ہوے ۱۹۷۵ میں مشرق وسطیٰ منتقل ہو گیا۔

ہم خیال لوگوں کو تلاش کر کے جمع کیا پھر برطانیہ میں جموں کشمیر محاذ رائے شماری کی کوکھ سے جنم لینے والی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بنی ، ابتدا میں پاکستان آزاد کشمیر میں اس کی شاخیں کھولنے کے حق میں نہیں تھا ، جب میں پاکستان واپس آیا تو پرانے ساتھیوں ڈاکٹر فاروق حیدر ، ہاشم قریشی ، سردار رشید حسرت مرحوم کے اسرار پر جموں کشمیرلبریشن فرنٹ میں شامل ہوا ۔اس تنظیم میں ہاشم نے جان ڈالی میں نے اس تنظیم میں بحثیت سیکرٹری جنرل ، سینیئر وائیس چیر مین، قائم مقام چئرمین اور سفارتی کمیٹی کے سربراہ کے طور بھی کام کیا ۔ ۱۹۹۴ تک تنظیم کے تمام ہی درست یا غلط فیصلوں کا حصہ رہا۔

جب امان اللہ خان اور یاسین ملک کے درمیان اختلافات پیدا ہوے تو میں نے تمام ہی عہدوں سے مستعفی ہو کر عملی طورپر تنظیمی معاملات سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ میں نے تنظیم و تحریک کو منظم کرنے میں جو کردار ادا کیا جو محنت کی جو ذہنی و جسمانی تکالیف اٹھائیں اس کا مجھے کوئی افسوس نہیں۔ میری خواہش ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں لوگوں کو امن، انصاف، آزادی کی صبح نصیب ہو۔

سوال:کشمیر گذشتہ ساٹھ سال سے جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملکوں کے درمیان کشمکش کا مرکز رہا ہے جو ایٹمی طاقت بھی ہیں ۔جب بھی اس خطے کا ذکر ہوتا ہے ان ہی دو ملکوں کے درمیان پسے ہوئے کشمیری عوام اور ان پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کی کیا وجوہات ہیں۔؟

جواب:کشمیر کے لوگ دہلی و اسلام آباد میں گنتی کے چند ایسے لوگوں کی سازشوں کا شکار چلے آ رہے ہیں جن کے ذہن توسیع پسندانہ ہیں۔ تنگ نظر ہیں اور انتہا پسندانہ سوچوں کے حامل ہیں۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ پاکستان کی جانب سے قبائلئ حملہ سے ایک قوم کی آزادی کا سیدھا سادہ مسئلہ علاقائی تنازعہ بن کر رہ گیا ۲۰۔ جنوری ۱۹۴۸ کو سلامتی کونسل نے رسمی طور مسئلہ کشمیر کو ہند و پاک مسئلہ میں بدل دیا ۔ بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے یہ وہ دور تھا جب سوویت روس کی حکومت کشمیر کے معاملہ پر غیر جانبدار تھی اور کسی حد تک مہاراجہ کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کرتی تھی اور کشمیر کے بائیں بازو کے چیدہ چیدہ سیاستدانوں سے براستہ کلکتہ رابطہ بھی تھا۔

سرینگر کے لال چوک کو ماسکو کے ریڈ سکوئر سے بھی تعبیر کیا گیا۔ ان ہی دنوں روس کے تبصرہ نگاروں نے بھارتی افواج کو جارح قرار دیا اور لکھا کہ پاکستان کے ساتھ راستوں کی بندش سے کشمیر کی اقتصادی صورت حال بگڑی ہے اور عوام اقتصادی بدحالی اور بے کاری کا شکار ہوے ہیں۔ ۲۳ دسمبر ۱۹۴۸ کو اپنے ایک خط میں بھارت نے پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان کی جانب سے دوسری قرارداد کے مسودے پر آمادگی ظاہر کر دی جو ۵ جنوری ۱۹۴۹ کو پاس ہوئی اور اس قرارداد نے تنازعہ کشمیر کو دو ممالک کے درمیان وجہ تنازعہ بنا دیا۔ جموں کشمیر کا سوال بھارت و پاکستان کی حکومتوں میں بیٹھے پالیسی سازوں کیلیے انسانی مسئلہ ہے ہی نہیں ، اہل کشمیر کے حق خود ارادیت پر قدغن ان کی سامراجی ذہنیت اور توسیع پسندانہ سوچوں کی عکاسی کرتا ہے ۔

سوال: ایسا لگتا ہے کہ کشمیر کی اندرونی سیاست میں تین اقسام کی قوتیں کارفرما ہیں ، بھارت کی حامی، پاکستان کی حامی اور دونوں ملکوں سے آزادی کی حامی۔ آپ کے خیال میں زیادہ تر کشمیری کس دھڑے کی حمایت کرتے ہیں اور کیوں ؟

جواب: جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں کشمیر میں تین سیاسی کیمپ ہیں ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں سے آزادی کی مانگ کرنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ اب جموں کشمیر کے دونوں جانب ایک بڑی سیاسی قوت سمجھے جاتے ہیں۔

سوال : اب تک مسلہ کشمیر کے حل کے جتنے بھی منصوبے پیش کیے گیے ان میں سابق صدرپاکستان پرویزمشرف کا چار نکاتی فارمولا سب سے ذیادہ مقبول رہا ہے۔ ایک کشمیری کی حیثیت سےآپ اس فارمولے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: مشرف کے چار نکاتی فارمولےپر بقول سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھارتی حکومت نے مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی ۔ مشرف تجاویز میں دو کشمیر کی بات ہوتی رہی، بھارت کی جانب سے کنٹرول لائین کو غیر متعلقہ بنا دینے کی باتیں ہوئیں خودمختاری اور سیلف گورننس کی باتیں ہویں۔ جموں کشمیر میں اعتماد سازی کے نام پر پرمٹ سسٹم پر محدود پیمانہ پر ہی سہی آمد و رفت کے راستے کھولے گے ، کشمیریوں نے مثبت رد عمل کا اظہار کرتے ہوے سارے عمل کی سیاسی حمایت کی لیکن کشمیریوں سے براہ راست ایک فریق کی حیثیت سے کسی نے نہیں پوچھا ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بھارت و پاکستان کو جموں کشمیر کا کوئی آؤٹ آف باکس ہی ایسا حل تلاش کرنا ہو گا جو قابل عمل ہواور بھارت و پاکستان کے ساتھ ساتھ مکمل آزادی کی مانگ کرنے والے کشمیریوں کیلیے قابل قبول ہو۔

سوال: پاک بھارت مذاکرات کا گھٹتا بڑھتا مد و جذر اب پھر عروج پر ہے اور حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم کا لاہور کا خیرسگالی دورہ مذاکرات کی نئی راہیں ہموار کرتا نظر آتا ہے۔ آپ کے خیال میں ان مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلیے کیا حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے۔؟

جواب: ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بھارت و پاکستان کے مابین غیرمشروط کمپوزٹ ڈایئلاگ میں جموں کشمیر کا سوال ایک الگ باسکٹ کے طور شامل ہے اس لیے کشمیری عوام سمجھتے ہیں کہ بھارت و پاکستان کے مابین بات چیت کی بحالی کا عمل ان کے مفاد میں ہے کشمیر کی سیاسی قوتوں نے اس کا خیر مقدم بھی کیا، کشمیری لیڈر شپ کو یقین ہے کہ جب کشمیر پر بات ہو گی تو اس میں کشمیریوں کو بات چیت عمل کا حصہ بنایا جائے گا۔ چونکہ بھارت و پاکستان کی حکومتوں کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری لیڈر شپ کی موثر شراکت کے بنا حل نہیں ہو پاۓ گا۔

اگرچہ پٹھان کوٹ ائربیس پر دہشت گرد حملے نے اس سارے عمل اور محنت کو سخت نقصان پہنچایا ہے ، دونوں جانب کی لیڈرشپ سنجیدگی سے ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے مذاکرات کی مخالف قوتوں کو بات چیت کا عمل ناکام کرنے میں کامیابی نہ مل سکے ۔پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملے میں پاکستانی عناصر کے ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک چھ رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا ہےاور جیش محمد تنظیم کے سرکردہ لیڈروں کوگرفتار کیا گیا ہے۔ یہ مثبت اقدامات ہیں جن پر اعتبارنہ کرنے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی۔

سوال : پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ کشمیر میں راے شماری اور مذاکرات میں عالمی ثالث کی شمولیت کو تسلیم کیا جائے جب کہ بھارت ان دونوں تجاویز کو ماننے سے انکار کرتا رہا ہے۔ آپ اس صورتحال کا کس طرح سے تجزیہ کرتے ہیں۔

جواب: پہلی جنگ میں ہی اقوام متحدہ نے ثالث بن کر جنگ بندی کرائی اور ایک معاہدہ پر دستخط کرائے جس کی رو سے پاکستان اور بھارت کو ریاست جموں کشمیر سے اپنی اپنی افواج کو نکالنے اور رائے شماری کرانے کو کہا گیا تھا۔ ۱۹۶۵ کی جنگ ہوئی تو روس کی ثالثی میں تاشقند معاہدہ ہوا، ۱۹۷۱ کی جنگ میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور شملہ سمجھوتہ ہوا۔ کارگل جنگ میں امریکہ نے کردار ادا کیا ۔ ا س پس منظرمیں ثلاثی سے انکار کی بات سمجھ نہیں آتی۔

سوال: برصغیر کی تاریخ اور موجودہ صورت حال کے تناظر میں آپ کے خیال میں مسٔلہ کشمیرکا مستقبل کیاہے؟

جواب: آج خطے میں جوحالات ہیں دہشت گردی اب کسی ایک قوم یا ملک کا مسٔلہ نہیں رہااور اس عفریت سے سب کو مل کر لڑناہے۔ بھارت اور پاکستان میں کچھ لوگوں نے نفرت کی جو فضا بنارکھی ہے اسے دونوں ہی ملکوں کی سیاسی قیادت نے مل کر لڑناہے۔اچھی بات یہ ہے کہ اگر بھارت و پاکستان صدق دل سے کشمیریوں سے بات چیت کرینگے اور مسٔلہ کا کوئی منصفانہ حل تلاش کرنا چاہیں گے توکشمیری قیادت ان کے ساتھ بھر پور تعاون کرے گی ۔ میرا خیال ہے کہ حالات دھیرے دھیرے مستقل بنیادوں پر قیام امن کی کوششوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جنگ علاقے کے تقریباً تین ارب انسانوں کے مفاد میں نہیں۔ علاقے میں اقتصادی سرگرمیوں کی ضرورت اور مواقع بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں چین بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے، بھارت خطے میں مضبوط اقتصادی طاقت کے طور ابھرنا چاہتا ہے ، افغانستان کے لوگ امن و سکون چاہتے ہیں ۔ ایسے میں جموں کشمیر کے ایک قابل قبول حل پر سب کے راضی ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ جموں کشمیر کے عوام خوف و دہشت کی فضاسے باہر آ کر امن و سکون اور آزادی کی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ کشمیر ایشیا کا سوئٹزر لینڈ اور امن پارک بنے گا۔

One Comment