یرغمال ریڈ زون اور ضیاالحق کی موجودگی کا احساس

11090944_100750340256913_4314071617144341197_o (1)

رزاق کھٹی

پاکستان کی مختصر تاریخ میں ماڈل ڈکٹیٹر کے طور پر جانے جانے والے ضیاالحق،اٹھائیس سال قبل بھاولپور کے قریب ایک طیارے کے پھٹنے کے نتیجے میں بظاہر تو وہ اس جہان فانی سے جسمانی طور پر چلے گئے تھے، لیکن روحانی طور پر وہ آج بھی ہمیں اپنی موجودگی کا شدت احساس سے دلاتے رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ جس شدت پسند اسلام کو پاکستان میں انہوں نے متعارف کرایا تھا وہ ان ہی کی ایجاد تھا، لیکن جنرل ضیا سے قبل پاکستان میں آنے والے حکمرانوں نے مذھب کو اپنی ذات کیلئے اس طرح استعمال نہیں کیا تھا۔

ضیا الحق کی قسمت اچھی تھی کہ انہوں نے جس وقت ایک منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹ کر انہیں تختہ دار تک پہنچایا تو اسی دور میں سوویت یونین افغانستان کی سرزمین پر پہنچ رہا تھا، ایران میں شیعہ اسلامی انقلاب اپنی آب و تاب کے ساتھ آچکا تھا۔ ضیاالحق نے امریکا کو دعوت دی کہ وہ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے میں اس کی مدد کرے۔ پھر سی آئی اے اور سعودی عرب اس جنگ میں اپنے مفادات کیلئے پہنچ گئے۔

یہ جنگ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہے۔ صرف بندوق کا رخ تبدیل ہوگیا ہے، ضیا کا اسلام نافذ کرنے کیلئے پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ ضیاالحق آج بھی اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ موقع ملتے ہی کسی مجمعے میں داخل ہوتا ہے، پھٹتا ہے، اور ہمارے بچوں کے خون سے ہماری ہی زمین کو سرخ کرتا ہے۔ ہم مذمت کرتے ہیں، شہیدوں اور زخمیوں کیلئے معاوضے کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن بیماری کی جڑ تک نہیں جاتے، کیونکہ جڑ تک جائیں گے تو ہماری ہی جڑیں کمزور ہوجائیں گی!

پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے ممتاز قادری آج پاکستان میں ایک طبقے کے ہیرو بن گئے ہیں۔ پاکستان میں اتفاق یہ ہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد پاکستان کی فوج کے تیور ان لوگوں کے لیئے تبدیل ہوگئے ہیں، جو کبھی اس کا غیر وردی اثاثہ ہوا کرتے تھے۔ اس بار فوج نے جب تیور بدلے تو صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔

ریاست پاکستان کے قوانین کے مطابق جب ممتاز قادری کو اس کے جرم کی سزا دی گئی تو یہ پہلی بار ہوا کہ ایک دوسرے کےجانی دشمن مذھبی گروہ اکٹھے ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس پر ایک اکیڈمک بحث ہوتی اور ملک ممتاز قادری کی سزا کو غلط کہنے والے اس پر دلیل دیتے، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کا سہارا لینے کے بجائے وہ اس بات پر لکیر کھینچ کر کھڑے ہوگئے کہ ان کے عقیدے کے سامنے ریاست پاکستان کے قوانین کچھ بھی نہیں۔

ممتاز قادری کو جب پھانسی دی گئی تو پنجاب حکومت نے انتہائی حکمت عملی سے اس ساری صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کی، اس دن لیاقت باغ پنڈی میں ممتاز قادری کی نماز جنازہ ادا کی گئی، اس کے بعد ممتاز قادری کی میت بارہ کہو جانی تھی، ظاہر ہے کہ اسلام آباد کے ایک حصے کو کراس کرکے ہی بارہ کہو پہنچا جاسکتا تھا، اس لیے اس دن پولیس اور انتظامیہ نے ممتاز قادری کی میت کے مختصر قافلے کو لیاقت باغ سے ایک ایمولینس میں لیکر پیر ودھائی سے ہوتی ہوئے واپس فیض آباد کے راستے اسلام آباد میں داخل ہوئی اور راول چوک سے بنی گالہ کے راستے بارہ کہو لے گئی۔ اس طرح عوام کا ایک جم غفیر اس جنازے کے ساتھ دوڑنے کے بجائے پیچھے ہی رہ گیا اور بارہ کہو میں بغیر کسی پریشانی کے تدفین ہوگئی۔

تدفین کے دن ہی ملک ممتاز قادری کے چالیسویں کی تاریخ اور تقریبات کا اعلان کردیا گیا، اس اعلان سے واضح ہوگیا تھا کہ ممتاز قادری کے معتقد اپنا ردعمل ضرور دیں گے، لیکن اس بار پنجاب کی انتظامیہ نے وہ حکمت عملی اختیار نہیں کی جو اس کے جنازے کے وقت اختیار کی گی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام آباد ایک بار پھر یرغمال بن چکا ہے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹے سے ملک کے انتہائی حساس علاقے میں ملکی اور غیر ملکی شخصیات اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل پا رہیں، پارلیمنٹ ہاؤس ایک بار پھر جنونیوں کے نرغے میں ہے، ملک کی اہم مشینری شدید دباؤ کا شکار ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود اتنی نا اہلی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا۔ جب کہ حد یہ بھی ہے کہ سویلین ارباب اختیار کا بھی وہ ردعمل فوری طور پر سامنے نہیں آیا جس کی سب کو توقع تھی۔ اتوار کے روز سرکاری چھٹی ہوتی ہے، اسلام آباد کے چھوٹے بڑے راستے عام دنوں کے برعکس ویران ہی ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد اور پنجاب میں ن لیگ ہی حکمران ہے، اس لیے دونوں طرف اکابرین اقتدار کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس پر حکمت عملی تیار کرتے تاکہ لیاقت باغ سے نکلنے والے مظاہرین کہیں اسلام آباد کا ہی رخ نہ کرلیں، لیکن آپ کو بتائیں کہ ممتاز قادری کے چہلم میں اس طرح کے احکامات اپنی تقاریر کے ذریعے دیئے گئے کہ مظاہرین یہاں سے فارغ ہوکر سیدھے ڈی چوک پہنچیں ، جہاں پارلیمنٹ ھاؤس، ایوان صدر ، وزیراعظم ھاؤس، سپریم کورٹ، پاکستان سیکریٹریٹ، سفارتخانوں سمیت اہم ریاستی ادارے موجود ہیں، اس سے پہلے اس کام کا اعزاز طاہر القادری اور عمران خان صاحب حاصل کرچکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لیاقت باغ سے اس طرح کے اعلانات ہوئے تو انتظامیہ کیا کررہی تھی۔ کیا سیاسی قیادت سو رہی تھی، کہ یہ لوگ لیاقت باغ سے نکلے اور تھوڑی بہت رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں ڈی چوک پہنچ گئے۔ جلاؤ گھیراؤ کیا ۔ کبھی پارلیمنٹ لاجز کی طرف دوڑے تو کبھی پارلیمنٹ کی عمارت کی طرف، فوج نے اس حصے کا کنٹرول سنھبال لیا ہے، اس سے پیشتر کئی عمارتوں اور نجی گاڑیوں کو نقصان پہنچ چکا ہے، میٹرو بس کا اسٹیشن نذرآتش کردیا گیا ہے۔

جب اسلام آباد میں یہ سب کچھ ہورہا تھا تو لاہور کےایک پبلک پارک میں ایک خودکش حملے نے صورتحال ہی تبدیل کردی۔ الیکٹرانک میڈیا، جسے اس وقت پیمرا نے نیشنل ایکشن پلان کے بہانے پر جکڑا ہوا ہے، وہ پہلے ہی اسلام آباد کے واقعات پر صحیح رپورٹنگ نہیں کرپارہا تھا، اور میڈیا پہلے ہی ممتاز قادری کے عقیدتمندوں کے غیض و غضب کا شکار تھا اس نے لاہور کے واقعے کا رخ کرلیا، کیونکہ یہ بہت ہی بڑا سانحہ تھا، لیکن اسلام آباد میں ہونے والی ہلچل اس لیے بھی اہم تھی کہ ریاستی ادارے یرغمال بننے جارہے تھے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ رات کو گیارہ بجے کے قریب آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک خبر آئی کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی صدارت میں اجلاس ہوا ہے، جس میں سانحہ لاہور پر غور کیا گیا، جبکہ اس سے پہلے جب ریڈ زون کی سیکیورٹی فوج نےسنبھال لی تو اس کی خبر بھی آئی ایس پی آر نے دی۔ لیکن لاہور کی صورتحال میں ہمیں وزیر اعظم اور وفاقی وزیر داخلہ اپنے واٹس ایپ کے بیانات پر ایک ہی بار نظر آئے۔ وزیراعظم کی جانب سے لاہور واقعے پر اظہار افسوس اور مذمتی بیان جاری ہوا، جبکہ ان کا ایک اور بیان بھی کچھ دیر بعد آیا، اس میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے انہیں فون کرکے لاہور واقعے پر اظہار افسوس کیا ، مذمت کی اور سانحے میں شہید ہونے والوں کے ورثا سے اظہار تعزیت کیا۔

جب رات کو گیارہ بجے کے بعد آئی ایس پی آر کا بیان آیا تو اچانک کچھ دیر بعد وزیر اعظم ھاؤس کی طرف سے ٹھیک رات کے بارہ بجے چند ٹکرز جاری کیے گئے جس میں وزیر اعظم صاحب فرما رہے تھے کہ سانحہ لاہور پر ان کا دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ میری بچیوں اور بہن بھائیوں کو نشانہ بنایا گیا وغیرہ وغیرہ !! اس کے بعد ایک ڈیڑھ لائن کا ٹکر موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ وہ اعظم ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں، جس میں وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ موجود ہیں۔ بارہ بج کر چھپن منٹ پر ایک ای میل موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ چار گھنٹے سے وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس جاری ہے۔۔ لیکن اس اعلیٰ سطح کے رات گئے ہونے والے اجلاس کے بارے میں کوئی بیان وغیرہ جاری نہیں کیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیوں کیا گیا ۔ لیکن اس سارے معاملات میں اسلام آباد کی صورتحال کا کہیں بھی ذکر موجود نہیں تھا۔

ٹھیک ہے، اگر پہلے نااہلی ہوئی تو اس کا تدارک کرنے کیلئے کیوں کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی، اور ہر بار پارلیمنٹ کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے، اس سے پہلے بھی اس طرح کے ایک واقعے کو یہ حکومت بھگت چکی ہے، لیکن پھر بھی آسانی سے ہزاروں لوگ بغیر کسی قیادت کے ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔

سانحہ لاہور کے واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان کی ایک شاخ تنظیم الاحرار نے قبول کی ہے۔ جن لوگوں نے اسلام آباد کے ریڈ زون کو کنٹرول کیا ہوا ہے ان کے مطالبات کی فہرست طویل ہے اور کم سے کم حکومت کے بس کی بات نہیں کہ وہ ان حالات میں ان کو پورا کرسکے۔ لاہور اور اسلام آباد کے واقعات میں فرق تو بہت ہے، لیکن دونوں فریق اس ملک میں بذریعہ جبراپنی مرضی کی شریعت لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ پارلیمنٹ موجود ہے ، ان کی خواہش پوری ہونا ممکن نہی۔

یہی سبب ہے کہ جب پارلیمنٹ کو یرغمال بنانے کی کوشش ہوتی ہے اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ عوام کی رائے کے بغیر حکمرانی کی جائے، یہی سبب ہے کہ مطالبے کیسے بھی ہوں، لیکن روایت تو ضیاالحق کی ہی دھرائی جاتی ہے، یہ ضیاالحق ہی تھے جس نے پارلیمنٹ کو ہیچ اور آئین پاکستان کو کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دیا تھا۔ اس لیے یاد رہے کہ موذی ضیا آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ہمارے آس پاس موجود ہے ، او ر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے!۔

3 Comments