لازوال فنکار…..دلیپ کمار

ذوالفقار علی زلفی

Dilip-Kumar

ایکٹر آف میلینئم کا اعزاز پانے والے امیتابھ بچن اور منہ پھٹ نصیرالدین شاہ این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے کہ ایک سوال پر نصیرالدین شاہ نے کہا دلیپ کمار بہت زبردست اداکار ہیں مگر میرے نزدیک امیتابھ بچن ان سے بڑے فنکار ہیں….یہ سن کر امیتابھ کا چہرہ متغیر ہوگیا انہوں نے نرمی سے جواب دیا میں دلیپ کمار جی سے آگے جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا البتہ میں نے ہمیشہ ان کے برابر آنے کی کوشش کی ہے مگر افسوس میں ان کے برابر بھی نہ آسکا۔۔۔

دلیپ کمار جنہیں ٹریجڈی کنگاور شہنشاہ جذبات”  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تاحال ہندی سینما کے وہ واحد اداکار ہیں جن کے فن نے ایک عالم کو مسحور کیے رکھاامیتابھ بچن ، منوج کمار اور راجندر کمار سمیت دور حاضر کے سپر اسٹار شاہ رخ خان نے نہ صرف ان کی نقل کی بلکہ ہمیشہ ہر فورم پر اس کا فخریہ اعتراف بھی کیا….دلیپ کمار کا انداز اور ان کی ڈائیلاگ ڈلیوری کا ہی کمال ہے کہ وہ راج کپور ،دیو آنند اور اشوک کمار جیسے چمکتے ستاروں کے جھرمٹ میں بھی منفرد نظر آتے ہیں۔

وہ سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈ وصول کرنے والے اداکار ہیں گوکہ موجودہ سپر اسٹار شاہ رخ خان بھی دلیپ کمار کی طرح آٹھ فلم فیئر جیت چکے ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ خان نے تمام ایوارڈ ماسوائے فلم بازیگرکے جس میں انہوں نے دیوارکے امیتابھ بچن کی بھی کاپی کی  دلیپ کی نقالی کرکے حاصل کیے۔

ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ہدایتکار ڈیوڈ لین نے اپنی شہرہ آفاق فلم لارنس آف عربیہ”  میں شریف علی کے کردار کیلئے سب سے پہلے دلیپ کمار کو ہی منتخب کیا مگر بدقسمتی سے انہوں نے معذرت کرلی ان کی معذرت کے بعد یہ کردار مصری اداکار عمر شریف نے ادا کیا اگر دلیپ کمار معذرت نہ کرتے تو ان کی امر فلموں میں یہ ایک بہترین اضافہ ہوتا۔

ان کا ایک انکار فلم سنگمکو بھی سہنا پڑاراج کپور فلم کے دوسرے لیڈ رول کیلئے دلیپ کمار کو لینا چاہتے تھے مگر ان کے انکار کے بعد انہیں وہ کردار راجندرکمار کو دینا پڑا اگر دلیپ کمار انکار نہ کرتے تو فلم اندازکے بعد یہ دوسری خوبصورت یکجائی ہوتیاسی طرح انہوں نے محبوب خان کی کلاسیک مدر انڈیاکو بھی انکار کیا کیونکہ وہ اپنی ہیروئن نرگس کا بیٹا نہیں بننا چاہتے تھے جو بعد ازیں سنیل دت بنے۔

ھندی سینما کے لازوال فنکار دلیپ کمار 11 دسمبر 1922 کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے ہاں یوسف خان کے نام سے پیدا ہوئے….دلیپ کمار کے بقول ان کا تعلق ہندکو بولنے والے اعوان برادری سے ہے۔

چونکہ ان کے والد کے پھلوں کے باغات ناسک (مہاراشٹر) کے قریب بھی تھے اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ناسک کے قریب دیو لالی کے برنس اسکول سے ہوا….غالباً 1932 کو ان کے خاندان نے ہمیشہ کیلئے ممبئی کو اپنا ٹھکانہ بنالیا….انجمن اسلامیہ اسکول سے میٹرک اور خالصہ کالج سے بی.اے کرنے کے بعد انہیں پونا کے ملٹری کینٹین میں مینیجر کی نوکری مل گئی۔

وہ 1942 کا پرآشوب سال تھا جب پورے ہندوستان میں آزادی اور تقسیم کے نعرے گونج رہے تھے , نوجوان یوسف خان اپنے والد کے ایک دوست کے ہمراہ شوٹنگ دیکھنے بمبئے ٹاکیز پہنچے۔

FB_IMG_1460894546404

ھندی سینما کی خاتون اول اور بمبئے ٹاکیز کی شریک سربراہ دیویکا رانی کو مردم شناس مانا جاتا ہے اور اس مردم شناس کی نظر شوٹنگ دیکھنے والے پشاوری نوجوان پر پڑیانہوں نے نوجوان سے پوچھا , کیا آپ کو اردو آتی ہے؟ ہاں میں جواب سن کر خاتون نے دوسرا سوال داغا ، اداکاری کروگے؟ نوجوان نے جو جواب دیا سو دیا مگر اس جواب کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے اور نجانے کب تک سنائی دیتی رہے گی….جب جب یوسف خان سے دلیپ کمار بنتے فنکار کی بات ہوگی تب تب دیویکارانی کا ذکر بھی آئے گا۔….

انہوں نے بمبئے ٹاکیز کی ملازمت اختیار کرکے تین فلموں کے معاہدے کیےاس زمانے کے فلمی چلن کے مطابق ان کے سامنے تین فلمی نام رکھے گئے واسو دیو ، جہانگیر خان اور دلیپ کمارانہوں نے جہانگیر خان کا نام پسند کیا مگر معروف مصنف بھگوتی چرن ورما نے دلیپ کمار پر اصرار کیا بعد ازاں اس اصرار کے پلڑے میں دیویکا رانی نے بھی اپنا وزن ڈال دیا اور یوسف خان دلیپ کمار بن گئے۔

سنہ1944 میں امیہ چکرورتی کی ہدایت میں ان کی پہلی فلم جواربھاٹاریلیز کی گئی….یہ ایک میوزیکل ڈرامہ ہے جس میں دلیپ کمار کی اداکاری انتہائی بھونڈی اور بکواس ہے۔

اس کے بعد 1945 اور 1947 کو بمبئے ٹاکیز کے بینر تلے ان کی دو فلمیں بالترتیب پرتیما اور ملن آئیں….یہ فلمیں بھی عوام کو متوجہ کرنے میں ناکام رہیں البتہ ملن میں اس دلیپ کمار کی جھلک ضرور ملتی ہے جس نے بعد میں ھندی سینما کو ایک نئی پہچان دی۔

سنہ1947 کے ہنگامہ خیز سال میں جہاں ملننے ناکامی کا منہ دیکھا وہاں شوکت حسین رضوی کی ہدایت میں ان کی چوتھی فلم جگنونے دھماکہ خیز انٹری ڈالی….اس فلم کی ہیروئن شوکت رضوی کی شریک حیات اور بعد میں ملکہ ترنم کا خطاب پانے والی نورجہاں ہیں….فلم کی کامیابی سمیٹتے سمیٹتے شوکت رضوی اور نورجہاں نوزائیدہ پاکستان ہجرت کرگئے تاہم وہ جاتے جاتے ہندی سینما کو وہ تحفہ دے گئے جس نے جگنو جیسی ہی روشنی پائی۔

سنہ1948 کو آزاد ہندوستان کی فضاؤں میں ان کی پانچ فلمیں سینماؤں کی زینت بنیں مگر کامیابی صرف شہیدکو ملی ، گوکہ شہید بھی کچھ خاص نہیں ہے مگر جدوجہد آزادی کے مناظر اور خوبصورت گیتوں کے باعث جذبہ قوم پرستی سے سرشار عوام نے اسے خوب پذیرائی بخشی….دلیپ کمار انڈسٹری میں جگہ بنا چکے تھے مگر ان کی حیثیت تاحال دوسرے درجے کی تھی۔

سنہ1949 کو ان کی فلم شبنمنے بھی باکس آفس کو اپنے نام کیا….کئی سالوں بعد اداکار منوج کمار نے ایک انٹرویو میں کہا مجھ میں اداکار بننے کا شوق جگنو اور شبنم میں دلیپ کمار کی متاثر کن اداکاری دیکھنے کے بعد پیدا ہوا ،بلاشبہ شبنم ایک اچھی فلم ہے مگر وہ فلم جس نے 1949 کے دلیپ کمار کو دوسرے درجے سے اٹھاکر اول درجے کے اداکاروں کی صف میں شامل کیا وہ شبنم نہیں بلکہ لیجنڈ ہدایت کار محبوب خان کا میوزیکل ٹریجڈی ڈرامہ اندازہےراج کپور ، نرگس اور دلیپ کمار کی اس ٹرائینگل لو اسٹوری کو ہر سطح پر سراہا گیاناکام محبت کے جنازے پر دلیپ کمار کے سوگوار انداز نے فلم بینوں کی روح تک کو چھولیا اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

سنہ1950 سے لے کر 1958 تک جوگن، آرزو، بابل” “ترانہ، داغ،دیدار، دیوداس، مدھومتیاور یہودیجیسی ناقابل فراموش فلموں میں انہوں نے المیہ اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں ٹریجڈی کنگکے نام سے پکارا جانے لگا….موخرالذکر تین فلموں کے ہدایت کار بمل رائے ہیں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ بمل رائے کی تخلیقات کو اگر بلراج ساہنی کے بعد کسی نے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے تو وہ دلیپ کمار ہی ہیں۔

مسلسل المیہ اداکاری کرنے کے باعث ان کی نفسیاتی کیفیت بھی بدلنے لگی , ان پر اداسی اور غم کے بادل چھانے لگےالبتہ اس زمانے میں ان کی اداسی کا ایک اور سبب 1957 کی فلم نیا دورکی شوٹنگ کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے شام غم کی سیاہی کو مزید گہرا کیانیادور کی ہیروئن مدھوبالا اور دلیپ کمار کے درمیان محبت کا رشتہ استوار ہوچکا تھا جس میں مدھوبالا کے والد عطااللہ کی ناپسندیدگی کی تلخی بھی شامل تھی ۔

نیادور کی آدھی شوٹنگ کے بعد ہدایت کار بی.آر چوپڑا نے باقی شوٹنگ بھوپال میں کرنے کا اعلان کیا جسے عطاللہ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ دلیپ کمار کی سازش ہے تانکہ وہ بھوپال میں میری بھولی بیٹی سے کھل کر جھوٹی محبت کا ناٹک کرے ، بات کافی آگے بڑھ گئی ، معاملہ کورٹ کچہری تک پہنچ گیا ناچار مدھو بالا کی جگہ وجینتی مالا کو سائن کردیا گیا۔اس واقعے اور اس سے منسلک دیگر تلخیوں نے ان کی رومانی زندگی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ….اپنے نفسیاتی معالج کے مشورے پر انہوں نے اداس کرداروں سے کنارہ کشی اختیار کرلی مگر محبت!!!۔

FB_IMG_1452576567331

گوکہ وہ 1952 کو ہدایت کار محبوب خان کی فلم آنمیں ایک زبردست ٹیکنی کلر کردار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرچکے تھے لیکن اس کے باوجود بعض نقادوں کا ماننا تھا کہ وہ دوسری قسم کے کرداروں کو ادا نہیں کرپائیں گے مگر 1960 کی کوہ نورنے تمام اندازے نہ صرف غلط ثابت کردیے بلکہ اس فلم کے ایک گیت مدھ بن میں رادھیکا ناچے رےکو فلمانے سے قبل انہوں نے اداکاری میں حقیقت کا عنصر پیدا کرنے کیلئے کڑی محنت کرکے ستار بجانا بھی سیکھا اور اس کوشش میں ان کی انگلیاں تک زخمی ہوگئیںقبل ازیں نیادور کیلئے بھی اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے انہوں نے باقاعدہ تانگہ چلانے کی تربیت حاصل کی۔

فلم کوہ نور کامیاب رہی اور ان کی اداکاری کو فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا مگر ان کا کوہ نورچرایا جاچکا تھا…..1960 میں ہی ان کی دوسری فلم مغل اعظمبھی بلاک بسٹر ثابت ہوئی مگر وہ محبت کی بازی ہار چکے تھے , ان کی انارکلی بھی صاحب عالم کی طرح ان سے چھن چکی تھی…..مغل اعظم کی شوٹنگ کے دوران مدھوبالا اور ان کے درمیان بات چیت تک بند ہوچکی تھی ، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ پھیر لیا کرتے تھے….. فلم کے رومانی مناظر دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان نفرت کا رشتہ ہے ایک طرح سے یہ ان دونوں فنکاروں کے فن کی بلندی کی دلیل بھی ہے۔

کئی سالوں بعد دلیپ کمار نے اعتراف کیا کہ وہ ناراضگی کے باوجود مدھوبالا سے متاثر تھے ایک اداکارہ کے طور پر بھی اور ایک عورت کے طور پر بھی….ان کے بقول جب وہ آخری بار مدھو بالا سے ملنے گئے تو کمزور اور شدید بیمار مدھو بالا نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے اپنا شہزادہ کہہ کر مخاطب کیا اور سائرہ بانو سے شادی کی مبارکباد دی…..وہ کہتے ہیں یہ سن کر میرے آنسو چھلک پڑے۔

وہ الفت کے تقاضے تو نبھا نہ سکے مگر انہوں نے اپنے فن پر آنچ نہ آنے دیا….1961 میں انہوں نے اپنے زاتی سرمائے سے فلم گنگا جمنابنائی جس کی ہدایت نیتن بوس نے دی….اس فلم میں انہوں نے وہ کر دکھایا جس کی توقع کسی کو نہ تھی ۔ بقول راج کپور ، میں اس روانی سے دلیپ کو پچھم کی زبان بولتے دیکھ کر حیران رہ گیا….امیتابھ بچن کہتے ہیں کہ وہ زمانہ طالبعلمی میں اس فلم کو روز الہ آباد کے سینما میں دیکھنے جایا کرتے تھے….دلیپ کمار کی بہترین فلموں کی فہرست لمبی ہے مگر گنگا جمنا ایک ایسی فلم ہے جسے میں ان کی تمام فلموں پر حاوی تصور کرتا ہوں۔

تین سال کے طویل عرصے بعد 1964 کو ان کی فلم لیڈرآئی جو اپنے بہترین گیتوں کے باوجود بکواس ثابت ہوئی… 1966 کو وحیدہ رحمان کے ساتھ رشید کاردار کی ہدایت میں دل دیا درد لیاآئی جو ایملی برونٹس کے ناول ودرنگ ہائٹس سے ماخوذہے فلم کامیاب رہی لیکن یہ فلم ان کی سابقہ فلموں کے ہم پلہ ہرگز نہیں ہے تاہم 1967 کی ڈبل رول پر مبنی فلم رام اور شیامکو ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاسکتا ہےاس فلم میں ان کے مقابل وحیدہ رحمان اور صدی کی خوبصورت ترین اداکارہ کا اعزاز پانے والی ممتاز ہیں….رام اور شیام کو نہ صرف وسیع پیمانے پر پسند کیا گیا بلکہ متعدد دفعہ اس کی نقل بھی کی گئی جیسے ہیمامالنی کی سیتا اور گیتا، سری دیوی کی چالبازاور انیل کپور کی کشن کنہیا۔

رام اور شیام کی ریلیز سے قبل 1966 کو وہ پڑوسن فلم سے شہرت پانے والی حسین ساحرہ سائرہ بانوکے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے….یہ شادی تاحال قائم ہے لیکن بدقسمتی سے یہ خوبصورت فلمی جوڑا محمدعلی زیبا کی طرح اولاد کے سکھ سے محروم ہے۔

سنہ1968 کو سنگھرشاور آدمیکی کامیابی کے بعد ان کی فلمیں یکے بعد دیگرے ناکام ہوتی گئیں….1976 کو بیراگکی ناکامی کے بعد وہ فلموں سے دور ہوگئے….1980 کو ان کے سب سے بڑے پرستار , ہدایت کار و اداکار منوج کمار نے انہیں اپنی فلم کرانتیکی آفر کی جسے انہوں نے قبول کرلیا….فلم 1981 کو ریلیز کے ساتھ ہی ہٹ ہوگئی….یہ فلم بھی شہیدکی طرح کچھ خاص نہیں ہے مگر آزادی کی جدوجہد کے مناظر اور خوبصورت گیتوں کے باعث کامیابی کے تخت پر جا بیٹھی….کرانتی کے باعث دلیپ کمار ایک بار پھر فلمی دنیا میں اسی آن اور شان کے ساتھ آگئے جو ان کا خاصہ تھا۔

سنہ80 کی دہائی میں یوں تو ان کی بہت سی فلمیں آئیں مگر میری دانست میں ان کی اہم ترین فلمیں تین ہیں…1982 میں رمیش سپی کی ہدایت میں شکتیجس میں انہوں نے ایک قانون پسند پولیس آفیسر اور ایک اصول پسند باپ کا کردار ادا کیا جبکہ ان کے مقابل امیتابھ بچن تھے جنہوں نے ایک انارکسٹ بیٹے کا کردار نبھایافلم میں گوکہ دونوں کی اداکاری اعلی رہی مگر میں سمجھتا ہوں بعض سیکوئنس میں انہوں نے امیتابھ بچن کو آؤٹ کلاس کردیا ہے۔

اس فلم کے بعد راجکمار نے کہ، ھندی سینما میں صرف دو کمار ہیں ایک میں دوسرا دلیپ کمار….دوسری 1984 میں یش چوپڑہ کی ہدایت میں بننے والی فلم مشعل“….اس فلم کے ایک سین نے تو کلاسیک کا درجہ حاصل کرلیا جب برسات کی رات ،سنسان سڑک پر ، اپنی مرتی بیوی کی زندگی بچانے کیلئے دلیپ کمار مدد کی فریاد کرتے ہیں….اس سین میں ان کا انداز ،ڈائیلاگ ڈلیوری ، جسم کی حرکت الغرض ہر چیز شاندار ہے جبکہ تیسری فلم 1986 میں وطن دوستی پر مبنی کرماہے جس کے ہدایت کار سبھاش گئی ہیںاس فلم میں بھی ان کا فن سر چڑھ کر بولتا ہے….کہا جاتا ہے اس فلم کی شوٹنگ کے دوران دلیپ کمار اور ان کے ساتھی اداکار نصیرالدین شاہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے جو تاحال معمول پر نہ آسکے شاید اسی لیے نصیر ، امیتابھ کو دلیپ سے بڑے فنکار مانتے ہیں البتہ یہ محض میرا اندازہ ہے۔

FB_IMG_1460894541040

سنہ90 کی دہائی میں ان کی صرف تین فلمیں آئیںان میں سے بھی صرف 1991 کی سوداگردیکھنے کے قابل ہے جس میں ان کے مقابل ھندی سینما کے دوسرے کمار راج کمارتھے….ان دونوں کی دوستی اور دشمنی سے پیدا ہونے والے ڈائیلاگ ہی اس فلم کی جان ہیں دوسری صورت میں یہ بھی بہترین فلم نہیں کہی جاسکتی….ان کی آخری فلم 1998 کی قلعہثابت ہوئی اور افسوس کہ یہ بھی کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، دلیپ کمار آج جس مقام پر فائز ہیں وہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا اپنے چوّن سالہ کیریئر میں انہوں نے سینما پر ایک بادشاہ کی طرح راج کیا ، سینکڑوں ایوارڈ سمیٹے ، برصغیر (بھارت ،پاکستان اور بنگلہ دیش) میں ان کا نام بنا کسی تعصب کے احترام اور محبت سے لیا جاتا ہے۔

صدی کے بہترین اداکار کا اعزاز امیتابھ بچن کو حاصل ہے مگر دیکھیے امیتابھ خود کہتے ہیں میں دلیپ کمار کا سایہ ہوںدلیپ کمار آج کل کافی علیل ہیں ،زندگی ان کو بس چھوڑنے ہی والی ہے مگر ان کا نام اور کام ہمیشہ رہے گا۔

Comments are closed.