آدھی گواہی

0012345

سعیدہ گزدر


بیوی:۔ پہلے کبھی تم اتنے چڑ چڑے نہیں تھے۔ تھکے ہوئے نڈھال بھی آتے تو کافی کا ایک کپ پی کر تازہ دم ہوجاتے‘ کہیں ملنے ملانے چلے جاتے تھے۔ باغ کو پانی دیتے تھے موسیقی سے دل بہلاتے۔۔۔۔۔۔۔
شوہر:۔اچھا بند کرو اپنا لیکچر 
بیوی:۔ کتنے بددماغ ہوگئے ہو۔ پہلے مجھے سنیمالے جاتے تھے میرے لئے ریکارڈ خرید کرلاتے۔کوئی اچھی سی چیز پڑھ کر سناتے تھے۔ اب لگتا ہے کہ تمہاری آواز کو دیمک لگ گئی ہے۔
شوہر:۔ افسردگی سے’’دیمک تو لگ چکی ہے۔ کہاں گھمانے لے جاؤں؟ کون سی جگہ رہ گئی ہے۔ سیروتفریح کی! تمہیں بتاؤ کیا کرنے کو ہے اس شہر میں شام کے وقت! اور تم کو یہ بھی معلوم ہے میرے خلاف تحقیقات ہورہی ہے۔
بیوی:۔ ہونے دو۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ کیا بگاڑ سکتے ہیں تمہارا ایسا اچھا پروفیسر یونیورسٹی کو ملے گا؟ کتنی محنت کرتے ہو طالب علم کس قدر چاہتے ہیں۔۔۔۔۔
شوہر:۔ مجھ سے میری خوبیاں کیوں بیان کررہی ہو۔ میں اپنا جج ہوں کیا؟ انہیں کم بخت طالب علموں کی خاطر سب کچھ جھیل رہا ہوں(اُٹھ کر فائل میز پر پٹخ دیتا ہے)۔
بیوی:۔ غصہ کیوں کرتے ہو۔ تمہارا بلڈپریشر بڑھ جائے گا۔
شوہر:۔ کسی نے جاکر شکایت لگادی کہ میں کلاس میں مذہب اور ملک کے خلاف باتیں کرتا ہوں۔
بیوی:۔ شش۔۔۔۔ تم نے پھر شروع کردیا۔
شوہر:۔ کیا کیا تھا میں نے؟ یہی ناکہ ڈارون کی تھیوری‘ جس طرح میں نے سمجھی اور پڑھی اس طرح پڑھاؤں گا تو شاید یونیورسٹی کے لئے قابل قبول نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ممتحن تم کو فیل کردے۔ لہٰذا نصاب کمیٹی کو یہ فیصلہ کرلینے دو کہ ڈارون کا نظریہ اسلامی تھا یا غیر اسلامی۔ اور اسے اسلامی بنا کر پڑھانا ہے یا سائنسی۔ اب بتاؤ اس میں ایسی کیا بات تھی کہ میرے اوپر اسلام دشمنی اور لامذہنیت کا الزام لگادیا۔ میرے خلاف رجسٹر کھل گئے۔ میں دہریہ نئی نسل کے اخلاق کو بگاڑنے والا اور معاشرے میں پھیلی بے راہ روی کا سبب بن گیا۔
بیوی:۔ اس قدر اپنا جی کیوں جلاتے ہو‘۔ تم بھی دوسروں کی طرح رہو۔ 
شوہر:۔ تنگ آگیا ہوں۔ جھوٹے اور منافقت پڑھا پڑھا کر۔ کلاس میں کہہ دیا کہ پڑھاتے ہوں نصاب کے مطابق۔ لیکن اپنے آپ کو مجرم سمجھتے ہوئے اور یہ کہ تم لوگوں کو بھی اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیا اتنا بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس قدر ذلت برداشت کرنے کے بعد۔
بیوی:۔ وہ بیچارے بھی مجبور ہیں۔ نوکری کرنی ہے۔ انہیں اس کے لئے ڈگری بھی چاہئے۔
شوہر:۔ شوق سے لیں ڈگریاں سالے۔ اُلو کے پٹھے ’’سخت برہمی سے‘‘ نوکری ہی نہیں کریں گے بلکہ غلامی کرتے رہیں گے‘‘۔
بیوی:۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں کون بتاتا ہے سب کچھ۔‘‘
بیوی:۔ تمہاری سٹوڈنٹ ہے نا نائلہ۔ وہ بتارہی تھی، پہلے مجھ سے کچھ نہیں چھپاتے تھے ایک ایک بات بتاتے تھے۔ اور اب۔۔۔۔(روہانسی ہوجاتی ہے)۔
شوہر:۔ پہلے اس قدر بھی قابل برداشت نہیں تھا۔ اب یہ گورکھ دھندے بھگتا کرآتا ہوں تو جی نہیں چاہتا دہرانے کو دماغ پھٹنے لگتا ہے۔
بیوی:۔کیا ہوا تھا۔
شوہر:۔سن چکی ہونائلہ سے پھر پوچھ رہی ہو۔ تم کو بھی اذیت دینے میں مزا آتا ہے۔
بیوی:۔لیکن وہ کہہ رہی تھی کہ خواہ مخواہ سرکے پیچھے پڑگئے ہیں انہوں نے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ بس تعزیتی جلسہ میں تقریر کی تھی کہ آپ لوگوں کے دو طالب علم ساتھی محض ڈرائیوروں کی غیر ذمہ دارانہ ذہنیت کا شکار ہوگئے ورنہ یوں سڑک پر کچل کرنہ مرتے۔ کیا محض کفاراادا کر دینا کافی ہے؟ یہ سوچنے کا موقع ہے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کا۔ آخرہم کب تک ایسے بے درد اورغیر انسانی رویوں کو برداشت کرتے رہیں گے ہماری خاموشی حب الوطنی ہے۔ یہ فاشزم کے ہاتھ مضبوط کررہی ہے۔ ہمارے انسانی جذبوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔
شوہر:۔یہ سب کہا تھا میں نے میں تو بھول گیا۔ بُرا نہیں تھا۔ نائلہ ذہین لڑکی ہے۔
بیوی:۔ میں نے بھی یہی سمجھا ہے کہ عمدہ تقریر تھی۔ آخر اس میں کیا ہے؟
شوہر: بس ہونے والی تحقیق میں انہیں ایک اور نکتہ مل گیا کہ میں نوجوانوں کو دہشت گردی کی تلقین کر رہا ہوں انہیں تخریبی سرگرمیوں پر اکسارہا ہوں۔
بیوی:۔ جب اتنی سختی ہے ہر بات پکڑتے ہیں تو نہ الجھا کرو ہر جھگڑے میں۔ لیکن تم عدالت میں بھی بیان دینے پہنچ گئے۔ کوئی دوسرا پروفیسر کیوں نہیں گیا۔
شوہر:۔ الجھا نہ کرو۔ کوئی دوسرا پروفیسر کیوں نہیں گیا، نقل لیتے ہوئے تم بھی کہو گے۔ غنڈے، بدمعاش بندوقیں اور مشین گنیں لے کر گھس آئے اور نہتے طالب علموں کو باقاعدہ نشانہ بنا کر میری نظروں کے سامنے ہلاک کر دیں۔ اور میں خاموش رہوں۔ پھر اُلٹا مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کے خلاف تخریبی سرگرمیوں کے الزام میں مقدمہ چلے اور میں خاموش رہوں۔ یہ بھی نہ کہوں کہ یہ معصوم تھے۔ وہ مسلح غنڈے جیپوں میں بھرکر آئے تھے۔ ایک کو میں نے پہچان بھی لیا۔بہت فخر ہے۔ 
بیوی:۔ تمہارے خلاف کیس اور مضبوط ہوگیا۔ مرنے والوں کے لئے جا کر گواہی دینا۔ کون سی عقل مندی ہے۔ کیا وہ قبروں سے اُٹھ کر تمہارا ساتھ دینے آئیں گے۔۔۔۔؟
شوہر:۔ بہت سادگی سے سب تھوڑی مرگئے۔ جوزخمی ہوئے اور جنہوں نے غنڈوں کا مقابلہ کیا۔ ان میں سے کسی کو دس سال کی قیداور بیس کوڑے، کسی کو سات سال کی قید اور پندرہ کوڑے۔۔۔۔۔ دوسرے برداشت کرسکتے ہوں گے میں نہیں کر سکا۔
بیوی:۔ تمہارے برداشت نہ کرسکنے سے کسی کو فائدہ پہنچا۔ کسی کو پتہ بھی چلا کہ کسِ نے تمہارا ساتھ دیا۔
شوہر:۔ میرا ضمیر مجھے لعنت ملامت کرتا۔ کیا یہ کافی نہیں۔
بیوی:۔ وہ کہتے کیا ہیں۔
شوہر:۔ابتداء ہی کی ہے اس رائے کے ساتھ کہ میں ملک اور اسلام کا دشمن ہوں۔
بیوی:۔ ذلیل، اب کریں گے کیا،(پہلی بار معاملے کی سنگینی کو پوری طرح سمجھتے ہوئے)۔
شوہر:۔ دیکھو۔۔۔ کچھ بھی! نوکری سے نکلوادیں گے۔ وہ تو طے ہے۔ یہ گھر چھین لیں گے۔ میرے واجبات ضبط کرسکتے ہیں۔ ملک دشمن کے الزام میں قید کر سکتے ہیں۔ کوئی الزام ثابت ہوئے بغیر بھی چاہیں کرسکتے ہیں۔
بیوی:۔ پھر کیا ہوگا۔ میں۔۔۔ میرا کیا ہوگا؟پریشانی اور وحشت سے)۔
شوہر:۔مسکراتے ہوئے۔ ڈاکے ڈالنا شروع کردینا۔ نام بھی تمہارا سلطانہ ہے۔
بیوی:۔ چلو مسکرائے تو تم اب کہیں باہر چلتے ہیں جو ہوگا سو ہوگا۔ میں اس وقت گھر میں بیٹھی تو گھٹن سے مرجاؤں گی۔
شوہر:۔ کہاں چلیں۔
بیوی:۔کہیں بھی۔(کچھ سوچ کر) چلو نجیب صاحب کے ہاں چلیں زیادہ دور بھی نہیں۔
شوہر:۔ یقین کرو۔ جب میں بلیک لسٹ ہوا ہوں وہ مجھ سے کترانے لگے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے سے گھبراتے ہیں۔ آنکھ بھی نہیں ملاتے۔
بیوی:۔ ہاں مجھے یاد آیا، کل دکان میں مسز نجیب ملی تھیں۔ کس قدر گر مجوشی سے ملتی تھیں مگر کل بالکل دیکھی ان دیکھی کردی۔ میں لپکی تو مڑکر دوسری طرف چلی گئیں مجھے خیال ہوا کہ شاید جلدی میں ہیں۔ اب سمجھ میں آیا۔
شوہر:۔ یقین نہیں آتا۔اس قدر شائستہ اور مہذب لوگ۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا ہے’’ سخت بھنّا کر‘‘۔ اتنا خوف وہراس ہے جیسے ہم لوگ کسی غیر ملکی فوجی تسلّط میں رہ رہے ہیں۔
بیوی:۔(جلدی سے مسکرا کر)۔ تسلی دیتے ہوئے۔ میں تو نہیں کتراتی پھر بھی تمہیں سچا مانوں گی(شوہر کے سینے پر سر رکھ دیتی ہے)۔
شوہر:۔ (شوہر پیار سے اس کا سر تھپھتپاتے ہوئے گلے لگا لیتا ہے) کہیں چالا کی سے یہ باتیں کہلوا کر میرے خلاف گواہی تو دینے کا منصوبہ نہیں ہے۔
بیوی:۔ (کسمساتے ہوئے شوہر کی گود میں لیٹ جاتی ہے) فکر نہ کرو میری تو گواہی بھی آدھی ہے۔

2 Comments