ہم تاریخ کیوں مسخ کرتے ہیں؟

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی


تئیس23مارچ کے حوالے سے پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔مگر اس موضوع پر کوئی بحث نہیں ہو رہی۔یہ یکطرفہ گفتگو ہے۔کچھ دانشور نما لوگوں کا ایک پسندیدہ بیانیہ ہے جسے کئی سالوں سے مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔اسے اتنی اونچی اواز میں دوہرایا جا رہا ہے کہ کوئی متبادل آواز، اگر ہے بھی تو، سنائی ہی نہیں دیتی۔

تاریخ کے ساتھ یہ ہمارا سلوک نیا نہیں ہے۔ہم تاریخ کو شروع سے ہی اپنی باندی سمجھتے ہیں۔اسے اپنے اشاروں پر نچانے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ہم اپنے خیالات، نظریات بلکہ خواہشات کی تاریخ سے تصدیق اور تائید کرانے کی عادت میں مبتلا ہیں۔اس طرح ہم تاریخ کو توڑتے ہیں، موڑتے ہیں،اور مسخ کر کہ اپنی پسند کی کہانی میں بدل دیتے ہیں۔پھر اپنے بچوں کو یہی کہانی پڑھاتے ہی نہیں بلکہ رٹاتے ہیں۔

رٹانے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ذہن میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی سوچ نہیں ابھرتی۔وہ چپکے سے ہماری رٹائی ہوئی کہانی پر یقین کر لیتے ہیں۔23 مارچ کی قرارداد کا پیش کار فضل الحق تھا۔اس شخص نے کئی بار اس بات کو دوہرایا کہ اس قرارداد کا مقصد متحدہ ہندوستان کے اندر مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل دو ریاستیں تھیں۔خود قرار داد کا متن اور اس کے الفاظ کسی قسم کے ابہام کے بغیر اس واضح مقصد کی عکاسی کرتے ہیں۔

لیکن بعد میں کچھ لوگ اسے قراد داد پاکستان بنانے اور منوانے پر تل گئے۔حالانکہ پاکستان تو بہرحال قائم ہو گیا تھا، قطع نظر اس بات کہ کہ23 مارچ کی قراردا دکا مقصد کیا تھا، اور اس میں پاکستان کا ذکر موجود تھا یا نہیں۔یعنی اس کا قیام پاکستان پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا۔تو پھر تاریخ کو جھٹلانے اور مسخ کرنے کا عمل کیوں ؟ اس لیے کہ اس سے کچھ لوگوں کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔یا پھر کچھ درباری دانشوروں کا سچائی پر اجارہ داری قائم رہتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تاریخی اعتبار سے مسلم لیگ جاگیرداروں، نوابوں اور وڈیروں ، سجادہ نشینوں کی پارٹی تھی۔شروع میں عوام نام کی کوئی چیز اس میں شامل نہیں تھی۔جو اکا دکا عوام تھے بھی ان کی حیثیت ان لوگوں کی مزاروں اور نوکروں سے زیادہ نہ تھی۔ایک ٹی۔وی پروگرام میں اس حقیقت کا اظہار کیا تو کچھ دانشور غصے سے لا ل پیلے ہو گئے۔مگر حقیقت تو مقدس ہے۔اور مقرر عرض ہے کہ 1940تک مسلم لیگ کا یہی حال تھا۔غصے سے بل کھاتے ہوئے دانشوروں کے لیے یہاں علامہ اقبال کا ایک خط پیش کر رہا ہوں۔ یہ خط انہوں نے28 مئی1937 کو قائد اعظم کو لکھا۔

مائی ڈئیر مسٹر جناح۔آپ کے خط کا بہت بہت شکریہ۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میں نے مسلم لیگ کے آئین اور منشور میں ترمیم کے بارے میں آپ کو جو کچھ لکھا اپ اسے ذہن میں رکھیں گے۔مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہاں تک مسلم انڈیا کا تعلق ہے آپ کو صورتحال کی شدت کا پورا احساس ہے۔لیگ نے آخر کار یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ مسلم انڈیا کے اونچے طبقات کی نمائندہ جماعت ہی رہے گی یا انڈیا کے عام مسلمانوں کی نمائندگی بھی کرے گی، جن کا اب تک معقول وجوہات کی بناء پر لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ذاتی طور پر مجھے یقین ہے کہ ایک سیاسی جماعت جس کے پاس عام لوگوں کے حالات بہتر کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے وہ عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔نئے آئین کے تحت بڑے عہدے اعلیٰ طبقات کے بیٹوں کو جاتے ہیں، اور اس سے چھوٹے عہدے وزیروں کے رشتے داروں اور دوستوں کو۔دوسرے معاملات میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے کبھی عام طور پر عام مسلمانوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا نہیں سوچا۔

روٹی کا مسئلہ زیادہ سے زیادہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔مسلمان نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گزشتہ دو سو سال سے نیچے کی طرف ہی جا رہا ہے۔عام طور پر اسے اس بات کا یقین ہے کہ اس کی غربت ہندو ادھار دینے والوں اور سرمایہ داری کی وجہ سے ہے۔یہ عام خیال ہے کہ غیر ملکی حکومت کی وجہ سے مساوات ابھی اس تک نہیں آئی، لیکن اسے آنا ہی ہو گا۔جواہر لال نہرو کا لادینی سوشلزم مسلمانوں میں زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔

تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ حل کرناکیسے ممکن ہے۔ لیگ کے پورے مستقبل کا انحصار اس مسئلے کے حل کے لیے لیگ کی سرگرمی پر ہے۔اگر لیگ اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کر سکتی تو مجھے یقین ہے کہ عام مسلمان لیگ سے پہلے کی طرح لا تعلق رہے گا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے نام علامہ اقبال کا یہ خط بلا کسی خوف تردید دو باتیں ثابت کرتا ہے۔پہلی بات یہ کہ کم از کم 1937 تک عام مسلمانوں یا عام لوگوں کا آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔اور دوسرا یہ کہ مسلم لیگ کے آئین، منشور اور پروگرام میں عام آدمی کی فلاح و بہبود یا اس کی زندگی میں بہتری کے با رے میں کچھ نہیں تھا۔جن درباری دانشوروں کو اس دور میں مسلم لیگ مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت نظر آتی ہے وہ اس بات سے صرف نظر کر ہے ہیں کہ یہ نمائندگی جاگیرداروں، نوابوں، پیروں اور سجادہ نشینوں کے ہاتھ میں تھی۔

اگست 1947تک مسلم لیگ کی قیادت لگ بھگ ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں رہی۔قیام پاکستان اور قائد اعظم کی وفات کے بعد ان لوگوں نے اقتدار کے ایوانوں میں اور باہر جو اودھم مچایا وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔دس سال تک یہ آئین تک نہ لکھ سکے۔وزرائے اعظم اس تیزی سے آتے اور جاتے رہے کہ بھارتی وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ میں اتنی جلدی اپنا پاجامہ نہیں بدلتا جتنا جلدی وہاں وزیر اعظم بدلتا ہے۔

Comments are closed.