ریاست کو اپنےعوام کی بہتری سے کوئی غرض نہیں

hammad hassan

حماد حسن

یہ تو حقیقت ہے، پاکستان اور انڈیا پچھلے 68 سال سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آرہے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ریاستی سطح پر قومی جھوٹ بولا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کا دشمن ہے۔ حالانکہ پاکستان بھی انڈیا کا دشمن ملک ہے۔

ہمیں بتایا جاتا ہے، کہ انڈیا نے دل سے پاکستان کو قبول نہیں کیا، حالانکہ ہم پاکستانیوں نے بھی انڈیا کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ یہاں تو انڈیا دشمنی باقاعدہ نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اور مسجدوں میں خطابات کے بعد ہندوستان کی بربادی کی دعائیں ایک روٹین ہے۔

اگر انڈیا پاکستان کو نقصان پہنچانے کا درپے رہا ہے۔ تو کم ہم نے بھی کبھی نہیں کیا۔ انڈیا کے اندر شورش، تخریب کاری اور انڈین باغیوں کو اخلاقی مادی مدد دی ہے۔ خواہ وہ سکھوں کی تحریک ہو یا کشمیر کی۔ ظاہری واضح معلومات کی بنا پرانڈیا پر حملہ بھی ہماری طرف سے ہربار کیا گیا۔ اورانڈیا کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں بھی ہمارے ہاں کے لوگ اور تنظیمیں ملوث رہی۔

افغانستان پر اثررسوخ کے لئے دونوں ممالک ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ دنیا کے کسی فورم میں ہم نے کبھی انڈیا کے کسی موقف اور مفاد کی حمایت نہیں کی، اور ایسے ہی انڈیا نے بھی کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ ظاہر ہے، اس طرح کے حالات میں دونوں ریاستوں کے جاسوسی کے نیٹ ورک بھی ایک دوسرے ملک میں کام کرتے ہونگے۔ جاسوسی اور کاونٹر جاسوسی ہوتی ہوگی۔

دشمنی کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ لیکن ہر فریق الزام دوسرے کے سردھرتا ہے۔ ہمارا کلیم انڈیا پر ہے۔ انڈیا کا پاکستان پرکوئی کلیم نہیں۔ یعنی باہمی تنازعوں کے محرکات ہماری سائڈ پرہیں۔ کوئی عقل کا اندھا ہی ہوسکتا ہے، جو سمجھتا ہوں، ہم جنگ کے ذریعے انڈیا سے اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں۔ وہ بھی عقل کا اندھا ہی ہوگا، جو سمجھتا ہو، کہ عالمی طاقتیں ہمارے حق میں فیصلہ کرادیں گی۔

یہ بھی ننگی حقیقت ہے، کہ انڈیا اپنی آبادی، رقبے اور طاقت کے لحاظ سے ہم سے 10 گنا بڑھا ہے۔ یعنی کسی تصادم کی صورت میں ہم انڈیا کے ہاتھوں برباد تو ہوسکتے ہیں۔ کچھ حاصل نہیں سکتے۔ ایٹمی آپشن بھی خودکشی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ اگرانڈیا کا کوئی جاسوس نیٹ ورک ہمارے ہاں ہیں، ایک تو اس سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ہماری سیکورٹی اسٹیبلش منٹ پرہی آتی ہے۔

دوسرے ہم بھی انڈیا میں کوئی پھول تو بھیجتے نہیں ہونگے۔ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو اس دشمنی کو ازلی اور ابدی طورپر نبھاتے رہیں۔ جیسے کہ ہماری سیکورٹی اسٹیبلش منٹ میں موجود ہاکس کی ہمیشہ خواہش رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا، کہ پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کبھی نصیب نہ ہوگی۔

ایک نے دس سے مقابلہ کرنا ہے۔ دس گناہ چھوٹے ہونے سے ہی ہماری خواہشوں کی شکست ہمارا مقدر ہے۔ انڈیا کی دنیا میں عزت اور مقام بھی ہم سے دس گناہ زیادہ ہے۔ گھر بیٹھ کر ہم شیخ چلی بن جائے۔ حل ایک ہی ہے، جاسوسی جاسوسی کا واویلہ کرکے دشمنی کو مزید ہوا نہ دیں۔ ہم انڈیا کے ساتھ اپنے معاملات سیاسی اور سفارتی سطح پر حل کریں۔ اپنے ناجائز جذباتی خواہشوں کا خاتمہ کریں۔ حقیقت کی دنیا میں آئیں۔

سیکورٹی اسٹیبلش منٹ خارجہ پالیسی، ہمسایہ اور عالمی طاقتوں سےتعلقات کی نوعیت کو متعین کرنے کا آئینی حق اور آزادی سیاسی قیادت کے حوالے کرے۔ یہ دشمنی دشمنی پاکستان کے مفادات کے بالکل خلاف ہے۔مذہبی انتہاپسندی، جہادی دہشت گردی کا سوال بھی انڈیا دشمنی سے جڑا ہوا ہے۔

ہم پاکستان کے اندر جس امن کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ انڈیا کے ساتھ نارمل ہمسائیگی کے تعلقات کئے بغیر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس دشمنی سے صرف سیکورٹی اسٹیبلش منٹ کو تو فائدہ ہوسکتا ہے، ان کی طاقت اور حجم اس سے بڑھتا ہے۔ لیکن سویلین پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اس سے سکڑتی ہے۔ آنے والا وقت اس طرح کی دشمنیاں کھیلنے کا نہیں ہے۔ انڈیا سے مقابلہ معاشی اور ترقی کا کریں۔ ورنہ سیدھا مطلب ہے، کہ ہمیں خود ہی اپنے 20 کروڑ لوگوں کی زندگیاں بہترکرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔

Comments are closed.