امریکی بیس پر خود کش حملہ آئی ایس آئی نے کروایا تھا

12

امریکہ میں منظر عام پر آنے والے خفیہ سفارتی مراسلوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو تحفظ فراہم کرنے اور القاعدہ اور طالبان سے روابط رکھنے والی تنظیم (حقانی نیٹ ورک )کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے افغانستان میں سی آئی اے کے مرکز پر خودکش حملہ کرنے کے لیے دو لاکھ امریکی ڈالر ادا کیے تھے۔

پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے سنہ 2009 میں جنوبی افغانستان کے علاقے میں قائم ’چیپ مین‘ نامی کیمپ پر حملہ کرنے کے لیے رقم دی تھی۔ یہ 25 سالوں کے دوران سی آئی اے کے خلاف سب سے خطرناک حملہ تھا، جس میں سی آئی اے کے سات امریکی اہلکاروں سمیت دس افراد ہلاک ہوئے تھے۔

آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے بارے میں ہمیشہ شک و شبہ کا اظہار کیا گیا ہے، تاہم منظر عام پر آنے والے امریکی محکمہ خارجہ کے نئے مراسلوں نے ایک بار پھر امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

مراسلوں کے مطابق سنہ 2010 میں 11 جنوری سے چھ فروری تک حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں اور آئی ایس آئی کے سہولت کار کے درمیان تفصیلی ملاقاتیں کی گئیں، ’جس میں نامعلوم کارروائیوں کے لیے حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو رقم مہیا کی گئی‘۔

چھ فروری کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اِسی طرح کی ایک ملاقات میں حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو ’کیمپ پر حملے کے لیے دو لاکھ امریکی ڈالر فراہم کیے گئے تھے‘۔

اُسامہ بن لادن کی تلاش پر بننے والی آسکر انعام یافتہ ہالی ووڈ فلم ’زیرو ڈارک تھرٹی‘ میں دکھایا گیا ہے کہ نائن الیون حملے کے بعد القاعدہ کے رہنما کی تلاش کی مہم میں پیش آنے والا یہ سب سے تباہ کن واقعہ تھا۔ اُسامہ بن لادن پاکستان کی فوجی چھاؤنی والے علاقے میں روپوش تھے اور امریکی فوج نے سنہ 2011 میں ایک خفیہ آپریشن کے دوران اُنھیں ہلاک کر دیا تھا۔

سی آئی اے کے ’چیپ مین کیمپ‘ پر حملہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے ایک ڈبل ایجنٹ اور اردنی نژاد ڈاکٹر خلیل البلاوی نے کیا تھا۔

اِس حملے میں البلاوی سمیت سی آئی اے کے سات ایجنٹ، اردن کی خفیہ ایجنسی کے ایک افسر اور افغان سکیورٹی چیف ہلاک ہوئے تھے۔

یہ مراسلے فریڈم آف انفارمیشن کی درخواست پر واشنگٹن میں قائم غیر سرکاری ادارے نیشنل سکیورٹی آرکائیو نے شائع کیے ہیں۔ مراسلوں میں کہا گیا ہے کہ یہ دستاویزات امریکی خفیہ اہلکاروں کی جانب سے اکٹھی کی گئی معلومات کی عکاس ہیں، لیکن حتمی نہیں ہیں۔

اسلام پسند قبائلی تنظیم پاکستان سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔ جب 1980 کی دہائی میں اسامہ بن لادن نے پہلی بار سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تو حقانی نیٹ ورک نے اُنھیں اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔

اُس وقت اِس تنظیم کو سی آئی اے کی حمایت حاصل تھی اور سرد جنگ کے دوران وہ امریکی پراکسی کی حیثیت سے رقم اور ہتھیار وصول کرتے تھے۔

افغانستان سے روسی انخلا کے بعد جب امریکی امداد ختم ہوئی تو آئی ایس آئی نے حقانی نیٹ ورک سے ملاپ کر لیا اور امریکہ سے ملنی والی فنڈنگ دوبارہ سے حقانی نیٹ ورک کو دینا شروع کر دی۔

نائن الیون حملے کے بعد اِس تنظیم نے افغانستان میں نیٹو افواج پر حملے کرنے اور مغربی اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اِس کے القاعدہ سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ تنظیم طالبان میں بھی کافی اثرورسوخ رکھتی ہے۔

مراسلوں میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیمپ کی بیرونی سکیورٹی کے سربراہ کو حملے میں مدد کرنے پر ایک لاکھ امریکی ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بیرونی سکیورٹی کے ذمہ دار ایک افغان فوجی تھے، جنھیں صرف ارغوان کے نام سے جانا جاتا تھا۔

ارغوان نے خودکش بمبار کو پاک افغان سرحد کے قریب سے اپنے ہمراہ لیا اور تین سکیورٹی چوکیوں سے حملہ آور کو گزار کر بیس کے اندر تک لے گئے۔ جہاں بلاوی نے اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا لیا، حملے میں اُن سے ملنے کے لیے جائے وقوعہ پر موجود تین ایجنٹ بھی ہلاک ہوگئے تھے۔

مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے ایک لاکھ امریکی ڈالر ارغوان کو دیے تھے، لیکن اِس دھماکے میں وہ بھی ہلاک ہوگئے۔

یاد رہے کہ امریکہ نے کئی دفعہ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے مگر پاکستان نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیا۔حتیٰ کہ آپریشن ضرب عضب جسے دو سال ہونے کو ہیں میں بھی حقانی نیٹ ورک کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

حکومت پاکستان نے اس الزام کو مسترد کیا ہے ۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی اور اس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں خود کش حملہ آور کو تحریک طالبان پاکستان کے کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

وزارتِ خارجہ نے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے پاکستان نے کئی فوجی کارروائیوں کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان اور دوسری شدت پسند مسلح تنظیموں کو بڑی حد تک کمزور اور غیر موثر کر دیا ہے۔

حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس کے دسیوں ہزار افراد اور پانچ ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

BBC, News desk

Comments are closed.