مسلمان اور جمہوریت۔۔ دو متضاد نظریے

A demonstrator holds newspaper read "Black day of the press" during a protest outside the Cumhuriyet newspaper in Istanbul, Turkey, November 27, 2015. REUTERS/Osman Orsal

تجزیہ نگاروں کے مطابق مسلمان اور جمہوریت دو متضاد نظریے ہیں۔ مسلمان اقتدار میں آنے کے لیے جمہوریت کو استعمال کرتےہیں اوراقتدار آنے کے بعد خلافت کے نام پر تاحیات پورے اختیارات کے ساتھ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ بقول ترکی کے صدر طیب اردوان جمہوریت ایک ایسی ٹرین ہے جب آپ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائےتو آپ کو اتر جانا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمان  جمہوریت سے زیادہ خلافت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر نے نئے دستور میں بنیادی تبدیلیوں کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ اسپیکر کے مطابق نئے دستور میں سیکولراصولوں کو ہرگز شامل نہیں کیا جانا چاہیے ۔

ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر اسماعیل کہرامان نے نے کہا ہے کہ نئے دستور میں ترک قوم کا تشخص اور شناخت ایک اسلامی قوم کے طور پر ہونا ضروری ہے۔ ان کے خیال میں نئے دستور میں سیکولر قواعد و ضوابط کو قطعاً شامل نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ ضروری ہے کہ دستور کی اساس مذہب پر ہو۔ کہرامان نے ان خیالات کا اظہار ایسے وقت میں کیا ہے جب سارے ملک میں نئے دستور میں تبدیلیوں سے متعلق بحث و تمحیص جاری ہے۔

ترک دستور میں تبدیلیوں کے حوالے سے یہ بھی زیر بحث ہے کہ منصبِ صدارت رسمی نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس منصب پر فائز شخصیت کو سربراہ مملکت و حکومت کے تمام اختیارات حاصل ہونے چاہییں۔ ترکی پر اِس وقت صدر رجب طیب ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے اور دو مرتبہ وزیراعظم رہنے کے بعد وہ اب صدر بن چکے ہیں۔ جب سے وہ صدر بنے ہیں تب سے وہ منصبِ صدارت کو مزید طاقتور بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایردوآن کا موجودہ منصب بنیادی طور پر دستوری ہے لیکن وہ ملک کے ہر انتظامی و سیاسی مسئلے بارے رائے دینا اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں جتنا کہ وزیراعظم کا حق ہے۔

پیر کی شام اسپیکر اسماعیل کہرامان نے کہا کہ ترکی ایک اکثریتی مسلمان ملک ہے، جہاں تمام اہم مذہبی ایام پر سرکاری طور پر چھٹی منائی جاتی ہے اور ریاست اسلام کی بطور دین حمایت بھی کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ترک اسلامی قوم ہے اور اس باعث ایک نئے مذہبی دستور کی تخلیق ضروری ہے۔ اُن کے بیان کو ترک نیوز ایجنسی انادولُو نے رپورٹ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں سیکولر اصولوں کی نئے دستور میں شمولیت کے تصور کو پُر زور انداز میں مسترد کر دیا۔

یہ امر اہم ہے کہ حکمران قدامت پسندجسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے رہنما اور صدر رجب طیب ایردوآن کافی عرصے سے ترکی کے لیے ایک نئے دستور کے حوالے سے بحث کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ دستور سن 1980 کی فوجی بغاوت کے بعد متعارف کروایا گیا تھا اور اِس کی شناخت سیکولر اصولوں پر متعین کی گئی تھی۔ یہ اصول جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے پیش کردہ تصور کے عکاس ہیں۔

اس دستور کی ایک انتہائی اہم شق میں درج ہے کہ ریپبلک آف ترکی ایک جمہوری، سیکولر اور فلاحی ریاست ہے جہاں قانون کی حکمران ہو گی۔ ابھی تک دستور کی سیکولر نظام والی شق کو ناقابلِ تنسیخ تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن اب نئی آوازیں اِس کے خلاف بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

ترکی کی مرکزی اپوزیشن پارٹی پیپلز ریپبلکن پارٹی ایک سیکولر ترکی کی حامی ہے۔ اِس جماعت کی بنیاد بھی اتاترک نے رکھی تھی۔

اِس پارٹی کے سربراہ کمال کلِچدار اولُو نے اسپیکر کے بیان کے جواب میں ٹویٹ کیا ہے کہ ترکی ایک سیکولر ریاست ہے، اسی لیے یہاں مذہبی آزادی میسر ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکمران جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے تمام کلیدی رہنما بشمول کہرامان اور ایردوآن کالعدم رفاہ پارٹی کے اراکین ہیں۔ ترکی کی اعلیٰ ترین دستوری عدالت نے رفاہ پارٹی کو سن 1998 میں دستور کی سیکولر شقوں کے منافی نظریات رکھنے پرخلاف قانون قرار دے کر تحلیل کر دیا تھا۔

DW & News Desk

یہ بھی پڑھیں

جمہوریت سے آمریت کی طرف گامزن

Comments are closed.