حقوقِ نسواں اور رُجعت پسند قوتیں

پکھی واس

sibte hasan

سبط حسن گیلانی۔لندن

پچھلے دنوں پنجاب اسمبلی نے حقوق نسواں کے حوالے سے ایک بل پاس کیا۔جس کی گونج اب قومی سطح سے بڑھ کر بین الا قوامی سطح پر بھی سنائی دے رہی ہے۔پاکستان میں پے در پے آمریتوں اور غیر جمہوری قوتوں کے تسلسل نے ریاست کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ہیں۔سوائے فوج اور چند ایک پرائیویٹ اداروں کے کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جو پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ بروئے کار ہو۔انتظامیہ اور نچلی سطح پر عدلیہ محض عضوِ معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے مسلسل محرومی کا شکار ہیں۔ان تمام تر محرومیوں اور گھٹن کا براہ راست شکار معاشرے کے کمزور طبقات بنتے ہیں۔ہمارا معاشرہ چونکہ ایک روایتی قبائلی معاشرہ ہے۔جہاں مرد اپنی تمام سماجی محرومیوں کا بدلہ اپنی زیر کفالت عورتوں سے لیتے ہیں۔عورت بیٹی اور بہن کی حد تک تو قدرے محفوظ رہتی ہے۔ لیکن جوں ہی وہ ایک بیوی کی حیثیت اختیار کرتی ہے تو اس کی محکومیت کا بھیانک دور شروع ہو جاتا ہے۔اس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ نچلے اور نچلے متوسط طبقات کی اکثر عورتوں کو اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے میکے تک جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

اس کی زندگی کا یہی وہ دور ہوتا ہے جب وہ طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔بہت کم خوش نصیب ہوتی ہیں جن کے بیٹے لائق اور کماؤ نکل آئیں اور انہیں بڑھاپے میں ایک ماں کی حیثیت سے قدرے سکھ دیکھنا نصیب ہو ۔اب کچھ عرصے سے جمہوریت نے گھٹنوں کے بل چلنا شروع کیا ہے۔ متوسط طبقات کی عورتوں کو باہر نکل کر خود کو منوانے کے کچھ مواقع ملے ہیں۔کچھ عورتیں اسمبلی تک پہنچی ہیں۔تو انہوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔یہ بل ایسی ہی طویل جدوجہد کا ایک موڑ ہے۔

ہمارے وہ مذہبی طبقات جو سیاست کے میدان میں طویل عرصے سے موجود ہیں۔سیاست۔سماجی ضرورتوں اور معروضی حالات کو ایک ہی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔اور یہ نقطہ نظر ہمیشہ مذہبی سے زیادہ قبائلی رہا ہے۔وہ خم ٹھونک کر میدان میں آنکلے ہیں۔انہیں اس حقیقت سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے کہ صرف پنجاب کی حد تک روزانہ 6عورتیں اغوا۔4جنسی زیادتی کا شکار۔6قتل اور 3خود کشی پر مجبور ہو رہی ہیں۔ 2014کے اعدادو شمار کے مطابق صرف پنجاب میں تشدد کے7010واقعات کا اندراج ہوا۔جن میں 1408واقعات میں عورتوں کو جنسی ہوس اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ان واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رپورٹ نہیں ہوتے۔ہمارا سماجی ڈھانچہ عورتوں کو براہ راست تھانے کچہری جاکر اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی رپورٹ کروانے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتا۔اُلٹا قریبی رشتہ دار ہی سد راہ ثابت ہوتے ہیں۔اس بل کے ذریعے پہلی مرتبہ ان عورتوں کو قانون تک رسائی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اس پر مزید بحث مباحثہ سے کسی کو بھی کوئی انکار نہیں ہو سکتا۔لیکن اس کا راستہ روایتی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔عام آدمی کو گمراہ کر نے کی خاطر مذہبی پروپیگنڈے کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں موجود اس رجعت پسند طبقے کے نمائندے اپنے اپنے قلم کی نوکیں تیز کر کے میدان میں اُتر چکے ہیں۔ایک صاحب نے تو باقاعدہ آیت تک کا حوالہ دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس پر دلیل بازی نہیں ہو سکتی۔اس میں ذرہ برابر کوئی شک نہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے۔امیر جماعت اسلامی نے لاہور میں ایک اجتماع میں اعلان کر کے باقاعدہ رواں ماہ کی 27تاریخ کو مہلت کی آخری تاریخ قرار دے دیا ہے۔

مولوی فضل الرحمن نے کہا ہے۔ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔اس دوران مذہبی طبقات کی ناراضگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ہو سکتا ہے حضور۔کیوں نہیں ہو سکتا؟۔پاکستان اگر آپ ہی کے بھائی بندوں کے طفیل ایک خون کے دریا کو پار کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے تو یہ مرحلہ بھی جھیل جائے گا۔یہ اعلان بھی ہوا کہ اب کی بار حکومت کو77سے بھی بڑی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب سن1977نہیں 2016ہے قبلہ۔اس وقت جو ملکی و بین لا قوامی قوتیں آپ کی پشت پر تھیں اور جھولیاں بھر بھر کر چندے دے رہی تھیں۔اب انہوں نے اپنی بھرتی کا مرکز بدل لیا ہے۔

اس مرتبہ چندے کا تھیلا بھی آپ کو اپنی جیب سے ہی بھرنا ہو گا۔اور گاڑیوں سمیت پٹرول کا بندوبست بھی خود ہی کرنا ہو گا۔اور شام کو لنگر کے طور پر مدرسے ہی کے روکھے سوکھے پر گزارا کرنا ہوگا۔اور رہا بڑی سیاسی جماعتوں کا معاملہ تو ان میں سے کوئی ایک بھی آپ کی ہاں میں ہاں نہیں ملائے گا۔حتیٰ کہ قوم پرست جماعتوں میں سے بھی آپ کو کوئی خیر نہیں ڈالے گا۔اب تو عوام بھی اپنے برے بھلے کو بہتر طور پر سمجھنے لگے ہیں۔وہ الحمدوللہ اپنے مذہب اور سماجی مسائل کے درمیان فرق روا رکھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔

آپ سے بس اتنی گزارش ہے کہ خدا را ہم پر نہ سہی اسلام پر تو رحم کھایئے۔اس کے راستے سے تھوڑا ہٹ کر عوام کے اصل مسائل کی طرف اپنا رخ مبارک پھیریے۔تاکہ اسلام کا روشن چہرہ دنیا کو نظر آ سکے اور عوام کو اپنے مسائل کے حل میں تھوڑی مدد مل سکے۔ہندوستان میں آپ ہی کی مادر علمی دیوبند اور جمیعتِ علما ئے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ایک بھرے جلسے میں اعلان کیا ہے۔ ہم سیکولرازم کی بقا کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔

اگر سیکولرازم اتنا ہی برا ہے تو جمیعت علماء ہند اس کے لیے خون بہانے کو کیوں تیار ہے مولانا؟۔اور عورت صرف بیوی منکوحہ اور کنیز ہی نہیں ہوتی ایک ماں بھی تو ہوتی ہے۔بس اپنی اپنی ماؤں کا خیال کر کے اس پر رحم کھایے حضور۔

 

Comments are closed.