جواہر لعل یونیورسٹی میں بدامنی

Kuldip-Nayar-new-146286-151867-640x480

کلدیپ نائر

بعض مسلم بنیاد پرست طلبہ نے جن کی تعداد پانچ چھ سے زیادہ نہیں تھی ، جے این یو کی اعتدال پسند شبیہ کو برباد کیا اور ہندوستان کی تباہی کی خواہش کا اظہار کرنے والے نعرے لگائے ۔


یہ سوال ملک کے بٹوارے سے پہلے بھی سامنے آیا تھا کہ کیا طلبہ کو سیاست میں حصہ لینا چاہئے ۔ یہ بحث اس وقت بھی چھڑی تھی جب میں لاہور میں قانون کا طالب علم تھا ۔ ہم آزادی کی جد وجہد سے وفاداری کے اظہار کے لئے گاندھی جی یا کسی دیگر رہنما کی آواز پر کلاس روم میں جانا چھوڑ دیتے تھے یہ احتجاج برطانوی حکمرانوں کے خلاف تھا اور ہمارے ذہن میں یہ خیال کبھی نہیں کھٹکتا تھا کہ اس سے ہماری پڑھائی کا نقصان ہورہا ہے ۔یہاں تک کہ جب بانی پاکستان نے ایک الگ مادر وطن کا نعرہ لگایا تو ہم طلبہ نے مذہب پر اصرار کرنے کی مزاحمت کی تھی ۔ یہ سچ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مطبخ الگ ہوگئے تھے لیکن ہم کھاتے ساتھ تھے اور دونوں مطبخوں سے کھانا لیتے تھے ۔ ارتکاز شدہ ماحول کا اثر ہم پر کم ہی تھا ۔

آج اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں نرم ہندوتوا کی وکالت کررہا ہے ۔ اے بی وی پی اس دور کی مسلم لیگ ہے ۔ جواہر لعل یونیورسٹی شاید ہندوتوا کے سمندر میں ایک جزیرے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ تاہم یونیورسٹی اور اس کے طلبہ اگر کسی بات کے لئے لائق تحسین ہیں تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے تصور کو محفوظ رکھا ہے یعنی جمہوریت ، تکثیریت اور مساوات کو کم و بیش برقرار رکھا ہے اور سیکولرازم کو زندہ رکھنے کی جد وجہد اب بھی جاری ہے ۔

پچھلے ماہ بعض مسلم بنیاد پرست طلبہ نے جن کی تعداد پانچ چھ سے زیادہ نہیں تھی ، جے این یو کی اعتدال پسند شبیہ کو برباد کیا اور ہندوستان کی تباہی کی خواہش کا اظہار کرنے والے نعرے لگائے ۔ جے این یو کے وائس چانسلر ڈاکٹر جگدیش کمار نے مجھے بتایا کہ وہ محض مٹھی بھر تھے لیکن انھوں نے یونیورسٹی کی شبیہ کو داغدار کیا ۔ برقی میڈیا نے ہر وقت اپنی ریٹنگ بہتر کرنے کے لئے یہ تاثر عام کیا کہ جے این یو بنیاد پرستانہ سرگرمیوں اور علحدگی پسندانہ رجحانات کا عین مرکز ہے ۔ اس پر بھی شک تھا کہ جو ویڈیو کلپ ٹی وی چینلز سارا دن چلاتے رہے وہ بھی جعلی تھی ۔

مثال کے طور پر جے این یو کی ملک سے غداری کے معاملے کی کوریج میڈیا نے جس طرح کی اس سے کئی خامیوں سے متعلق وشودیپک کے دعوؤں کو ہی لیجئے ۔ اس چینل سے استعفیٰ دینے والے اس صحافی نے لکھا کہ ’’ہم صحافی اکثر دوسروں سے سوال کرتے ہیں ، خود سے کبھی نہیں کرتے ۔ ہم دوسروں کی ذمہ داریاں تو طے کردیتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں ۔ ہمیں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن کیا ہم ، ہماری تنظیمیں ، ہمارے افکار اور ہمارے اعمال جمہوری ہیں ۔ یہ صرف میرا ہی سوال نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے شخص کا بھی ہے‘‘ ۔ 

میں بڑی حد تک دیپک سے متفق ہوں ۔ ہم صحافی لوگ اکثر عمل کرنے کے بجائے نصیحت کرتے ہیں ۔ اپنے آجر کو احتجاجی مراسلے میں دیپک نے اس صورتحال کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے پر معذرت کرتے ہوئے ان سے پوچھا ہے ’’کنہیا کمار کے ہمراہ ہم نے بہت سے طلبہ کو عوام کی نظروں میں غدار اور وطن دشمن بنادیا ہے ۔ اگر کل کسی کا قتل کردیا جاتا ہے تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہوگا؟ ہم نے کسی کے قتل کے یا بعض خاندانوں کی تباہی کے لئے صرف زمیں ہی ہموار نہیں کی ہے بلکہ فساد پھیلانے کے لئے ، ماحول تیار کردیا ہے اور ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے ، یہ کس طرح کی حب الوطنی ہے ؟ آخر یہ کس طرح کی صحافت ہے ؟‘‘ ۔

تاہم میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کی سازش رچنے والے افضل گرو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے علیحدگی پسندوں کی گستاخی کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا۔ یہ عمل قابل مذمت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہیں ایسے میں ملک کے لئے منشور تیار کرنے دیا جائے جبکہ ہندوستان کے عوام جمہوریت اور تکثیریت کو عزیز رکھنے لگے ہیں ۔ جے این یو کے واقعے سے جانفشانی کی وہ تصویر دھندلی نہیں پڑنی چاہئے جو مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے ماحول میں تکثیریت کو زندہ رکھنے کے لئے بنائی گئی تھی ۔

درحقیقت جے این یو لندن آکسفورڈ اور امریکہ کا ہارورڈ ہے ۔ وہاں ایک اعتدال پسندانہ ماحول اور عام انداز فکر کے حلاف بے ہنگم آوازیں بھی لوگوں کو متوجہ کرلیتی ہیں ۔ ان کے اغراض و مقاصد پہ کوئی انگلی نہیں اٹھاتا کیونکہ بنیادی اصول پر کبھی شک نہیں کیا جاتا ہے ۔ جب اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے جے این یو قائم کی تھی تو اس کا مقصد اپنے والد کے افکار سے طلبہ کو تحریک و ترغیب دینا تھا۔ نہرو آزادی کی جد وجہد کے زائیدہ اور قوم پرستی کی علامت تھے نہ کہ کانگریس پارٹی کے جس نے ملک کو استحصال پسند برطانوی حکمرانوں کے چنگل سے چھڑانے کی جد وجہد کی قیادت کی تھی ۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کو بے شک ان کا نام باقی رکھنا تھا لیکن وہ جدید ہندوستان کے واقعی معمار تھے اور اس کے مستحق تھے کہ انہیں یاد رکھا جائے اور ان کی اتباع کی جائے ۔

بنگلہ دیش کے پاس اس طرح کا ادارہ نہیں ہے لیکن پاکستان میں جے این یو اور اس جیسی شہرت رکھنے والے لومس (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ سائنس) لاہور میں ہیں ۔یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔ کیمپس میں لیکچر کے دوران انجینئرنگ کی ایک طالبہ نے مجھ سے پوچھا کہ جب دونوں طرف سے لوگ ایک ہی جیسے ہیں ، ایک ہی غذا کھاتے ہیں ، ایک سے کپڑے پہنتے ہیں تو پھر ملک کا بٹوارہ کیوں ہوا ۔ وہ طالبہ تعصب سے عاری تھی اور یہ کہ وہاں کا ماحول آلودگی سے پاک تھا ۔ یہ بات کوئی 40 سال پہلے کی ہے ۔ 

آج مذہبی پارٹیوں نے سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لئے معاشرے کو یرغمال بنالیا ہے ۔ شاید ناگپور سے مودی حکومت کو ہدایت دینے والا آر ایس ایس کلیدی عہدوں پر ایسے افراد کو بٹھارہا ہے جو ہندوتوا کے فلسفے سے گہری عقیدت رکھتے ہیں ۔ اپنی سیکولر قیادت کے لئے معروف ممتاز دانشوران باہر دھکیل دیئے گئے کیونکہ آر ایس ایس نہیں چاہتا کہ طلبہ حکومت کو سیاست سے نہ جوڑنے کی ان دانشوروں کی مثال پر عمل کریں ۔ اگر کسی جمہوری سیاسی نظام کو بامعنی بننا ہے تو اسے ان دنوں دوبارہ سر ابھارنے والی مذہبی شناختوں سے خود کو دور رکھنا چاہئے ۔

بدقسمتی سے زندگی کے دیگر شعبہ بھی متاثر ہورہے ہیں مثلاً پٹیالہ ہاؤس عدالت میں رونما ہونے والا واقعہ ۔ بی جے پی سے وابستہ بعض وکلاء نے ہنگامہ مچا کر طالب علم لیڈر اور صحافیوں کو اس وقت زدوکوب کیا جب کنہیا کمار کو عدالت میں پیش کیا جانا تھا ۔ کنہیا کا یہ بیان کہ اسے ہندو مخالف نعرہ لگانے والے طلبہ سے کوئی سروکار نہیں تھا حملہ آوروں کو باز نہ رکھ سکا جن میں سے بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وکیلوں کے لباس میں باہری عناصر تھے ۔ وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس پر غور کرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھیں کہ ایسے اقدام کئے جائیں جن سے طلبہ تنگ نظری کی سیاست میں الجھنے کے بجائے اپنی پڑھائی پر توجہ دیں ۔ اگر اس عمر میں آدرش واد اختیار کرنے والے طلبہ کو اپنے ایسے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا جو طویل مدت میں اپنی جمہوری فضا کی حفاظت میں ملک کی مدد کریں تو یہ ملک و قوم کا نقصان ہوگا ۔

Comments are closed.