بلوچ لاپتہ افراد: ریاست پاکستان کااقبالِ جرم

ہمگام

missing-persons-a-serious-issue 
بلوچستان گذشتہ اڑسٹھ سالوں سے شدید فوجی جارحیت ، قتل و غارت اور ایک منظم نسل کشی کا شکار رہا اور اس پر مستزادیہ کہ شدید تشدد کاشکار بننے کے باوجود یہ خطہ عالمی برادری ، اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا کی طرف مجرمانہ خاموشی اور بدترین نظراندازی کا بھی سامنا کرتا رہا ہے ۔ مارچ 1948 میں منظم فوج حملے اور چڑھائی کے بعد بلوچستان اپنے آزادی سے محروم پاکستانی فوج کے قبضے میں ہے ، اور اس قبضے کو مضبوط رکھنے اور دوام بخشنے کیلئے اسے نو گو ایریا بنایا ہوا ہے۔

فوج ایک منظم حکمت عملی کے تحت اپنی قبضہ گیری معاشی مفادات کی خاطر بلوچوں کی نسل کشی کررہا ہے اور اس نسل کشی اور بلوچستان کے آزادی کیلئے اٹھنے والے تحریکوں کو انتہائی سفاکانہ طریقے سے کچلنے کیلئے طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے ، جس میں بلوچ آبادیوں پر بمباری ، متحرک بلوچ سیاسی کارکنوں ، تعلیم یافتہ طبقے اور صحافیوں کو خاص طور پر اغواء کرکے لاپتہ کرنا اور بعد ازاں اپنے غیر قانونی و غیر انسانی حراست میں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بناکر مار کر انکی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھینکنا شامل ہے ۔ 

گذشتہ پندرہ سالوں سے جاری بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے پاکستان فوج تاریخ کے کسی بھی دور سے کئی گنا زیادہ طاقت بلوچوں پر استعمال کررہی ہے ۔ ہمیشہ کی طرح بمباریوں اور فوجی آپریشنوں میں اب تک سینکڑوں بلوچ بے دردی کے ساتھ مارے گئے ہیں۔ اس دوران سب سے سنگین انسانی مسئلہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو ایک انتہائی بڑی تعداد میں اغواء کرکے لاپتہ کردینے کی صورت میں سامنا آیاہے۔

لاپتہ بلوچ افراد کے بازیابی کیلئے متحرک انسانی حقوق کے تنظیم انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق اس وقت بیس ہزار سے زائد بلوچوں کو پاکستان فوج اور خفیہ ادارے اغواء کرکے لاپتہ کرچکے ہیں ، اور اب تک ان لاپتہ افراد میں سے دو ہزار سے زائد افراد کی قابل پہچان مسخ شدہ انتہائی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مل چکی ہیں ، اسی طرح بلوچستان میں سینکڑوں اور ناقابلِ پہچان تشدد زدہ لاشیں مل چکی ہیں جن کے بارے میں یہی شبہہ کیا جاتا ہے کہ وہ بھی بلوچ لاپتہ افراد کی ہیں ۔ ان میں قابلِ ذکر 2014 میں بلوچستان کے علاقے توتک سے ملنے والی اجتماعی قبریں ہیں جن سے 169 لاشیں نکالی گئی ان میں سے محض تین کی شناخت آواران بلوچستان کے رہائشیوں سے ہوئی جنہیں دن دہاڑے پاکستانی فرنٹیئر کور نے اغواء کیا تھا جبکہ باقیوں کے چہروں پر چون انڈیل کر انہیں مسخ کیا گیا تھا ۔ 

ان لاپتہ بلوچوں کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے بلوچ سیاسی تنظیموں او روائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے ہر ممکن اقدامات اٹھائے اور احتجاج کیا۔ خاص طور پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز مسلسل احتجاج پر ہے جو لگ بھگ دو ہزار دنوں کی علامتی بھوک ہڑتال اور کوئٹہ سے لیکر اسلام آباد براستہ کراچی پیدل مارچ ریکارڈ کرچکی ہے ، لیکن ان سب کے باوجود پاکستان نا صرف ان لاپتہ بلوچوں کے اغواء سے انکار کرتا رہا ہے بلکہ دوسری طرف اس عمل کو شدت کے ساتھ جاری بھی رکھا ہوا ہے ۔

نام نہاد نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچ آبادیوں پر بے تحاشہ بمباری ، قتل و غارت ، حراستی قتل اور بلوچوں کو اغواء کرنے کے شدت میں انتہائی تیزی بھی پیدا کرچکا ہے ۔اس جاری منظم نسل کشی کے باوجوداقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے اس سنجیدہ انسانی مسئلے کے بابت کوئی بھی قدم اٹھانے سے قاصر رہے اور چپ سادھے ہوئے ہیں جس کا جواز وہ عدم ثبوت کو قرار دیتے رہے ہیں حالانکہ مختلف مواقعوں پر پاکستانی ذمہ داران میڈیا میں ان بلوچوں کے اغواء و قتل کے بابت اقبال جرم میڈیا میں کرچکے ہیں جن میں جنرل مشرف دور میں بلوچستان کے سابق گورنر اویس غنی اور پاکستانی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ بالترتیب آٹھ اور چار ہزار بلوچوں کو اغواء کرکے لاپتہ کرنے کو تسلیم کرچکے ہیں ۔ جن کے بیانات ریکارڈ پر ہیں ۔

گذشتہ دن بلوچستان میں تعینات سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے پاکستانی میڈیا گروپ ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار پھر بلوچ سیاسی کارکنوں کو اغواء کرکے لاپتہ کرنے اور عام شہریوں کو قتل کرنے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ (نام نہاد) نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج ابتک 12234 بلوچوں کو اغواء کرکے لاپتہ اور 323 بلوچوں کو مار چکے ہیں ۔ گوکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ سیاسی پارٹیوں کے اعدادو شمار کے مطابق اغواء ہونے اور جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے بلوچوں کی تعداد اکبر حسین درانی کے بیان کردہ تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن اکبر حسین درانی کے بیان کردہ 12234 گرفتار بلوچ وہ ہیں جنہیں لاپتہ بلوچ کہا جاتا ہے اور جن کی بابت گذشتہ طویل عرصے سے احتجاج کیا جارہا ہے اور مارے جانے والے 323 افراد وہ مسخ شدہ لاشیں ہیں جنہیں ریاستی تحویل میں تشدد کا نشانہ بناکر مار دیا جاتا ہے اور بعد ازاں انکی لاشیں پھینک کر انہیں جعلی مقابلوں میں مارنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ۔

بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ اکبر درانی کے مطابق یہ تمام افراد نیشنل ایکشن پلان کے تحت اغواء و قتل کیے گئے ہیں یعنی یہ تمام افراد وہ ہیں جو گذشتہ دو تین سالوں کے دوران اغواء و قتل کیے گئے ہیں اگر گذشتہ سولہ سالوں کے ریکارڈ کا اندازہ لگایا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر دو تین سالوں میں 12234 بلوچ اغواء کیے گئے ہیں تو پھر یقیناًسولہ سالوں میں لاپتہ افراد کی تعددبیس ہزار سے زائد اور مسخ شدہ لاشوں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے جو وائس فار بلوچ مسنگ اور بلوچ سیاسی تنظیموں کے اعداد و شمار کی تصدیق کرتی ہے ۔ 

اسی طرح بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کے بابت بلوچ آزادی پسند حلقے طویل عرصے سے دنیا کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن عمومی طور پر پاکستانی فوج بلوچستان میں کسی فوجی آپریشن کی تردید کرتا رہا ہے لیکن اپنے اسی انٹرویوں میں بلوچستان کے وزیر داخلہ جو عمومی طور پر خفیہ اداروں کی ہی نامزد کردہ ہوتا ہے یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اسی نام نہاد نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان میں 2622 آپریشنز ہوچکے ہیں ۔

در یں اثناء ایشین ہیومن رائٹس نے 25 اپریل کو ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان آپریشنوں میں بے گناہ عام شہریوں کو نشانہ بناکر انہیں ہلاک و اغواء کیا جاتا ہے ، انہی آپریشنز کے بابت خاص طور کوہان آپریشن کے متعلق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی کچھ دن پہلے اپنے بیان میں کہہ چکا ہے کہ اس کے دوران 32 بے گناہ بلوچوں کو مار کر انہیں بلوچ مزاحمت کار ظاھر کیا گیا ہے ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان 2622 آپریشنوں کے دوران کتنے بے گناہ بلوچوں کو مارا اور اغواء کیا گیا ہوگا ، لیکن آج تک کسی عالمی ادارے یا میڈیا ادارے نے ان آپریشنوں کے حقیقت حال پر تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، اور نا ہی اکبر حسین درانی نے یہ بتایا ہے کہ یہ گرفتار ( لاپتہ) 12234 بلوچوں کو کس جیل میں رکھا گیا ہے اور کس عدالت میں ان پر مقدمات چل رہے ہیں ۔ جس سے یہ خدشہ اور مضبوط ہوگیا ہے کہ یہ تمام افراد بھی مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں واپس آئیں گے یا اجتماعی قبروں کا شکار ہونگی ۔

بلوچستان کے مخدوش حالات اور پاکستانی انتظامیہ کے اپنے تسلیم کردہ اعدادو شمار کا نوٹس لیکر اقوام متحدہ سمیت عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے پاس بلوچستان کے مسئلے میں مداخلت کرنے کا ٹھوس جواز موجود ہے لیکن سوال ایک بار پھر یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے اپنا حقیقی کردار ادا کریں گے یا پھر وہ پاکستانی لابینگ اور عالمی سیاسی دلچسپیوں کی نذرہوکر اس مسئلے پر ایک بار پھر مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے پاکستان کو بلوچ نسل کشی کا گرین سگنل دیں گے ؟ 

Comments are closed.