شب قدر حملہ ممتاز قادری کی پھانسی کا بدلہ تھا، طالبان

_52694149_52694148

پاکستانی طالبان سے علیحدہ ہو جانے والے ایک گروپ جماعت الاحرار نے شب قدر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے ممتاز قادری کی پھانسی کا بدلہ قرار دیا ہے۔ اس خودکش حملے میں چھ خواتین سمیت سولہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

پیر کے روز ضلع چارسدہ کے تحصیل شب قدر کے سیشن کورٹ میں داخل ہونے کی کوشش میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں، خواتین اور بچوں سمیت سولہ افراد ہلاک جبکہ پچیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ ضلع چارسدہ کی تحصیل شب قدر کی سرحدیں مہمند ایجنسی ملتی ہیں جبکہ دوسری جانب اس کی سرحدیں دارالحکومت پشاور اور قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی سمیت افغانستان سے ملتی ہیں۔

پاکستانی طالبان سے علیحدہ ہو جانے والے ایک گروپ جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے شب قدر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے ممتاز قادری کی پھانسی کا بدلہ قرار دیا ہے۔

مہمند ایجنسی میں سکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف وقتاً فوقتاً کاروائیاں کرتی رہیں تاہم افغانستان کے ساتھ ملحق سرحد کی وجہ سےوہاں کارروائی کرنے کے بعد عسکریت پسند افغانستان پہنچ جاتے ہیں۔

شب قدر بار ایسوسی ایشن کے صدر شیر قادر خٹک نے سکیورٹی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہا، ’’قبائلی علاقے کے ساتھ متصل ہونے کی وجہ سے شب قدر انتہائی حساس علاقہ ہے لیکن یہاں اس طرح کے سکیورٹی کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے، جن کی ضرورت تھی۔ پورے ایریا میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں ہے۔‘‘

تاہم پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل سعید وزیر نے سکیورٹی کے لئے اقدامات کو بہتر قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’پولیس نے سکیورٹی ایڈوائزی کے تحت اقدامات اٹھائے ہیں۔ یہ کُل دو کینال پر محیط علاقہ ہے اور اس کے لئے اٹھارہ سکیورٹی اہلکار تعینات کیےگئے ہیں۔ یہ پولیس اہلکارو‌ں کی بہادری اور ہمت کا ہی نتیجہ ہے کہ خود کُش حملہ آور کورٹ روم اور وکلاء کے احاطے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوا۔‘‘

شب قدر میں ہونے والے خود کُش حملے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان کا کہنا تھا، ’’خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا، جس کی وجہ سے مستقبل میں بڑی تباہی کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اگر حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتی تو دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ معصوم اور نہتے انسانوں کی جانیں لینے والوں کے خلاف موثر کارروائی وقت کا اہم تقاضا ہے‘‘۔

شب قدر خود کش حملے کے بعد پختونخوا بار کونسل نے ایک روزہ ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے صوبہ بھر کی عدالتوں کی سکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کی سکیورٹی کے لئے پولیس کی مزید نفری تعینات کی گئی ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیر ستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے بعد پختونخوا کے جنوبی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن شمالی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سال رواں کے دوران خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں ضلع مردان، صوابی اور چارسدہ میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات سامنے آئے ہیں۔

DW

Comments are closed.